اسلام آباد کی عدالت نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینیٹر اعظم سواتی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
سینیٹر اعظم سواتی کو اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کے روبرو پیش کیا گیا۔
اس موقع پر ایف آئی اے نے عدالت سے اعظم سواتی کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی وکالت کی۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ کچھ متنازع ٹوئٹس ہیں جن کی وجہ سے اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا ہے۔
افسر نے جسمانی ریمانڈ کے حصول کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ریکور کرنا ہے، موبائل اور سامان ریکور کرنا ہے، اعظم سواتی مان رہے ہیں کہ انہوں نے ٹوئٹس کیے ہیں۔
اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو ٹوئٹس کیے ہیں وہ ایف آئی آر پر درج دفعات پر پورا نہیں اترتے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور تھانے کے سامنے بیان کی اہمیت نہیں ہے، اعظم سواتی پر پہلے بھی تشدد کیا گیا تھا۔
بابر اعوان نے کہا کہ اعظم سواتی کی جان کو خطرہ ہے، یہ یہاں حفاظت کا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔
اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد کے ڈیوٹی مجسٹریٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی کے پرچہ ریمانڈ میں ایف آئی اے کی جانب سے کلریکل غلطی سامنے آئی ہے۔
گرفتار کرنے والے سب انسپکٹر محمد وسیم نے پرچۂ ریمانڈ پر تاریخ 27 نومبر کے بجائے27 اکتوبر لکھ دی۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ وقاص راجہ نے فیصلے سے قبل سب انسپکٹر محمد وسیم کو طلب کر لیا۔
عدالت نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ وسیم اپنے دستخط سے تاریخ کنفرم کریں۔
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے چک شہزاد کے فارم ہاؤس سے آج صبح متنازع بیان پر گرفتار کیے گئے تحریکِ انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف تضحیک اور پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ سائبر کرائم ونگ میں ایف آئی اے کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔