• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دوتین دہائیوں کے دوران ملک میں جگر کے امراض میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ واضح طور پر صحت عامہ کے ذمے دار اداروں کی طرف سے مناسب اقدامات نہ کیے جانے کا نتیجہ ہے۔ تازہ ترین صورت حال ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے معاملے میں چین اور بھارت کی سب سے بڑی آبادی والے ممالک سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ مختلف اداروں کے جاری کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت صرف ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ جبکہ اس کے باعث ہونے والی اموات کی یومیہ اوسط تعداد 300 تک پہنچ چکی ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے جس کی انسانی جسم میں موجودگی کا پتا اس وقت چلتا ہے جب مرض اپنے پنجے گاڑ چکا ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس جگر کی سوزش کے بارے میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جس کی سب سے عام اقسام اے، بی،سی،ڈی اور ای ہیں۔ معالجین کے مطابق ہیپاٹائٹس سی کا انفیکشن اگر بگڑ جائے تو وہ جگر کے سرطان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ان کی طرف سے اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کے خاتمے کے لئے اپنے پروگراموں کو تیز کریں جبکہ صرف ڈبلیو ٹی او کے اہداف پورا کرلینے سے ملک میں ڈیڑھ لاکھ جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ میں سب سے بڑی وجہ ویکسی نیشن، دانتوں سمیت علاج معالجہ میں ناقص سرنج کا استعمال، انتقال خون،حجامت اور ناک اور کان چھیدنے کا غیر محفوظ عمل اس کے پھیلاؤ میں سرفہرست ہیں۔ آئے دن منعقد ہونے والے سیمیناروں میں صحت کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہیپاٹائٹس کے کیسوں میں حتی الوسع کمی لانے کیلئے عوام میں شعور اجاگر کیا جانا ضروری ہے جبکہ اس کام میں تاخیر اس کے مزید پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہمی تعاون سے اس سمت میں فوری پیش رفت کرنی چاہئے۔

تازہ ترین