• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ کوئی گولی چلی نہ بم، نہ کوئی لاش گری اور نہ کوئی ٹینکوں کے نیچے لیٹا اور انقلاب آ گیا، آپ نے سنا؟ جی ہاں آزادیٔ سیاست کا سورج طلوع ہو چکا ہے، جمہوری انقلاب آ چکا ہے، پاکستان کی تاریخ کا وہ مبارک چاند چڑھ چکا ہے جس کا مطالبہ میاں نواز شریف نے کر رکھا تھا، یہ میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں نے آواز اٹھائی کہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے، الحمدلِلّٰہ پاک فوج نے سیاست میں مداخلت کو اعلانیہ تین طلاقیں دے ڈالی ہیں لیکن ایک انا پرست حلالے کے چکر میں ہے، سلیمانی ٹوپی اتار دی گئی ہے اور مملکتِ خداداد کو جمہوریت کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے، پاکستان میں خون خرابہ برپا کروانے کے متمنی اندرونی اور بیرونی دشمن منہ میں انگلیاں دابے بیٹھے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ایک طاقت ور ترین شخص نے اعتراضات کی روشنی میں کڑا حوصلہ کیا اور کھلے عام وہ اعترافات بھی کر ڈالے جس کی مثال نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف کو قصۂ پارینہ قرار دینے والوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ  کر بتا دیا جائے کہ آج ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے، ایک ایک کر کے نواز شریف کے عوامی مطالبات پورے ہو رہے ہیں، ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد تسبیح پکڑ کر پہلی صف میں سجدے کر کے اللّٰہ سے معافی مانگنے کا رواج ہے جبکہ جن کو تکلیف دکھ اور نقصان پہنچایا ہوتا ہے ان سے معافی نہیں مانگی جاتی، ان کے نقصان کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ فرمان ہے کہ حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ خود متاثرہ شخص معاف نہ کرے۔ موجودہ صورتِ حال میں طاقت ور ترین لوگوں کی طرف سے غلطیوں کا اعتراف معمولی بات ہرگز نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ غلطی پر تھے لیکن گناہِ کبیرہ اور غداری نہیں کی، انہوں نے گناہِ کبیرہ کیا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اللّٰہ تعالیٰ کرے گا، اب طاقت ور ترین ادارے کے سابق سربراہ نے آئین کی پاسداری کا وعدہ کیا ہے، خدا کرے یہ سراب نہ ہو۔ سابق سربراہ کا اعتراف عام بات نہیں بلکہ بہت ہی خاص عمل ہے جس کے لیے بہادر ہونا بہت ضروری ہے، اس جری عمل نے دیگر فریقین کو بھی سوچنے کی نئی راہ سجھا دی ہے کہ وہ بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ناصرف یہ کہ سدھر جائیں بلکہ ملک کی ترقی اور عوامی فلاح میں بھی اپنا حصہ ڈالیں، عوام کا تو یہ بھی مطالبہ ہے کہ اب ان قیدیوں کو بھی رہا کر دیا جائے جو کسی کی خفگی کا نشانہ بنے، عوام یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ جن سرکاری اداروں میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسران کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے وہاں سے بھی انہیں ہٹایا جائے۔ تمام عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی اور غیر فوجی افسران کی تعیناتی پر پابندی لگا دی جائے، فوج مکمل طور پر بیرکوں میں چلی جائے، کاروبار اور امورِ سیاست عوام پر چھوڑ دیے جائیں، یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے کم از کم طعنے دینے والے بنگلا دیشیوں کا منہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ اس سارے عمل میں شکریہ کس کا ادا کرنا ہے اور شاباش کس کو دینی ہے اس کا فیصلہ بھی تاریخ کر دے گی، شکر ہے کہ آدھا ہی سہی، سچ بولا تو گیا، اگلی باری اس کی ہے کہ وہ بھی اعتراف کرے کہ ہاں میں نے ساڑھے تین سال میں وفاق اور نو سال میں کے پی میں فاش غلطیاں کیں، ملکی معیشت تباہ کی، رواداری کو کمیاب کر دیا، اخلاقیات کو تباہ و برباد کیا، اختلاف کو نفرت میں بدلا اور نفرت کو دشمنی بنا ڈالا، ایک طر ف فیل سیاسی پراجیکٹ اور آلودہ سائٹ کی پیشہ ورانہ صفائی کا عمل زور و شور سے جاری ہے، تو دوسری جانب رونا دھونا، پٹ سیاپا، نوحے، ماتم اور مرثیے ہیں۔ قدرت کا انتقام دیکھیے کہ ’اور کوئی چوائس ہی نہیں‘ کا دعویٰ کرنے والا ایسا بے فیض ہوا کہ اس کے پیروکار پہلے رینگ مارچ میں خوار ہوتے رہے اور پھر فیض آباد کی دھول پھانکتے رہے جبکہ طاقت ور بالا ہی اس پپٹ سے اپنا کام کروا کے نکل لیے۔ رانا ثناء اللّٰہ خان کے وعدے کے مطابق انتشار پسند اسلام آباد میں داخل نہ ہو سکے اور اپنی سیاسی قبر پر خود ہی نوحہ خوانی کر کے منتشر ہو گئے۔

تازہ ترین