• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب کیوں آتے ہیں اور اس کی روک وتھام کس طرح ممکن ہے سیلاب ناقص منصوبہ بندی اور اور بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے آتے ہیں یہ قدرتی آفات ہوتی ہیں ان کو روکا تو نہیں جا سکتا ہے لیکن کم ضرور کیا جا سکتا ہے سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لئے ڈیزاسٹرمینجمنٹ کو قدرتی آفات آنے سے پہلےحفاظتی اقدامات کرنے ہوتے ہیں جو وہ نہیں کرتی، اضلاع میں ڈیزاسٹرمینجمنٹ سیل قائم ہی نہیں ہیں اور ناقص منصوبہ بندی سے کروڑوں کا نقصان ہو جاتا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب سے ساٹھ لاکھ کسان متاثر ہوئے ہیں ۔ سیلاب متاثرین کی بحالی پر ابھی عرصہ درکار ہے ایک طرف ملک کے حالات خراب ہیں سیاسی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف حکومت کو سیلاب متاثرین کے لئے امداد کی ضرورت ہے حکومت دہری مشکلات میں پھنس گئی ہے،سیلاب سے زمینیں تباہ ہو گئی ہیں کاشت کاروں کا شدید نقصان ہوا ہے ان کی سال بھر کی کمائی سیلاب کی نذرہو گئی ہے جس سے ملک کی معیشت پر مزید بوجھ پڑا ہے جبکہ سیلاب میں لوگوں کی امداد کے لئے حکومت اعلانات تک محدود رہی دوسری طرف حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی سیاست میں مصروف ہیں ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی کو فنڈ ریزنگ کر کے سیلاب متاثرین کے لئے دن رات ایک کر دینا چاہئے سیاست تو ہوتی رہے گی۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں کراچی بلوچستان سندھ سب سے زیادہ متا ثر ہوا، پاکستان پیپلز پارٹی کی کئی سال سے سندھ میں حکومت ہے لیکن وہ کراچی کو سیلابی خطرات سے بچانے میں نا کام رہی ۔ہر سال شدید بارشوں کے سبب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔قدرتی آفات میں سیلاب طوفان 'زلزلہ اور ناگہانی یعنی اچانک آنے والے واقعات شامل ہوتے ہیں ان کو روکا نہیں جا سکتا ہے بلکہ اس کے نقصانات کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں جس سے آبادی کم متاثر ہوتی ہے حالیہ بارشوں سے جہاں پاکستان سے بہت سے شہروں کو ان ناگہانی واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کراچی میں بارشوں کے بعد زندگی اکثر مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے عمران خان کے دورہ حکومت میں کراچی کے ایسے مسائل کے حل کے لئے پیکیج کا اعلان کیا گیا لیکن فنڈز ریلز نہیں کئے گئے تھے۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے اور پاکستان اس سے زرمبالہ بھی حاصل کرتاہے لیکن یہاں بارشوں میں پانی کے اخراج کے لئے اقدامات کسی حکومت نے نہیں کئے ہیں،پنجاب حکومت نے ریسکیو آپریشن کے لیے36کروڑ روپے بھی جاری کئے اوربعد میں وقفہ وقفہ سے فنڈز جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہے وہ پنجاب کے سیلابی اضلاع میں متاثرین کی بحالی کے کام میں مصروف رہی ،انتظامیہ کو نہروں اور دریاؤں کے پشتوں پر نظر رکھنی چاہئے، تیز بہاؤ کی وجہ سے یہ پشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور سیلابی ریلہ بڑی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ بارشوں اور سیلاب سے جو نقصان ہو چکا ہے آئندہ اُس سے عوام کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائےگی۔ اس کے لئے متعلقہ محکموں کو جہاں چوکس رہنے کی ضرورت ہے وہاں باہمی رابطے کو بڑھانا بھی ضروری ہے تاکہ کسی ایمرجنسی میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔قدرتی آفات کی بحالی کا کام مشکل مرحلہ ہوتا ہے جس کے لئے فلاحی ادارے اور دیگر ادارے ٹینٹ سٹی قائم کرتے ہیں اور متاثرین کیلئے اشیائے خورد ونوش کا بھی بندوبست کرتے ہیں پاکستان میں بارشوں سے شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور اناج کی قلت پیدا ہو جاتی ہے جس سے درآمدات اور برآمدات کا توازن بھی خراب ہوتا ہے اور کسان خوشحالی کی بجائے پستی کی طرف چلا جاتا ہے مون سون قدرتی امر ہے لیکن اس کے آنے سے قبل اس کے نقصانات سے بچائو کے طریقے اختیار نہیں کئے جاتے ہیں ملک بارشوں سےمعاشی تباہی کی طرف چلا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کے تمام شہروں کے لئے ایسا انفراسٹرکچر بنائے کہ جس سے بارشوں کے پانی کا اخراج ساتھ ساتھ ہوتا جائے اور نئے ڈیم فورا بنائے جائیں تاکہ بارشوں کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے اور سیلابی پانی کے نقصانات اور تباہی کا تدارک ہو سکے اورماہرین کے مطابق بارشوں کی کاشت کاری کے لئے اشد ضرورت ہوتی ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور معمول سے زیادہ بارشیں بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں پاکستان میں پانی کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے مناسب منصوبہ بندی نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال سیلاب آتا ہے مستقبل بنیادوں پر حکومت کو سیلاب سے بچائو کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک کی معیشت کو ہر سال نقصان نہ ہو ۔

تازہ ترین