• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018ء میں تُرکی(موجودہ ترکیہ) کے شہر، استنبول میں القدس کی خواتین سے، جنہیں ’’مریمات اور مرابطات‘‘ کہا جاتا ہے،اظہارِ یک جہتی، نیز اُن کی فلاح و بہبود کےضمن میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس کے اختتام پر’’We Are All Maryam‘‘ کے نظریے کے تحت ایک بین الااقوامی پلیٹ فارم کی بھی بنیاد رکھی گئی، جس کا نام ’’کلنا مریم‘‘(ہم سب مریم ہیں) طے پایا۔

حضرت مریمؑ کی بیت المقدس جیسی مبارک جگہ سے نسبت کے ساتھ اُنہیں دنیا بَھر کی عورتوں کے لیے انقلاب اور جدّوجہد کا استعارہ بھی مانا جاتا ہے۔حضرت مریمؑ کے بیت المقدس کی خدمت کے لیےخودکو وقف کردینے کے صِلے میں القدس کی ہر عورت خود کو ’’مریم‘‘ ہی کہتی ہے ، تو حضرت مریمؑ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہوئے ہم نے بھی یہ اعلان کیا کہ دنیا کی ہر مظلوم عورت کے لیے ہم حضرت مریمؑ کو عزم و ہمت کا نشان بنائیں گے اور اپنی تنظیم کا نام ’’کلنا مریم‘‘ رکھیں گے۔

اس تنظیم کی میزبانی تُرکیہ کی ایک این جی او(UKEAD) کررہی ہے اور چھے ممالک کو اس کی مرکزی کمیٹی میں نام زد کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان سے اس کی نمایندگی کے لیے ہمیں منتخب کیا گیا۔ ویسے تو بنیادی طور پر اس تنظیم میں صرف القدس کی مرابطات اور مریمات ہی کو فوکس کیا گیا ، مگر بعدازاں،ہماری تجویز پر مسئلہ کشمیر بھی شامل کر لیا گیا ۔یاد رہے، ’’کلنا مریم‘‘ کو ترکیہ کی خاتونِ اوّل، ایمنے اردوان اور حکومتِ قطر کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔

رواں سال’’ کلنا مریم کانفرنس‘‘ استنبول میں15اور 16اکتوبر کو منعقد کی گئی، جس کا موضوع فلسطینی عوام، بالخصوص فلسطینی خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی سے دنیا کو آگاہ کرنا طے ہوا ہے۔ کانفرنس میں کئی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، جن میں کئی اہم شخصیات بھی شامل تھیں، جب کہ پارٹی کے شعبۂ خواتین کی صدر، رابعہ الہام قلندر کانفرنس کی مہمانِ خصوصی تھیں۔ 

نیز، نو مسلمہ برطانوی صحافی اور سابق وزیرِ اعظم، برطانیہ، ٹونی بلیئر کی سالی، لورین بوتھ نے بھی ہماری دعوت پر شرکت کی۔ کانفرنس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا ، پھر قطر سے ’’کلنا مریم‘‘ کی صدر، ہند المطوع نے القدس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے کانفرنس کا افتتاح کیا، جب کہ ہم نے مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’بیت المقدس ہمارا قبلۂ اوّل اور مقدّس مقامات میں سے ایک ہے۔

وہاں کی خواتین اور بچّوں کے تحفّظ و تعلیم کا انتظام اُمّتِ مسلمہ کی ذمّے داری ہے۔ اسرائیل، جہاں تعلیم و تعلّم کا تناسب پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے، وہیں فلسطینی بچّوں کے بنیادی حقوق تک سلب کیے جارہے ہیں۔ تعلیم، آزادی اور حرّیت کا راستہ ہے۔اور حصولِ علم ہر انسان کا حق ہے، جو کسی سے چھینا نہیں جاسکتا۔ اسرائیلی فورسز فلسطین میں مدارس بند کر رہی ہیں، جس کے سبب ہمارے فلسطینی بچّے تعلیم اور کتابوں سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم فلسطین کے لیے مستقل اور مسلسل فتح چاہتے ہیں اور یقیناً فتح کا دن قریب ہے۔‘‘ بعد ازاں، القدس کی جانب سے خدیجہ خویص،بلاد الشام سے ابتھال القسام، مغرب العرب(لیبیا، جزائر، تیونس) سے ملیکے مجتھد اور ازبکستان سے دل آرام نے بھی القدس کے حق میں اظہارِ خیال کیا۔اس موقعے پر لورین بوتھ نے کہا کہ ’’اللہ نے مجھے فلسطین بھیجا اور فلسطین نے مجھے اللہ تک پہنچایا۔‘‘

ترکیہ کی حکم ران، اے کےجماعت کے استنبول دفترکا دَورہ
ترکیہ کی حکم ران، اے کےجماعت کے استنبول دفترکا دَورہ 

تقاریر کے بعد سیمینار کا آغاز ہوا، جس میں پانچ اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ سیمینار کی میزبانی اُردن کی دُعا جبر نے کی، جب کہ ڈاکٹر حنین زوربا نے القدس میں تعلیم کی اہمیت ، مرابط القدس سے خدیجہ خویص نے تعلیمی سرگرمیوں میں پیش آنے والے مسائل ،قطر سے دان المعاضید نے القدس کے طلبہ کے ذہنی و سماجی مسائل ، ترکیہ سے سیما تشلیم نے ظلم و ستم کے باوجود القدس میں تعلیم کے انتظامات اور اردن سے اسراء الغبیش نے القدس کے مجوزہ تعلیمی منصوبوں پر بھرپور روشنی ڈالی۔ سیمینار کے بعد القدس کے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک پروگرام ہوا،جس کی میزبانی احمد قندیل اور معتزنعواش نے کی۔

پروگرام میں تمام ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ البتہ، قطر اور کویت نمایاں طور پر سبقت لے گئے،جنہیں دیکھ کر قرونِ اولیٰ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ پاکستانی شرکا نے ربّ کی رضا کے لیے اپنے زیورات بھی خیرات کیے، جو ہم نے اور ثمینہ احسان نے پروگرام کے میزبان کو پیش کیے۔ یاد رہے،جب حضرت امّ ِمسلمہؓ نے نبی کریمﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں پوچھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا’’بیت المقدس جاؤ، نماز ادا کرو، اگر نہ جا سکو تو(کم از کم) وہاں کے چراغوں کے لیے تیل بھیج دو، جس سے وہاں روشنی ہو سکے۔‘‘

اُمّتِ محمدیہؐ کو القدس کے چراغوں کے لیے تیل کا انتظام کرنا چاہیے اور اس دَور میں بچّوں کی تعلیم اور لوگوں کی فلاح و بہبود کا انتظام ہی بیت المقدس کے چراغوں کے لیے تیل بھیجنے کے مترادف ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصّے میں ہوں، مسجدِ اقصیٰ کی خدمت اور قبلہ اوّل کی حرمت ہر مسلمان پر قرض ہےاوراسے غیروں سے آزاد کروانا ہمارا فرض۔بعدازاں، القدس کے حوالے سے ایک نشید پڑھی گئی، جس نے ایک عجب سماں باندھ دیا، یوں نماز اور عشائیے کے ساتھ پہلے دن کے سیشن کااختتام ہوا۔

دوسرے دن کا آغاز میڈیا وَرک شاپ سے ہوا، جس کا موضوع ’’القدس کی خواتین کےلیے میڈیاکی مہارت‘‘ تھا، جس کی میزبانی بثینہ عبد الجليل نے کی۔ وَرک شاپ میں صحافیوں کو سراہا گیا اور لوگوں کی اس شعبے میں شمولیت اختیارکرنےپر توجّہ مرکوز کروائی گئی۔ بعد نمازِ ظہر ’’رباط القدس‘‘ کے عنوان سے ایک سیشن ہوا، جس کی نمایندگی اُردن کی دیم طھبوب کر رہی تھیں۔ سیشن میں بتایا گیا کہ ’’مرابطہ القدس اللہ کے راستے میں صبر کرتی، اپنے مقصد سے جُڑی رہتی اور اجر کی اُمید صرف اللہ سے رکھتی ہیں۔ ان مرابطات کو اسرائیلی مزاحمت کا سامنا ہے، القدس اور وہاں کے باسیوں کی حفاظت ان کےلیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘

’’کلنا مریم ‘‘ کی صدر،ہند المطوع سے یادگاری شیلڈ وصول کرتے ہوئے
’’کلنا مریم ‘‘ کی صدر،ہند المطوع سے یادگاری شیلڈ وصول کرتے ہوئے 

ظہرانے کے بعد کانفرنس کی صدر ہند المطوع نے صدارتی خطبہ اور ختام شحادۃ نے 2023ء کا منصوبہ پیش کیا۔ کانفرنس کے آخر میں تمام ممالک کے نمایندگان کو القدس کے ماڈل اور كکلنا مریم شیلڈز پیش کی گئیں۔ نیز، کانفرنس میں وقفوں کے دوران پاکستانی وفد نے مختلف ممالک کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور موجودہ حالات میں اُمّتِ مسلمہ کو درپیش مسائل پر بات چیت کی۔ جب کہ ناروے، ڈنمارک، ساؤتھ افریقا اور یوکے سے آنے والے پاکستانیوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں اپنے اپنے ممالک میں کام کرنے کے طریقوں اور درپیش مسائل پر بات ہوئی۔

پہلے دن دورانِ وقفہ، ترکیہ کی تحریکِ اسلامی کے کارکنان وصال، اُن کی اہلیہ کبریٰ وصال اور اسماعیل، کوثر اسماعیل سے ہماری ملاقات ہوئی تو پاکستان اور ترکیہ کے حالات بھی زیرِ بحث آئے۔ اس موقعے پر انہوں نے ماضی کی یادیں کھنگالتےہوئے بتایا کہ وہ ہمارے آغاجان ،سابق امیرِ جماعت اسلامی، قاضی حُسین احمدؒ سےدلی عقیدت رکھتے ہیں۔

اب بات ہوجائے ترکیہ دَورے کی، توہم جس وفد کے ساتھ دَورے پر گئے، اُس میں پاکستان سے ثمینہ احسان ، نزہت بھٹی ، نائلہ افتخار،نسیمہ، ناروے سے الماس علی، عظمیٰ خان، فرح رحمان طیب،سیدہ ثمینہ رضوان،ساجدہ پروین،شاذیہ یاسمین،طاہرہ جبیں، ساؤتھ افریقا سے آمنہ ڈار، حمیرہ شبّیر اور ترکیہ سے طاہرہ، عافیہ، نادیہ، نائلہ،ملیحہ، فخرالاسلام ، عبدالقیوم بیگ، احسن شفیق اور ملک انس اعوان شامل تھے۔ وفد نے ترکیہ پہنچتے ہی پاکستانیوں کی ایک تربیتی نشست میں شرکت کی۔ جس میں ہمیں بھی اپنے خیالات کے اظہارکا موقع دیا گیا،تو ہم نے کہاکہ ’’اللہ تعالی نے آپ کو ایک خاص مقصد کے تحت قسطنطنیہ(موجودہ استنبول)میں لاکر بٹھایا ہے۔ 

لہٰذا آپ یہاں پر سب سے پہلے ترک زبان سیکھیں۔ مقامی لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے درود شریف، آیتِ کریمہ اور استغفار کی محافل کا اہتمام کریں۔یاد رکھیں، اللہ کی خاطر کیے جانے والے عمل میں اخلاص ہو، تو چھوٹا سا عمل بھی کافی ہوتا ہے۔‘‘ اس موقعے پر ثمینہ احسان نے کہا کہ ’’ہم سب مسلمان ایک مقصدِ زندگی سے جُڑےہوئے ہیں۔

ہم سب کی خواہش جنّت کی طلب اور دنیا میں اللہ کا پیغام عام کرنا ہونا چاہیے۔ ‘‘نزہت بھٹی کا کہنا تھا کہ’’یہ دَورِ فتن ہے، اس لیے موجودہ دَور کے مجوّزہ طریقوں کو استعمال کرکے دعوتِ دین عام کے ساتھ ، فتنوں سے آگاہی کے لیے سورۂ کہف کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ دَورے میں ہونے والی دیگر ملاقاتوں اور نشستوں کا احوال کچھ یوں ہے۔

سعادت پارٹی، ترکیہ کے ارکان سے ملاقات:

سعادت پارٹی کا شمار ترکیہ کی معروف اسلامی، سیاسی پارٹیز میں ہوتا ہے، یہ2001 ء میں بنائی گئی ۔ ملاقات میں استنبول میں مقیم پاکستانیوں کو درپیش مسائل، پاکستانی طلبہ کے لیے اسکالر شپس اور ترکی زبان سیکھنے کے لیے مختلف شہروں میں کلاسز کی تعداد بڑھانے وغیرہ پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ’’ترکیہ میں عثمانی رسم الخط کی طرف ایک بار پھر توجّہ دینی چاہیے اور ترکیہ آنے والے پاکستانیوں کی آسانی کے لیے اُردو زبان کو بھی پروموٹ کیا جانا چاہیے۔‘‘بعد ازاں، پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا مختصر احوال پیش کیا گیا۔ 

اس موقعے پر سعادت پارٹی، ویمن وِنگ کی سربراہ، بیتیہ کمجے نے کہا کہ ’’ترکیہ اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ اسلامی ریاست کے دشمن ہیں، پھر ٹرانس جینڈر ایکٹ بھی ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔‘‘ نیز، پارٹی کی وائس پریذیڈینٹ، ناگہان اصیل ترک نے بتایا کہ ’’مضبوط خاندان کی تشکیل پر خاص توجّہ ہماری پارٹی پالیسی ہے، کیوں کہ مضبوط خاندان ہی مضبوط معاشرے کی ضمانت ہیں۔‘‘

اے کےپارٹی کے ارکان سے ملاقات

اے کے پارٹی، یعنی’’ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ ‘‘کے قیام کو21برس ہو چُکے ہیں۔ 14اگست2001 ء کو قائم ہونے والی اس پارٹی کی تاریخ کا ہر ورق کام یابیوں سے عبارت ہے۔ ملاقات میں وفد کو بتایا گیا کہ ’’اے کے پارٹی تُرک روایات اور اسلام کی عظمتِ رفتہ کی امین ہے۔ پارٹی کا دل اسلام اور اہلِ اسلام کے ساتھ دھڑکتا ہے، جب کہ پاکستان کے ساتھ اس کا خصوصی برادرانہ تعلق ہے۔ ملاقات میں مستقبل میں اتفاقِ رائے سے کام کرنے پر زور دیا۔ اس موقعے پر پارٹی کے شعبۂ خواتین کی رکن ،ایلف نے کہا ’’صدر رجب طیب اردوان پر اِس وقت ساری دنیا کی نظریں ہیں اور اُن کاسب کو ساتھ لے کر چلنا بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘

فیمینزم کے موضوع پر منعقدہ پروگرام میں شرکت

پروگرام کا انعقاد ترکی کے معروف تحقیقی ادارے،ایلکے(ILKE )کی طرف سے کیا گیاتھا، جس میں کہاگیا کہ فیمینزم تحریک مغربی دنیا میں عورت پر مظالم کے ردّعمل میں شروع ہوئی اوررفتہ رفتہ باقی دنیا میں پھیل گئی، درحقیقت اس تحریک کے مقاصد میں خواتین کو حقِ ملکیت کے ساتھ ملازمت کے یک ساں مواقع،مَردوں کے مساوی تن خواہیں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی کی فراہمی یقینی بنانا شامل ہیں۔ اس موقعے پر نو مسلمہ برطانوی صحافی، لورین بوتھ نے اپنے موضوع کے ہر پہلو پر بہترین انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے ’’فیمینزم‘‘ اور ’’فیمینٹی‘‘ کا فرق واضح کیا۔

انھوں نے کہا ’’عزّت، ہر عورت کا بنیادی حق ہے، مگرفیمینزم کی آڑ میں عورت کو اس کی فطرت کے خلاف استعمال کر کے فیملی سِسٹم کم زور کردیا گیا ہے۔ مسلمان عورت کی نیم برہنہ تصاویر، مسلم معاشرے کو بدنام کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ جب کہ دَورِ جدید کے فتنوں نے خاندانی نظام تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ نیز، فیشن انڈسٹری عورت کے لیے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ مستحکم اور خوش حال معاشرے کے لیے عورت کو اس کا صحیح مقام دلانا بہت ضروری ہے۔‘‘

سیرت النبی ﷺکانفرنس

بارہ ربیع الاوّل کے دن استنبول میں پاکستانی کمیونٹی کی خواتین کے لیے سیرت النّبیﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بتایا گیا کہ ’’نبی کریم ﷺ کی زندگی میں خواتین کا خصوصی کردار نظر آتا ہے۔ جیسے، ماں کی صُورت میں بی بی آمنہؓ اور دائی حلیمہ، بیوی کی شکل میں حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہ ؓ اور دیگر اُمہات المومنینؓ اور بیٹی کی شکل میں حضرت فاطمہؓ کے مضبوط کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے کی ترقّی و اصلاح میں عورت کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ کانفرنس میں بچّوں نے نبی کریمﷺ سے اظہارِ محبّت پر مبنی ٹیبلو زاور شرکا خواتین نے نعتوں کا نذرانہ پیش کیا۔

دَورے کے اختتام پر ’’ترکیہ معارف وقف‘‘ کے مرکزی آفس کا دَورہ کروایا، جس میں اے کے کی مشیرِ تعلیم نے معارف اسکولز کے تعارف پر مبنی ایک پریزنٹیشن پیش کی۔ واضح رہے، ’’ترک معارف فاؤنڈیشن‘‘ کا قیام 17جون 2016ء کو عمل میں آیا۔اور شعبۂ تعلیم کے ضمن میں دنیا بھر میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ اس موقعے پر معارف فاؤنڈیشن کی مینجمنٹ نے بتایا کہ ’’ادارے کی توجّہ مکمل طور پر تعلیمی سرگرمیوں پر مرکوز ہے۔ 

ہمارا مقصد مشترکہ انسانی اقدار کے مطابق تعلیم فراہم کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان انسانی ہم دردی پر مبنی تعلقات فروغ دینا ہے۔ ہمارا ادارہ پاکستان سمیت قریباً70ممالک میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ پاکستان میں ہمارے اسکولز کی تعداد27ہے، جن میں اسلام آباد، راول پنڈی، لاہور، کراچی، خیر پور، ملتان، جام شورو، پشاور،حیدرآباداور کوئٹہ میں 13000 سے زائد بچّے زیرِ تعلیم ہیں۔‘‘ بعدازاں، پاکستان میں اس طرز کے مزید اسکولز کھولنے، روشن مستقبل کی اُمید اور مصمّم ارادوں کے ساتھ یہ ملاقات اور دَورہ اختتام پذیر ہوا۔