پندرھویں عالمی اردو کانفرنس میں پنجاب کی تمام زبانوں پر بات ہوئی۔گذشتہ سال کی کارروائی پر مبنی کتاب کے سرورق پر افتتاحی اجلاس کے علاوہ سندھی،بلوچی،پنجابی اور پشتو سیشنز کی تصویریں دیکھ کر جی خوش ہوا مگر اس بار اختتامی اجلاس میں انور مقصود صاحب کے ایک فقرے نے ہم سب کا دل توڑ دیا جب انھوں نے پاکستان کی کہانی سناتے ہوئے ہر ناکامی کا ذمہ داری پروڈیوسر یعنی پنجاب پر ڈالی شاید پنجاب کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ اکثر اپنے حق سے دستبردار ہو جاتا ہے جس طرح گھر میں بڑے بھائی کو یہ کہہ کر ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے کہ کوئی بات نہیں وہ چھوٹا ہے اسے زیادہ کیک دے دو،کسی صوبے میں کچھ ہوجائے ہمارے ہر وزیراعلی نے ہم سے مشورہ کئے بغیر ہماری آدھی تنخواہیں دان کر دی ہم نے نہ صرف اس فیصلے کوسراہا بلکہ ذاتی حیثیت میں حصہ ڈالا۔یوں پنجاب ہمیشہ سے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتا آرہا ہے مگر اس کے حقوق غصب کرنے والی ریاست نے پچھتر سالوں سے پنجاب کے ساتھ عجب کھیل کھیلا ہے۔وہ جب بولنے لگتا ہے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔بات یہیں تک رہتی تو خیر تھی مگر اس خاموشی نے ہمیں مجرم بنا دیا ہے بالکل ویسے ہی جب علاقے میں کہیں کوئی تخریب کاری ہوتو الزام سے پہلے ہی ہمارا ملک گلٹی گلٹی محسوس کرتے ہوئے صفائیاں دینے لگ جاتا ہے ۔تقسیم برصغیر دراصل تقسیم پنجاب تھا۔قیام پاکستان کا سارا درد پنجاب نے جھیلا، صرف لاکھوں لوگ قتل اور بے گھر نہ ہوئے بلکہ خاندانوں کے افراد بچھڑ گئے، پنجاب کو آبادی کے تناسب سے کم حصہ دے کر بھی نفرت کے رویوں کا سامنا کیوں؟
1971 میں اکثریتی صوبے کی سیاسی برتری کو تسلیم نہ کرنے میں پنجاب کا کوئی کردار نہ تھا نہ ہی اکثریتی لوگوں کی بولی بنگالی زبان کی بجائے اردو کو قومی زبان بنانے والے رہنما کا تعلق پنجاب سے تھاپاکستان کی کہانی میں پنجاب سبزہ،اناج،محبت اور وسائل تقسیم کرنے والا بڑا بھائی رہاہے۔ یہاں بلوچوں، پشتونوں، کشمیریوں کی اکثریت آباد ہے اور سب آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے درختوں پر پھل لگتے ہیں پیسے نہیں گرتے۔یہاں کی اکثریت دو دو نوکریاں کر کے زندگی کا پہیہ رواں رکھے ہوئے ہے۔مزدور اور کسان شکوہ کرنے کی بجائے اٹھارہ گھنٹے محنت کرتے ہیں۔پچھلے سال جب پنجاب کے مختلف اداروں کی ترقیاتی اسکیمیں سارے سال کی مغزماری کے بعد تکمیل کے نشان قریب آچکی تھیں تو اسمبلی ڈانواں ڈول ہو گئی۔کئی مہینے کابینہ کے بغیر چلنے والے صوبے کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پنجاب صرف آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ نہیں بلکہ پاکستان کا کمائو پوت بھی ہے۔کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے بعدا سکیمیں ٹینڈر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ہر معاملے میں کابینہ کی رسمی منظوری لازمی ہوتی ہے ایسی صورت میں اسمبلی توڑنے کی بات پنجاب کی ترقی پر وار کے مترادف ہے۔
خان صاحب ایک کرم یافتہ انسان ہیں اور روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔خالصتا نورِ الہی اور عطا ہے۔ پنجاب روحانی سرزمین ہے اس کے پانی،ہوائوں اور زمین میں خاص کرم کی تاثیر ہے۔ یہ تاثیر خدمت خلق سے بڑھتی ہے۔لوگوں کے دُکھوں سے بے خبر رہ کر خدا کو راضی کیا جاسکتا ہے نہ اپنے من کو مطمئن رکھا جاسکتا ہے۔سب سے بڑی حقیقت معاش ہے۔اس وقت پنجاب تاریخ کے المناک دور سے گزر رہا ہے۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث گندم، کپاس اور دیگر ضروری اجناس پیدا کرنے والی زمین بانجھ پن کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ گھر بار کھو جانے کا غم برداشت کر لینے والے کروڑوں لوگوں نے گرمی کا موسم چارپائیوں پر کپڑے باندھ کر اور معمولی خیموں میں گزار لیا مگر اب سردی سے ٹھٹھرتے اپنی بےحسی پر بین کر رہے ہیں، بچوں، بوڑھوں،حاملہ خواتین اور بیماروں کی کسمپرسی سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ایسے عالم میں صرف مسند پر اشخاص کے تبادلے سے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ پہلی ترجیح مصیبت زدگان کی مدد،کسانوں کو مراعات اور عوام کو ریلیف دینا ہونی چاہئے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ گو مگو کی کیفیت ختم کی جائے تاکہ سیاسی استحکام معاشی استحکام کا وسیلہ بن سکے، دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی جاسکے اور اپنے ملک کے کاروباری بھی کسی اور ملک میں پیسہ لے جانے کی بجائے یہاں فیکٹریاں لگائیں۔ اس کیلئے صوبے میں اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے-آج کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے جو سیاسی عدم استحکام سے مزید بڑھے گی۔ جب بچوں کی فیس،گھر کے کرائے،پانی بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہ رہے تو کسی سیاسی رہنما سے محبت کی وہ کیفیت بھی باقی نہیں رہتی۔انٹرنیٹ کے دور میں ہر عمل اور تقریر پر سب کی نظر ہے۔اس وقت اسمبلیاں توڑنے کے ممکنہ فیصلے کے باعث ملک میں معاشی زوال برپا ہوسکتا ہے اوراس کا اثر انتخابات پر پڑے گا۔لہٰذا تمام فیصلے سوچ سمجھ کرلئے جائیں اور ضروری ہے کہ صوبے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے، جس حد تک ممکن ہو خالی سیٹوں پر بھرتی کر کے لوگوں کو روزگار دیا جائے، تا کہ لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کِھل سکیں۔