سپریم کورٹ آف پاکستان نے نئے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا۔
ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے 13 صفحات پر مشتمل ریکوڈک ریفرنس کی مختصر رائے کا اظہار کر دیا۔
سپریم کورٹ نے رائے سناتے ہوئے کہا کہ آئینِ پاکستان خلافِ قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا، صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں ترامیم اور تبدیلی کر سکتے ہیں، بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی، نئے ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کو معاہدے پر اعتماد میں لیا گیا اور معاہدے سے متعلق بریفنگ دی گئی، ریکوڈک معاہدہ قانون سے متصادم نہیں ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013ءکے فیصلے کے خلاف نہیں، یہ معاہدہ ماحولیات سے متعلق بھی درست ہے، ماہرین کی رائے لے کر ہی وفاقی اور صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا، منتخب عوامی نمائندوں نے معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک معاہدے کے مطابق زیادہ تر ورکرز پاکستانی ہوں گے، یہ معاہدہ فردِ واحد کیے لیے نہیں، پاکستان کے لیے ہے، اس معاہدے میں کوئی غیر قانونی شق نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بیرک گولڈ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد ہو گا، اس کمپنی نے سماجی ذمے داری نبھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے، فارن انویسٹمنٹ بل خصوصی طور پر صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیں، یہ بل ہر اُس کمپنی کے لیے ہے جو 500 ملین ڈالرز سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر رائے کا اظہار کیا تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا، انہوں نے قرار دیا کہ ریفرنس کا پہلا سوال پالیسی معاملہ ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے نوٹ میں وجوہات بھی تحریر کریں گے۔
واضح رہے کہ عدالتِ عظمیٰ میں 2 ہفتے قبل گزشتہ سماعت میں صدارتی ریفرنس پر وکلاء و عدالتی معاونین نے دلائل مکمل کر لیے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت مکمل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر 17 سماعتیں کیں۔
سپریم کورٹ میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس 15 اکتوبرکو بھیجا تھا۔