• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ محمّد ذیشان یاسین

ساون کی سنسان، اُداس دوپہر میں مرشد بوڑھے برگد کے نیچے آرام فرما تھے۔ پیرانہ سالی اور ضعف و ناتوانی دونوں میں قدرِ مشترک تھی۔ قریب ہی پانی کا کچّا گڑھا تھا اور کچھ دُور باجرہ اور گندم بکھری ہوئی تھی۔ شاخِ شجر پر بیٹھی فاختہ، خاموشی سے دانہ چُگتی معصوم چڑیاں اور کچھ ہوشیار کوّے اس گرم دوپہر کے رنجیدہ و افسردہ منظرنامے کا حصّہ تھے۔ مَیں نے سلام کیا اور باادب دو زانو ہو کر چٹائی پر بیٹھ گیا۔ مرشد بیدار ہوئے،پھر برگد کے تنے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں، اور گویا ہوئے’’اس وقت تمہارے ورود کامقصد؟‘‘ مَیں چند ساعات خاموشی سے سرجُھکائے الفاظ ڈھونڈتا رہا،جیسے سہما ہوا بچّہ اُستادِ محترم سے قبل از وقت چُھٹی مانگنے کے لیے الفاظ اور حوصلہ جمع کرتا ہے۔

پھر گزرتی ہوا سے کچھ حوصلہ اُدھار لے کر لجاجت سے عرض کیا ’’جدا ہونے کے لیے حاضر ہوا ہوں، خزاں کی آمد ہے، بچھڑنا چاہتا ہوں۔‘‘مرشد کی آنکھوں میں حیرت کے سائے لہرائے، کچھ لمحے ساکت رہنے کے بعدبولے’’تم تو کہتے تھے، کُوچ اور سفر ترک کر چُکے ہو؟‘‘مَیں نے کہا’’اپنے قول میں صادق تھا،اب ذات اور روح کے مابین معلّق ہوں، سفرتو کب کا ترک کر چُکا ہوں۔‘‘ ’’کس سے بچھڑنا ہے اور میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘

مرشد نے استفسار کیا، تو مَیں نے ایک نظر مرشد کی خم دار سفید زلفوں پر ڈالی اور ہمّت مجتمع کر کے عرض کیا’’وقت کو یہیں روک دیجیے مرشد! مَیں نے حال سے جدا ہوکر ماضی میں جانا ہے، مجھے عہدِ گزشتہ کی طرف لوٹا دیجیے۔‘‘ مرشد نے بے چینی سے مسندپرپہلو بدلتے ہوئے فرمایا ’’حال کے امر کو پہچانو، ماضی خواب ہوچُکا،سراب کی جستجو مت کرو۔‘‘ مَیں نے عرض کیا ’’خزاں کی رُت ،بچھڑنے کے لیے موزوں وقت ہے، آخر زرد پتّے بھی تو درختوں سے جدا ہونے والے ہیں۔‘‘مرشد نے خاموشی سے آنکھیں موند لیں اور برگد کے تنے کا سہارا لے کر مراقبے میں چلے گئے۔

مَیں کچھ دیر مرشد کی خاموشی سے حکمت کے موتی چُنتا رہا،پھر جب سکوت طویل تر ہو گیا تو عرض کیا’’مرشد! آپ کس سوچ میں کھو گئے؟‘‘مرشد کی نیم خفتہ آنکھیں وا ہوئیں۔ لبوں کو جنبش دی اور فرمایا ’’غور کر رہا ہوں کہ نفس اور روح میں تغیّر ذاتی اور حقیقی ہے یا محض اعتباری ہے۔‘‘مَیں نے اِک نظر آسمان کی طرف دیکھا،دُور، بہت دُور آفاق کی وسعتوں میں چند چیلیں منڈلا رہی تھیں، ہر فکر سے بے پروا،ہر غم سے آزاد،ہجر و فراق کی گفتگو سے بے نیاز۔

پھر عرض گزار ہوا’’مرشد! پہلے مجھے ماضی میں لوٹا دیجیے، مجھے علی الصباح گھر سے سپارہ لے کر ہائی اسکول کی مسجد جاناہے،چاند میں چرخہ کاتتی عورت کا ہیولا دیکھنا ہے، توتا،مینا اور فاختہ سے کچھ گفتگو کرنی ہے،توتے کو چُوری اور چڑیا کو باجرہ کھلانا ہے، جگنوؤں، تتلیوں کے پیچھے بھاگنا ہے، ٹوٹے بکھرے کھلونوں کو جوڑنا ہے، ماں کے ہاتھ کےبنےاُون کے رنگ برنگے سوئیٹر، ٹوپیاں پہننی ہیں، مٹی کے گھروندے بنا کر گرانے ہیں، عینک والے جن کی پہلی قسط دیکھنی ہے اور رات ہوتے ہی کوہِ قاف کی کہانی سُن کر سو جانا ہے۔‘‘میری بات سُن کر مرشد کے سرخ و سفید نورانی چہرے پر تفکّرات اور یادوں کے گہرے سائے پھیلتے چلے گئے۔ ماحول کچھ افسردہ، پژمردہ ساہو گیا، دانہ چُگتی چڑیاں مغموم و بے چین، فاختہ کی آنکھیں ویران وافسردہ ہوگئیں۔

مَیں نے گُم گشتہ ماضی کو کریدا تھا۔ مرشد کی پیشانی شکن آلود، جب کہ تنفّس تیز تر ہو گیاتھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بَھری، جس سے پوراماحول سرد ہو گیا۔ خنکی میرے رگ و پے میں سرایت کرنےلگی ۔ مَیں نے تیزی سے ماضی میں جھانک کر دیکھا،تو خود کو سرما کی ایک یخ بستہ ،کہر آلود اُداس رات میں چادر اوڑھے مسجد کے کونے میں خاموش بیٹھا ہوا پایا۔ ’’زمانۂ موجود پر صبر و قرار کیوں نہیں، حال سے فرار کی تمنّا کس لیے ہے؟‘‘مرشد گویا ہوئے۔مَیں نے ایک نظر خاموش بیٹھی فاختہ ،سہمی ہوئی چڑیا کی طرف دیکھا اور عرض کیا’’فصلوں پر زہریلی ادویہ کے استعمال نے پرندوں کی نسلیں معدوم کر دی ہیں، جگنو نا پید ہوگئے، درختوں کے قتلِ عام سے توتا، مینا بے گھر ہوگئے، سارے پرندے غم گین ہیں، لیکن چڑیا و فاختہ کا دُکھ سارے غموں سے سوا ہے۔ شفاف پانی زہر آلود ہوتے جا رہے ہیں۔ 

دریاؤں میں روانی نہیں رہی،جھیل، جھرنے اور سیل ِرواں سراب و ریگ رواں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔انسان کے ہاتھوں پانی کی شکست و ریخت اب دیکھی نہیں جاتی۔ درختوں کا قتلِ عام برداشت نہیں ہوتا۔توتا، مینا، فاختہ کی بے بسی اور بے گھر سہمے ہوئے اُداس پرندوں کا دُکھ اب مزید سہا نہیں جاتا۔ مرشد کی زبان ساکت اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔تسبیح کے دانے تیزی سے گرنے لگے۔ گرم دوپہر مزید ویران ہو گئی۔ چڑیا شدّتِ غم سے تڑپنے لگی، فاختہ کی آنکھیں خون ہو گئیں، پتّے تیزی سے جھڑنے، بکھرنے لگے۔کچّا گھڑا ٹوٹ کر مٹی ہو گیا۔ مَیں نے گھبرا کر مرشد کے چہرے کی طرف دیکھا، حضرت کے آنسو رخساروں سے بہتےدامن کو تر کررہے تھے۔

بدن پر لرزہ، چہرے پر رقّت طاری تھی، پھر تسبیح نیچے گِری اور ہاتھ دُعا کے لیے بلند ہو گئے۔ مَیں سمجھ گیا یہ دُعا اور قبولیت کا وقت ہے، مَیں نے بھی ہاتھ اُٹھا دیئے اور عرض کیا ’’دُعا فرمائیں، دل کا رنج و الم اور آنکھوں کی جلن ختم ہو جائے۔ میری آنکھیں بہت جلنے لگی ہیں۔‘‘ مرشد نے دُعا فرمائی، غم گین فاختہ، مجبور چڑیا کے لیے، توتا، مینا کی بے چارگی، بلبل کی اُداسی کے لیے، کٹتے ہوئے درختوں سےدربدر ہوئے پرندوں کے لیے، اپنے سلگتے دل ، جلتی آنکھوں کے لیے، مریضوں کی صحت، مسافروں کی سلامتی کے لیے، لرزتی قندیلوں، بُجھتے چراغوں کے لیے، پریشان ملّاحوں، ڈولتی کشتیوں کے لیے، سرکتے آنچلوں، بہکتے قدموں کے لیے، افسردہ ،اُداس چہروں، بے قرار دھڑکنوں کے لیے، کسان کی غربت، مزدور کی بے چارگی، بھوک سے بلکتے بچّوں اور شکستہ دِلوں کے ٹوٹتے حوصلوں کے لیے۔اور…دُعا کے بعد مَیں ٹوٹے گھڑے کی کرچیاں چُنتے سوچنے لگا کہ چڑیا کے بکھرے خواب اور فاختہ کی سوختہ آرزوئیں مَیں تنہا کیسے سمیٹ پاؤں گا۔

مرشد نے میری دہکتی پیشانی پہ ہاتھ رکھا اور فرمایا’’تمہارا چہرہ زرد ہو رہا ہے، پیشانی پر حرارت ہے، کسی طبیب کے پاس جاؤ۔‘‘مَیں نے عرض کیا کہ ’’طبیب نشتر چبھو دیتے ہیں اور ان کی کڑوی دوائیں منہ کا ذائقہ تلخ کر دیتی ہیں۔‘‘ ’’کسی حاذق حکیم سے علاج معالجہ کرواؤ۔‘‘ مرشد نے کہا۔’’حکما کے پاس روح کے زخموں کا علاج نہیں۔‘‘ مَیں نے معذرت کے ساتھ عذر پیش کیا۔ مرشد نے استفسار’’بھئی، کیا کوئی بچھڑ گیا ہے تمھارا ؟‘‘اس پر مجھے گُم شدہ ماضی اور بچھڑی ہوئی تنہا شامیں یاد آگئیں۔سو، کچھ سوچ کر عرض کیا’’چھوٹا بھائی پردیس چلا گیا، وہاں قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہے، عالمی وبا کے خوف سے قرنطینہ میں ہے ،وہ اپنی ذات کا اسیر ہے۔‘‘

مرشد گویا ہوئے’’یہ ساون ہے ،آنسوؤں کی بارشیں برسنے دو، ابھی خزاں رُت نہیں آئی، بچھڑنے میں وقت ہے،ابھی جا کر حال میں جینے والے پژمرد ہ چہروں کا مطالعہ کرو۔‘‘ درد کی ایک لہر میرے سینے میں اُٹھی اور چہرے پر آکر نقش ہو گئی، مَیں نے کانپتی آواز میں عرض کیا ’’مرشد! یہ توبہت مشکل ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، لفظ دُھندلا جاتے ہیں۔‘‘مرشد کے چہرے پر حزن و ملال کے سائے لہرائے پھر کہا ’’مطالعۂ کتب کرو اور اشیا کے درمیان پائے جانے والے فرق اور تفاوت کی پہچان کرو۔ ‘‘ مَیں نے با ادب عرض کیا’’جی مُرشد !حکم سر آنکھوں پر۔‘‘ پھر مَیں نے مغموم فاختہ اور اُداس بیٹھی چڑیا سے دست بستہ معافی چاہی اور زخمی دل، بوجھل قدموں کے ساتھ توتا، مینا، کوئل اور جگنو کی تلاش میں تنہا نکل کھڑا ہوا۔