سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا یہ انکشاف میرےلیے حیرت کا باعث ہے کہ مارچ 2000 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ پاکستان کا واحد مقصد میاں محمد نواز شریف کو پھانسی سے بچانا تھا ۔ امریکاکے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی بھی یہ کوشش تھی کہ میاں نواز شریف کی جان کو خطرہ نہ ہو ۔جدید تاریخ سے واقف لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ امریکا وہ ملک ہے ، جو فوجی آمروں کی پشت پناہی کرنے میں تاریخی شہرت کاحامل ہے اور جس نے افریقا ، ایشیاء اور لاطینی امریکا کے خطوں کو مقبول ، قوم پرست اور سامراج مخالف رہنماؤںکے قبرستان بنادیاہے ۔ ان رہنماؤں میں زیادہ تر سیاست دان ہی تھے ۔ امریکا نے تیسری دنیا کے ان مطلق العنان حکمرانوں کو بھی نہیں بخشا ، جنہوں نے امریکا کے عالمی ایجنڈےسے انحراف یا اختلاف کیا ۔امریکا نے ان لوگوں کو بھی بے رحمی کے ساتھ راستے سے ہٹا دیا ، جو ساری زندگی امریکی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور جن کی بعد میں امریکا کو ضرورت نہیں رہی ۔ یہ وہ امریکا ہے ، جو پاکستان میں ہی ایک عظیم سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کو ’’ عبرت ناک مثال ‘‘ بنا چکا ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کی ’’ جان بخشی ‘‘ کے بعد بھی ہمارے بچے لیبیا کے رہنما کرنل قذافی اور عراق کے رہنما صدام حسین کی عبرت ناک موت کی وڈیوز بھی دیکھ چکے ہیں ۔ کرنل قذافی وہ رہنما تھے ، جنہوں نے 25 فروری 1974 کو اپنے ایک بیان میں تیسری دنیا کے لوگوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ حقیقی خود مختاری اور آزادی کےلیے ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہو جائیں ۔ اگر شوکت عزیز کا یہ انکشاف درست ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن صرف اس لیے آئےتھے کہ میاں نواز شریف کو پھانسی نہ ہو تو یہ انکشاف نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ شوکت عزیزنے یہ انکشاف اس وقت کیوں کیا ؟ شوکت عزیز عہد نو کے ایک انتہائی ذہین ٹیکنوکریٹ ہیں ، جو جغادری سفارت کاروں سے بھی زیادہ اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سی بات کب کہنی ہے اور یہ بات کہنے میں الفاظ کا چناؤ کس طرح کرناہے ۔ انہوں نے اس انکشاف کےلیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا ، یہ بات ان ( شوکت عزیز ) سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ امریکی صدر تیسری دنیا کے ایک سیاست دان کی جان بچانےکےلیے خودپاکستان آئے ۔ اس مہربانی پر ہمیں بحیثیت قوم امریکا کا شکر گزار ہوناچاہیے کہ اس نے ایک فوجی آمر کے ہاتھوں ایک سیاست دان کا قتل کرنے کا یقینی موقع ضائع کرا دیا ۔ اس نے پاکستانی قوم کو ایک اور عظیم صدمے سے دوچار ہونے سے بچا لیا ۔ عام تاثر یہ ہے کہ امریکا میں جب بھی ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے ، وہ تیسری دنیا کے سیاست دانوں اور مقبول رہنماؤں کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے قہر سے بچانے کی کوشش کرتی ہے ۔ بل کلنٹن ڈیموکریٹ صدر تھے ، اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کو عبرت ناک انجام سے بچانے کےلیے پاکستان آئے ہوں گے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی تو بھی وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹ صدر جمی کارٹر براجمان تھے لیکن وہ نہ تو بھٹو کو بچا سکے اور نہ ہی انہوں نے اس طرح کی کوئی کوشش کی۔ حالانکہ جمی کارٹر نے صدر منتخب ہونےسے پہلے 29 نومبر1976 کو بھٹو کو خط لکھا تھا کہ ’’ میں دونوں ممالک کے مابین دوستی کے روابط کو مستحکم کرنےکے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا متمنی ہوں ۔ براہ کرم میری طرف سے تحسین کے جذبات اور حد درجہ آداب قبول کیجئے ۔ ‘‘ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے سعودی عرب نے بھی کوششیں کیں ۔ ایک زمانہ تھا ، جب سعودی حکمرانوںکے پیپلزپارٹی کے ساتھ بہت گہرے روابط تھے ۔ یہ زمانہ شاہ فیصل کا تھا ، جو عالم اسلام کے اتحاد ، تیسری دنیا کے ملکوں کی علاقائی اور معاشی خود مختاری کےلیے ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر سامراج دشمن رہنماؤںکے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے ۔ بھٹو کی پھانسی سے پہلے ہی 25 مارچ 1975 کو شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا اور انہیں بھی تیسری دنیا کے سامراج مخالف رہنماؤں کے انجام سے دوچار کر دیا گیا ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو امریکا کے قہر کا نشانہ اس لیے بنایا گیا کہ انہوں نے فرانس سے کیے گئے ری پروسیسنگ ایٹمی پلانٹ کے معاہدے سے دستبردار ہونا قبول نہ کیا ۔ 10 اگست 1976 کو امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور میں آکر بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دی تھی ۔ اسی روز بھٹو نے کسنجر کو لاہور میں ایک عشائیہ دیا تھا ۔ اس عشائیہ سے بھٹو نے جو خطاب کیا تھا ، وہ دنیا بھر کے کلاسیکی ادب میں سب سے اوپر رکھا جانے والا فن پارہ ہے ۔ ایک فلسفی ، ادیب ، دانشور اور کمزور ملک کے سامراج دشمن رہنما کو دھمکی دینے والے مہمان کو کس طرح جواب دینا چاہیے کہ آداب مہمان داری بھی ملحوظ رہیں اور ایک عظیم تہذیب و ثقافت کا مزاحمتی جوہر بھی اجاگر ہو ۔ اس خطاب سے بہتر کوئی دوسرا اظہاریہ نہیں ہو سکتا ۔ ’’ مسٹر ڈاکٹر کسنجر ! میں بڑے دکھ کے ساتھ آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شہر لاہور پر سیاہ بادل منڈ لا رہے ہیں اور یہ صرف شہر لاہورپر ہی نہیں منڈ لا رہے بلکہ گذشتہ 10 ، 12 دنوں سے ملک کے بیشتر حصوں پر ان کا سایہ ہے ۔ ہم نے ہولناک تباہیاں دیکھی ہیں ۔ ہم ایک انتہائی نازک اور تشویش ناک دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہمارے دریاؤں میں پانی چڑھا ہوا ہے اور وہ بہت شرارتیں کر رہے ہیں ۔۔۔ وادی سندھ کی 5 ہزار سالہ قدیم تہذیب کسی نہ کسی طور سے اپنے دریاؤں کے ساتھ زندگی کرتے اور ان سے نبرد آزما ہوتے ہوئے گزری ہے ۔ ہمیں بعض اوقات ان دریاؤں کے ساتھ لڑنا پڑتا ہے ، بعض اوقات ان کو ٹھنڈا کرنےکےلیے ، بعض اوقات ان کا مقابلہ کرنےکےلیے اور بعض اوقات ان کی ناز برداریاں کرنےکےلیے اور دریاؤں سے اسی طرح نمٹ کر ہم نے ڈپلومیسی سیکھی ہے ۔۔۔ میں جو بات کر رہا ہوں ، صرف ڈپلومیسی کی خاطر نہیں کر رہا کیونکہ ہمارے دریاؤں نے ہمیں اس طرح کی ڈپلومیسی نہیں سکھائی ہے ۔ ‘‘ بھٹو صرف فرانس سے ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ کرنے پر تختہ دار پر چلے گئے اور میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1999 کو ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی جوہری ریاست بنا دیا ۔ ہم امریکا کہ شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمارے ایک جمہوری سیاست دان کو پھانسی سے بچا لیا لیکن ایک احسان امریکا پر ہمارا بھی ہے ۔ پاکستان بھٹو کے دور میں جتنا سامراج مخالف تھا ، وہ آج نہیں ہے ۔