• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فکرِاقبالؔ، بے زار آدم حَلویؔ کی عینک سے ...آشوبِ آرزو۔۔۔۔۔وقار خان

ممتاز دانشور، محقق اور شاعر علامہ حکیم بے زار آدم حلوی ؔ کی شخصیت ہماری پوری یونین کونسل میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ سال ہا سال سے علم و حکمت کے رنگ برنگے قمقمے فروزاں کرنے کے علاوہ علاقہ سے بیماری، برائی، جہالت اور حلوے کے خاتمے کے جہاد میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے اولین تینوں ’’میگا پروجیکٹس‘‘ میں تو انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، البتہ غمی خوشی اور عید بقر عید کے متعدد مواقع پر آپ بہ نفسِ نفیس گھر گھر جا کر کئی مرتبہ حلوے کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ حکیم الیونین کونسل نے ہمارے علاقے کے میدان ِ طب میں برسوں تک بلاشرکت ایرے غیرے حکمرانی کر کے تین قبرستان آباد کئے ہیں تاہم اب ڈاکٹروں کی فراوانی نے ان کے پیشے اور عزت نفس کو زک پہنچائی ہے تو آپ نے خود کو علم و ادب اور فکرِ اقبال ؔ کے فروغ کے لئے وقف کردیا ہے۔ علامہ حلویؔ کی علمی شہرت اب کسی خطرناک وائرس کی طرح یونین کونسل کی سرحدیں پھلانگ کر قریبی دیہات کو بھی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اگر شہرت ہذا نے اسی رفتار سے اپنا سفر جاری رکھا تو کچھ عجب نہیں کہ پورا ملک اس کی زد میں آ جائے،جیسے وہ گندگی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ اگرچہ علامہ اپنے تجربے اور باطنی علوم کے مقابلے میں دنیاوی علوم کو کوئی خاص اہمیت دینے پر تیار نہیں لیکن پھر بھی اپنی روایتی منکسر المزاجی کی بدولت ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن میں باقاعدہ اسکول جا کر لگ بھگ ساڑھے چار جماعتیں پڑھی ہیں تاہم بدقسمتی سے تاریخ اور اسکول کا ریکارڈ اس دعوے کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں ۔
بنیادی طور پر علامہ حکیم بے زار آدم حلویؔ کی ساری زندگی’’عشق اقبالؔ‘‘ اور ’’عشق حلوہ‘‘ کے گرد گھومتی ہے ۔ آپ نے جہاں اپنی لامحدود دانش کی بنا پر فکرِ اقبالؔ کو نئی نئی جہات سے روشناس کرایا ہے، وہاں اپنے شکمِ لا محدود کے طفیل بے شمار مرتبہ حلوے کو سبق بھی سکھایا ہے۔ علامہ صاحب اپنے نظریات، افکار اور عقائد پر کسی مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں مثلاً دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر حکیم حلوی ؔ اپنے اس ’’عقیدے‘‘ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ البتہ ’’ترقی پسندوں‘‘ کے ایک مقامی گروپ کے ساتھ کئی روزہ علمی بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے فقط ارضِ پاک کی حد تک اپنے نظرئیے میں اتنی ترمیم ضرور کی ہے کہ اسے ایک نہیں بلکہ کئی بیلوں نے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ علامہ نے اپنی ذاتی دانش اور گہرے غوروفکر کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان بیلوں کا جذبہ جنوں انہیں بار بار سینگ بدلنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ کوئی نہ کوئی ’’زلزلہ‘‘ برپا رہے اور اہل ایمان غفلت یا آرام کی نیند سو نہ جائیں ۔
علامہ حلویؔ کو اقبالیات سے ویسی ہی رغبت ہے ، جیسے گھوڑے کو گھاس ہے ۔ ان کا ارشاد ہے کہ ہماری سیاسی ،روحانی اور فکری رہنمائی کرنے والوں کی بھاری اکثریت فکرِ اقبالؔ سے بے بہرہ ہے چنانچہ قحط الرجال کے اس عالم میں علامہ نے اپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے نئے سرے سے افکار اقبال ؔ کی ترویج و ترقی کے لئے کمر کس لی ہے ۔ آپ نے اس میدان میں کثیر سمتی پیش قدمی کرتے ہوئے جہاں کلام اقبال ؔ کی ہو شربا تعبیرو تشریح کا فریضہ انجام دیا ہے، وہاں اس کلام میں مناسب قطع و برید اور اصلاح کے ذریعے اسے جدید دور سے ہم آہنگ بھی کیا ہے ۔ علامہ کو یقین کی حد تک شک ہے کہ یورپ کے تیز رَندوں اور ان کے طفیلوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے اقبال ؔکے کلام میں شر انگیز تبدیلیاں کی ہیں ۔ آپ نے کلیات اقبال ؔکے اس غالب حصے پر سرخ قلم سے نشان لگا رکھے ہیں، جہاں اقبال ؔ نے ملوکیت اور ملائیت کے تاریخی گٹھ جوڑ کی پر زور مذمت کی ہے۔ قبلہ حکیم صاحب کے خیال میں کلام اقبال ؔ کا یہ حصہ خاصا مشکوک ہے ، جہاں فرنگیوں نے اپناباریک کام دکھایا ہے ۔ کئی اشعار میں مختلف الفاظ قلم زد فرما کر آپ نے اس خوبی سے ان کی صحت کی ہے کہ جس سے فکرِ اقبال ؔ واضح طور پرملوکیت نواز نظر آتی ہے ۔ کئی اشعار کو تو علامہ نے مکمل طور پر کاٹ کر خارج از کلامِ اقبال ؔفرما دیا ہے ۔ مثلاً
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوزر و دلقِ اویس و چادرِ زہرہ
اقبالؔ کی اس سوچ کے مظہر اشعار اور مصرعوں کی ایک طویل فہرست ہے، جسے علامہ حلویؔ کی محیرالعقول دانش نے سند قبولیت نہیں بخشی۔ جیسے ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں /ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق ‘‘’’میں جانتا ہوں انجام اس کا /جس معرکے میں ملاہوں غازی‘‘اور’’ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ البتہ وہ کلیات اقبال کے ایسے اشعار پر بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کی تشریح کرتے ہوئے ان کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں کہ’’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں /نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘ یا
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر
ان موقعوں پر علامہ حلویؔ گندے انڈوں کے علاوہ جہان و جمہوریت کے ایسے ایسے ہولناک فتنوں سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ خود اقبال ؔ بھی سن لیتے تو پریشان ہو جاتے ۔ علامہ کا علمی فن اس مقام پر اپنی معراج کو چھوتا نظر آتا ہے کہ جہاں وہ کلامِ اقبالؔ سے شخصی آزاد یوں اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مذمت اور حلوے اور مطلق العنانیت کی ثنا ’’برآمد‘‘ فرماتے ہیں۔ حکیم الیونین کونسل کوحکیم الامت کا ایک شعر ’’اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل /لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے‘‘ اتنا پسند ہے کہ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں ’’کبھی کبھی ‘‘کو ’’ہمیشہ‘‘ سے بدل دیا ہے۔
آج کل علامہ گوشہ نشین ہیں ۔وہ اقبال کے136ویں یوم ولادت پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کلام اقبال کا ازسرِنو تحقیقی جائزہ لے کر اس سے یہ پیشگوئی کشید کرنے میں مصروف ہیں کہ حکیم اللہ محسود شہید جب کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے پاک فوج کے افسر اور جوان ہلاک ہیں۔ المختصر! اس پر آشوب دور میں علامہ حکیم بے زار آدم حلویؔ جیسی ہستیاں غنیمت ہیں کہ جو ہماری نظریاتی اساس پر سیکولر اور جمہوری یلغار کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہیں۔ آپ دانشِ بیمار کے تاجروں اور سوچ پروف حلقہ کے نمائندہ ہیں، جن کے نظریاتِ اولیٰ کی چھپر چھائوں تلے ہم آس میں زندگی گزار رہے ہیں کہ اللہ نے چاہا تو ایک دن ان کی بددعائیں ضرور ثمر بار ہوں گی اور دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں گے۔ (یوم اقبالؔ کی ایک خفیہ تقریب میں پڑھا گیا)۔
تازہ ترین