• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! ہلکے سبز (پیلاہٹ مائل) پتوں درپتوں والی گیند کی مانند سلاد ’’آئس برگ‘‘ سے تو آپ آگاہ ہوں گے۔ اصلاً یہ مخصوص ٹمپریچر کے نیم سرد پہاڑی علاقوں کی وادیوں کی پیداوار ہے۔ لیکن ریسرچ کی برکت سے اب مخصوص اہتمام سے میدانی علاقوں میں بھی کاشت ہوتی ہے، سو ہمارے ہاں وٹامن اے اور کے سے بھرپور یہ سلاد دستیاب تو ہے لیکن خاصی مہنگی۔ سکت والے سبزی کے شائقین کی یہ مرغوب سلاد ہے۔ مہنگے ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور ملٹی نیشنل فاسٹ فوڈ چینز کے برگر اور سیلڈ بار کا تو یہ لازمہ ہے۔ زیادہ تو نہیں آپ نے کبھی کبھی کسی تجزیہ نگار سے ’’ٹپ آف آئس برگ‘‘ کا محاورہ بھی سنا ہوگا جسے وہ کسی ہما گیر صورتحال یا بڑی نیوز اسٹوری کے اولین فیکٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نیوز رپورٹنگ میں ’’ٹپ‘‘ کا لفظ رپورٹرز کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ کسی بڑی اہمیت کی تحقیقاتی نوعیت کی بریکنگ نیوز کے ہاتھ لگے سرے کو کہتے ہیں جسے تھامے وہ اسٹوری کے ہارڈ اور سوفٹ فیکٹس کی تلاش شروع کرتے ہوئے بریکنگ نیوز کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، ہر اسٹیپ پر آئس برگ کے پہلے اترے پتے سے زیادہ تازہ پتہ (ایک اور فیکٹ کے طور پر) اتارتے جاتے ہیں، گویا پورے تازہ آئس برگ کی طرح انہیں ایک بڑی خبر کی ہوک ہوتی ہے، جو اسی طرح منفرد اور ویلیو ایبل ہوتی ہے جس طرح عام سلادو آئس برگ۔ تازہ و امتیازی خبر کے حصول کا لطف تحقیقی نیوز رپورٹ پانے والا نازاں رپورٹر ہی جانتا ہے جس طرح سبزی خور آئس برگ کے فوائد اور مزے کو۔

آئس برگ کا نام پہلے لیٹس (LETTUCE) ہی تھا۔ اور اس کا بڑا دیس کیلے فورنیا تھا۔ 1920ء میں یہاں کے کسانوں نے منفرد لیٹس (آئس برگ) کی برآمد بھی شروع کردی، وہ اس کی شپنگ کرشڈ آئس (برف کے چورے) میں لپیٹ کر کرنے لگے تو سبزی درآمد کرنے والوں نے لیٹس کو آئس برگ کہنا شروع کردیا۔اس وقت (اور آج بھی) آئس کاپس منظر یہ تھا/ہے کہ ’’آئس برگ‘‘ کا لفظ نیم برفانی سمندروں میں ان تیرتے بڑے بڑے برفانی ٹکڑوں کے لئے استعمال ہوتا تھا/ہے جو گلیشیر سے الگ ہو کر کھلے سمندر میں بہتے اپنی راہ لیتے ہیں اور اپنے نیچے تازہ اور میٹھے پانی کی ایک ایسی قطار چھوڑتے جاتے ہیں جو کافی دیر قائم رہتی ہے اور سمندری مہم جووئوں اور کیکڑے جمع کرنے والوں کے لئے مشکل حصول کے ساتھ بیش بہا نعمت ہوتی ہے۔ گویا سلاد آئس برگ کی تازگی اور قدر تو اپنی جگہ ہے اور بہتے آئس برگ سے نکلے تازہ و شیریں آب کی اپنی۔قدرت کی ان دو نعمتوں کی یہ کہانی مجھے یوں سنانی پڑی کہ 29 نومبر کے بعد قریب ترین پس و پیش میں جکڑے، دبے اور جامد خبری منظر میں کتنی ہی بلند درجے کی بنی لیکن دبی بریکنگ نیوز کے وہ تلخ اور تشویشناک حقائق،شخصی اجارے کے جامدگلیشیر سے جدا ہوکر مشکل و محال سمندر میں تازہ اور اہم ترین خبریں قطار در قطار ملکی نیشنل کمیونیکیشن فلو (قومی ابلاغی دھارے) میں خوف چھانٹ کر پیشہ ورانہ تازگی و حیات کی جگہ بنا رہے ہیں جو خبریں تیزی سے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے قابل اعتبار ذرائع سے حقائق کے ثبوتوں کے ساتھ عود آئی ہیں۔ مفید سلاد آئس برگ کے مر جھائے پتے اتر گئے اور تازہ تک پہنچ ہوگی، جمود چٹخا ہی ہے تو تازگی بڑی مقدار میں دستیاب ہے۔ اطلاعات کی یہ تازگی مشکل سمندر میں چھوڑی آئس برگ کی تازگی نہیں بھی ہے تو سلاد آئس برگ سے ہی نکلتی عوام اور ملک دوست خبریں کچھ نہ کچھ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں تو عام اور خاص و عام کی پہنچ میں آ رہی ہیں۔

ڈیجیٹل میڈیا جتنا بھی غیر ذمے دار ہے لیکن اس کے اس کردار اور کمال کو جھٹلایا جاسکتا ہےنہ اس پرتبرے کی گنجائش۔ دنیائے صحافت میں گفتار کے غازی اب پاکستانی صحافت میں بروقت اور پورا سچ نہ لکھنے بولنے کا طعنہ نہیں مار سکتے۔ اکھاڑی گئی حکومت سے کہیں زیادہ بدتر موجود لشکری حکومت کے اس دور میں زخمی قومی صحافت پر جو گزری سو گزری کہ جان آن شان اور اپنے ہی ملک میں رہنے کا آئینی حق غصب ہونے پر وطن کی ہی سرحدوں سے نکل کر کون کون کیسے کیسے نکل کر دیار غیر میں تتر بتر تو ہوگئے۔ جہاں کہیں اماں ملی، اماں ملی تو وہاں ملی جہاں جینا بسنا بھی محال ہوگیا لیکن جلا وطنی پر مجبور کردیئے گئے ان جرأت مند پاکستانی صحافیوں نے کہیں سیاسی پناہ طلب نہیں کی جہاں جتنے قدم جم سکے جما دیئے ۔ کلمہ حق کی ادائیگی پر وطن میں رہنے والوں پر ہی قیامتیں نہیں ٹوٹتی رہیں، اہل خانہ کی ہراسگی کا ہتھیار لشکری حکومت اور مسلط کرنے والوں نے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔ مقابل بے وطن صحافیوں کی معاونت میں پاکستان آئوٹ آف پاکستان (pop) سرگرم ہوگیا، یوں ٹیکنالوجی کی مدد سے گلیشیر کا جمود توڑنے اور آب حیات کی تلاش اور فراہمی ممکنہ حد تک جاری رہی۔ سوشل میڈیا پر گستاخ و غیر ذمے دار ٹک ٹاک بریگیڈ کی دھما چوکڑی میں تازگی فراہم کرنے والوں کو ہرگز نہیں لپیٹا جا سکتا۔ ایک نئی پاکستانی ابلاغی طاقت کا اندازہ ہوا۔ ان شااللہ یہ تجربہ اور پوٹینشل پاکستان میں رویوں کی شدت سے مطلوب تبدیلی میں اپنا نتیجہ خیز کردار ادا کرے گا۔ اس کی کچھ خامیاں اور کمیاں دور ہونا اور کرنا اپنی جگہ ایک قومی چیلنج ہے لیکن واضح نظر آ رہا ہے کہ اس نئی قومی ابلاغی قوت کا تیز تر ارتقاء تعمیر پاکستان میں ذمے دارانہ علمیت اور قومی جذبے سے لیس اس حد تک رنگ دکھائے گا کہ اس ہی تازہ دم اور اثر انگیز ابلاغی عوام محاذ سے پاکستانی ریاستی اداروں کی کیپسٹی بلڈنگ، مطلوب قانون سازی، آئین و قانون کا مطلوب اور یکساں اطلاق، مانیٹرنگ اور موجودہ نظام بد کے سورمائوں کا احتساب اور حقیقی جمہوری و سیاسی عمل کا آغاز ممکن ہوگا۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں حکومتوں کے ستائے، دبائے جکڑے شہریوں کو اس پیغام اقبال کی سمجھ آگئی۔ عمل بھی شروع اہداف بھی واضح۔ کچھ ابتدائی اشارے ملے ہیں کہ نظام بد کی تطہیر کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے اور جلد اور شدت سے مطلوب انتخابی شیڈول کے اعلان سے ہی وہ ماحول فوراً بنتا نظر آتا ہے جو گمبھیر اقتصادی بحران اور گنجلک سیاسی و حکومتی تسلط کو چھانٹے گا، جس نے دال روٹی کا حصول مشکل اور تنگدستی کا یہ عالم کہ روٹی کمانا بھی محال۔

تازہ ترین