کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوائے تازہ کا خوش گوار جھونکا لوگوں کےپاس سے گزرتا ہے، وقتی طور پر لوگ چونک بھی جاتے ہیں، مگر گھٹن کا عالم اُسی طرح برقرار رہتا ہے۔ شہرِ نابینا کے باسی اپنے آنگن میں اُترنے والے مہتاب سے بے خبر رہتے ہیں۔ محصور افراد کو فصیلوں کے پار سے پکارا جاتا ہے، مگر ان کے درِ مقفّل میں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔ روپہلی کرنیں کنارِ مژگاں کو چُھو کر واپس لوٹ جاتی ہیں، مگر بصارتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ان تمام جملہ ہائے معترضہ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اندر کے اضطراب سے لوگوں کو آگاہ کیا جائےاور اسی آگہی کے لیے ہر سال اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام 3دسمبر کو ’’انٹرنیشنل ڈے آف پرسنز وتھ ڈِس ایبلیٹیز‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اسپیشل افراد کے مسائل حل کرنا اور اُنہیں معاشرے میں باعزّت مقام دینا ہے، کیوںکہ ذہنی و جسمانی معذورین سے مشفقانہ برتاؤ نہ صرف ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ، بلکہ سماجی و معاشرتی ذمّے داری بھی ہے۔ 1992ء میں اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں اقوامِ عالم سے اپیل کی گئی کہ دُنیا بَھر کے اسپیشل افراد پورا استحقاق رکھتے ہیں کہ اُنہیں بھی دیگر افراد کی طرح زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔
گزشتہ 30برس سے یہ دِن منایا جارہا ہے، لیکن کیا اسپیشل افراد کی دُنیا میں کوئی بڑی تبدیلی آئی؟ پس ماندہ مُمالک کے تناظر میں دیکھا جائے، تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یہ دِن محض ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی مانند گزر جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ماحول کے تعفّن اور گھٹن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ تعفّن زدہ ماحول اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا، جب تک لوگوں کے رویّوں میں مثبت تبدیلی نہیں آئی گی، اسپیشل افرادکی وجۂ معذوری جان کر اُس کامثبت انداز سے تدارک نہیں کیا جائے گا۔
اِمسال یہ یوم جس تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے،وہ "Transformative Solutions For Inclusive Development: The Role Of Innovation In Fuelling An Accessible And Equitable World"ہے۔دراصل یہ تھیم دُنیا بَھر کے لوگوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسپیشل افراد کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایسے ٹھوس و منظّم اقدامات کیے جائیں، جن میں ہر قسم کی تعمیر و ترقّی شامل ہو۔ نیز، ایک ایسی دُنیا تخلیق کی جائے، جو سب کی پہنچ میں ہو اور جہاں سب کے ساتھ مساوی سلوک اختیار کیا جائے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معذوری کیا ہے؟ عام فہم انداز میں اگر بیان کیا جائے ،تو معذوری سے مُراد وہ جسمانی و ذہنی کیفیت ہے، جو ایک فرد کی سرگرمیوں، حواس اور حرکات کو محدود کر دیتی ہے۔
معذوری کی وجہ سے متاثرہ فرد کا سماجی رابطہ (Social Interaction) بھی کم زور پڑ جاتا ہے اور وہ معاشرے میں اپنا بَھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ معذوری پیدایشی بھی ہوسکتی ہے اور بعض اوقات کوئی حادثہ یا بیماری بھی اس کا سبب بن جاتی ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق’’ پوری دُنیا میں 15فی صد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں اور انہیں سماجی اعتبار سے اپنا بَھرپور کردار ادا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایک اور ادارے"Library Of Disability Statistics Publications" کی تازہ ترین (2022ء کی)رپورٹ کے مطابق’’ دُنیا کے 65 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
اسپیشل افرادکے حوالے سے پاکستان کے اعداد وشمار یقینی قرار نہیں دیے جاسکتے۔تاہم، اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کے 6.2 فی صد(تقریباً سوا کروڑ)افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ دیگر اداروں کے مطابق اصل تعداد اس بھی کہیں زائد ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ’’لوگ کسی قسم کی معذوری میں مبتلا ہیں؟‘‘تو مجموعی طور پر ساٹھ سال سے کم عُمر افراد میں سرِ فہرست ڈیپریشن اور اس کے بعد سماعت اور بصارت کے مسائل عام ہیں۔
اسپیشل افرادکی دُنیا کا جو منظرنامہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ بےحد تکلیف دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثران افراد کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، انہیں طنزو تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارا عمومی رویّہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی معذوری کی بنا پر اُنہیں کوئی نام دے دیا جاتا ہے اور پھر اُسی نام سے انہیں پکارا جاتا ہے۔ مثلاً کبڑا، اندھا، کانا، بھینگا، لنگڑا اور گونگا وغیرہ۔ حالاں کہ دینِ اسلام میں اس قسم کے منفی رویّوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
قرآنِ پاک میں بلاتفریق کسی بھی انسان کا مذاق اُڑانے اور بُرے القاب سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر11میں ہے،’’آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔‘‘ ایک روایت کے مطابق، ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی کریم ﷺکے لیے مسواک توڑنے کے لیے درخت پر چڑھے۔ اُس موقعے پر لوگوں نے اُن کی ٹانگیں دیکھ کر اُنہیں مذاق کا نشانہ بنایا۔
حضورِ پاکﷺ نے لوگوں کے اِس رویّے کو ناپسند فرمایا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ٹانگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’یہ میزانِ عمل میں اُحد پہاڑ سے بھی زیاد ہ وزن کی حامل ہوں گی۔‘‘ ہمارا دین ہر معذور کے ساتھ عزّت، وقار و تکریم کا رویّہ اپنانے کی ہدایت کرتا ہے۔ اسپیشل افراد ہماری خصوصی توجّہ کے حق دار ہیں۔ ہمیں نہ صرف اُن کی صلاحیتوں کی قدر کرنی چاہیے، بلکہ تربیت کے حوالے سے بھی اُن پر خاص توجّہ دینی چاہیے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مکّہ مکرمہ کے سرداروں اور دیگر بااثر افراد کے سامنے دین کی دعوت پیش کر رہے تھے۔
اُس موقعے پر نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم ؓمحفل میں آئے اورآپﷺ سے کوئی سوال پوچھنا چاہا، تو حضورِ پاکﷺ نے سکوت فرمایا۔ آپؐ نیک نیتّی سے یہ سمجھتے تھے کہ اگر مکّہ کے بااثر افراد اسلام قبول کرلیں، تو اس سے دعوت کو فروغ ملے گا۔ دوسری طرف حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتومؓ، اُمّ المومنین حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے وہ کسی اور وقت دین کا علم حاصل کر سکتے تھے۔ سورئہ عبس میں اللہ تعالیٰ نے پیار بَھرے انداز میں نبی کریمؐ کو ہدایت فرمائی کہ آپؐ کی دعوت کے اوّلین مخاطب وہ افراد ہیں، جو مخلص ہیں اور واقعتاً دین کا فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اِس بنیاد پر نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتومؓ ترجیح کےحق دار ہیں۔ اس واقعے سے پتاچلتا ہے کہ اصل اہمیت انسان کے جذبے اور اخلاص کی ہوتی ہے ،خواہ وہ معذور ہی کیوں نہ ہو۔ اِس اعتبار سے معذور افراد ہماری خصوصی توجّہ کے مستحق ہیں۔ معاشرے کے تمام افراد اور اداروں کی یہ اخلاقی و دینی ذمّے داری ہے کہ وہ ان افراد کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ مثلاً نابینا افراد کے لیے چھڑی اور سہارے کا انتظام کرنا، ٹانگوں سے معذور افراد کے لیے بیساکھی یا وہیل چیئر کی فراہمی وغیرہ۔
نیز، ممکن ہو تو مصنوعی اعضاء لگوانے کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے، یہ اقدامات کرکے ہم کسی پر احسان نہیں کرتے، بلکہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔اسی طرح حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اسپیشل افراد کی سرپرستی کرے، ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انہیں مناسب ذریعۂ روزگار فراہم کرے۔
اسپیشل افرادکے مسائل اورمشکلات اپنی جگہ، مگر انہیں بھی کسی طور اپنی معذوری کے سامنےہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔ ہمّت، حوصلے اور عزم کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھیں ۔ اپنی معذوری کو زندگی و موت کا مسئلہ سمجھیں، نہ ہی جبرِناروا قرار دیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ تکلیف اللہ کا عذاب نہیں، بلکہ امتحان ہے اور اس امتحان میں وہی افراد کام یاب ہوتے ہیں، جو صبرو شُکر کے مفہوم سے واقف ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جب وہ کسی نعمت سے محروم ہو جائیں، تو صبرواستقامت سے کام لیتے ہیں اور جب کوئی نعمت انہیں عطا کی جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
قدرت کچھ لے کریا دے دےدونوں طرح سے آزماتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی و موت کو تخلیق ہی اس لیے کیا ہے کہ لوگوں کا امتحان لیا جاسکے۔ یاد رکھیں، زندگی وہ دورانیہ ہے، جس میں امتحان لیا جاتا ہے اور موت، اس امتحان کے ختم ہونے کا اعلان ہےاور اس امتحان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے جسم اور تمام اعضاء کا درست استعمال کریں۔ اس لحاظ سے حقیقی معذور وہ نہیں ، جو کسی عضو سے محروم ہو، بلکہ وہ شخص حقیقی معذور ہے، جو اپنے اعضاء کا صحیح استعمال نہیں کرتا۔
ایسے لوگوں کے بارے میں قرآنِ حکیم ایک زندۂ جاوید حقیقت بیان کرتا ہے۔ ’’ان کے پاس دِل ہیں، مگر وہ اُن سے سوچتے نہیں ہیں۔ اُن کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں۔ اُن کے پاس کان ہیں، مگر وہ اُن سے سُنتے نہیں ہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے زیادہ گئے گزرے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو غفلت میں کھو گئے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 179)۔ اس حقیقی معذوری کا تذکرہ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی کیا ہے۔ وہ زندگی کے آخری دَور میں نابینا پَن کا شکار ہوگئے تھے۔
اِسی دَور میں انہوں نے وہ خُوب صُورت شعر کہا، جس میں انہوں نے اپنی بے نگاہی کی بات کی، مگر ساتھ ہی اُن لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، جو دیدہ وَر کہلاتے ہیں، مگر درحقیقت بصارت سے محروم ہوتے ہیں۔ ؎ ’’مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا…جو دیدہ وَر ہیں، اُنہیں بھی نظر نہیں آتا۔‘‘یہ شعر قرآن کی اُس آیت کی ترجمانی کرتا ہے، جو سورۃ الحج میں شامل ہے،’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، مگر وہ دِل اندھے ہو جاتے ہیں، جو سینوں میں ہیں۔‘‘
جسمانی معذوری کے شکار افراد خود کو ہر میدان میں منوانے کی بَھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمارے سامنے ایسے کئی افراد موجود ہیں، جنہوں نے اپنی معذوری کو کبھی اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور وہ کچھ کرکے دکھایا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ذیل میں ایسے ہی چندعظیم شخصیات کا مختصراً تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
٭ہیلن کیلر: امریکی خاتون تھیں، جو 1880ء میں پیدا ہوئیں اور 1968ء میں انتقال کرگئیں۔ ہیلن ڈیڑھ سال کی عُمر میں سماعت اور بصارت سے محروم ہوگئی تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسپیشل افراد کے حقوق کے لیے کام کیا۔ وہ ایک عظیم مصنّفہ تھیں۔ ان کی کتاب ’’میری زندگی کی کہانی‘‘ انگریزی کی بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
٭فرینکلن ڈی روزویلٹ(1882ء-1945ء): روزویلٹ پولیو کی وجہ سے معذور ہوگئے تھے اور اپنی اِسی معذوری کے ساتھ 1933ء سے اپنی وفات تک امریکا کے صدر رہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اپنے مُلک کی کام یاب قیادت کی۔
٭اسٹیفن ہاکنگ(1942ء-2018ء): ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ ایک اعصابی بیماری کی وجہ سے چلنے پِھرنے کے قابل نہیں رہے تھے، جب کہ قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے۔ گردن سے نیچے جسم کا کوئی حصّہ حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ فزکس کے مضمون کے ماہر تھے اور ان کا شمار تحقیق کی دُنیا کے عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔
٭شیخ احمد یاسین(1937ء-2004ء): شیخ احمد یاسین کا تعلق فلسطین سے تھا۔ 16سال کی عُمر میں ایک حادثے کا شکار ہوئے، جس سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوگئی۔ باوجود اس کے کہ پوری عُمر وہیل چیئر پر گزری، وہ ایک عظیم عالمِ دین اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے بانی تھے۔ وہ اسرائیل کے فضائی حملے میں شہید ہوئے۔
٭جان فوربس نیش(1928ء-2015ء): ان کا تعلق امریکا سے تھا۔عالمی شہرت یافتہ ریاضی دان تھے، لیکن نفسیاتی مرض شیزوفرینیا میں مبتلا تھے۔ ان کی پوری زندگی اسی مرض سے لڑتے گزری۔ 1994ء میں نوبل پرائز کے حق دار قرار پائے۔
٭محمّد علی کلے(1942ء-2016ء): محمّد علی دُنیا کی تاریخ کے عظیم ترین باکسر تھے۔وہ بچپن سے Dyslexiaنامی مرض کے شکار تھے۔ واضح رہے، اس مرض میں الفاظ پہچاننے اور پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ آخری عُمر میں رعشے کی بیماری کا شکار ہوگئے، مگر سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
٭فریڈا کاہلوFrida Kahlo( 1907ء-1954ء): ان خاتون کا تعلق میکسیکو سے تھا۔ چھے برس کی عُمر میں انہیں پولیو کے مرض کا سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود انہوں نے اپنی معذوری کو کبھی کم زوری نہ بننے دیا۔ ان کا شمار دُنیا کے عظیم مصوّروں میں ہوتا ہے۔ واضح رہے، 2002ء میں فریڈا کاہلو پر ہالی وُڈ میں ایک فلم بھی بنی، جس میں فریڈا کا کردار سلمیٰ ہائیک نے ادا کیا۔
٭شیخ عُمر عبدالرحمٰن(1938ء-2017ء): شیخ عُمر کا تعلق مصر سے تھا۔ عظیم عالم دین تھے، مگر نابینا تھے۔ جامعۃ الازہر سے تعلیم حاصل کی۔ امریکا میں انہیں شدت پسند جہادی قراردے کر عُمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کا انتقال نارتھ کیرولینا (امریکا) میں ہوا۔
٭لوئیس کیرولLewis Carroll (1832ء-1898ء): ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ یہ ایک اعصابی بیماری آٹزم میں مبتلا تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے بولنے کی صلاحیت شدید متاثر تھی، جب کہ ایک کان بھی قوّتِ سماعت سے محروم تھا۔ اس کے باوجود عالمی شہرت یافتہ مصنّف تھے۔ بچّوں کی معروف کتاب "Alice in The Wonderland"ان ہی کا شہ پارہ ہے۔
٭لوئیس بریل(1809ء-1852ء) لوئیس مکمل نابینا پَن کا شکار تھے۔ انہوں نے نابینا افراد کی تعلیم کے لیے ایک خاص نظام متعارف کروایا، جو لکھنے پڑھنے کے لیے آج بھی استعمال ہوتا ہے اور انہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
یہ تمام افراد عزم و ہمّت کا پیکر تھے۔ ان کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ آج بھی پکار پکار کر ہمارے احساس اور ضمیر بیدارکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اُٹھنا ہوگا اور ایسی دُنیا کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے، جہاں سب کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے یک ساں مواقع میسّر ہوں اور ذہنی و جسمانی نقص کی بنیاد پر کسی کی تذلیل اور تحقیر نہ کی جاتی ہو۔ (مضمون نگار، نفسیاتی امراض کے ماہر ہیں اور اسلام آباد میں پریکٹس کر رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں)