• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلیل المدتی اقدامات اس وقت تک مؤثرثابت نہیں ہوں گے جب تک کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، تخلیقی فنون اور ریاضی (STEAM) کے مضامین کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ان مضامین کی تدریس کے ساتھ ساتھ مواد، ہارڈویئر، نیٹ ورک، سافٹ ویئر ایپلی کیشن، تدریسی آلات کے انتخاب کو کنٹریکٹ ایگریمنٹ کے تحت پرائیویٹ سروس پرووائیڈرز (پی ایس پی) کے سپرد کرنا ہوگا۔ کنٹریکٹ کیلئے کارکردگی کا پیمانہ دیکھا جائے۔ کمپیوٹر لیبز، لوکل ایریا نیٹ ورک، ڈیٹا سینٹرز وغیرہ کے قیام کیلئے بجٹ کے وسائل کو تعلیم کیلئے بڑے پیمانے پر مختص کرنا ہوگا لیکن یہ ہمارے قلیل وسائل کا فائدہ مند استعمال ہوگا جو اس وقت سرکاری اسکولوں میں لاتعلق، لا پروا، نااہل، کام چور اساتذہ کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ تنخواہ دینے پر ضائع کر رہے ہیں (اس میں یقیناً بہت سے اساتذہ کو استثنیٰ حاصل ہے جو محنت ، لگن اور جذبے سے تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ) ۔ مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں انٹرنیٹ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیٹا اور ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑھایا جائے تاکہ آئی سی ٹی ٹیکنالوجیز کی نئی جنریشن کو حقیقی معیشت کے ساتھ مربوط کیا جاسکے۔اسی طرح معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔

ڈیجیٹل پاکستان کے پانچ اہداف کوملحوظ رکھنا چاہئے:

(i) رسائی اور رابطے میں اضافہ

(ii) ڈیجیٹل انفراسٹرکچر

(iii) ڈیجیٹل مہارت، ہنر اور خواندگی

(iv) ای گورنمنٹ

(v) جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ۔

انڈیا کی سافٹ وئیر سروس انڈسٹری کا حجم 2030تک ایک ٹریلین ڈالر ہو جائے گا۔ ایسی ہزاروں کمپنیاں پہلے ہی موجود ہیں اور ان میں سے سو سے زیادہ یونی کورن کمپنیاں ہیں، یعنی یہ ایسی نجی کمپنیاں ہیں جن میں سرمایہ کاری ایک بلین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی اس ہدف تک نہ پہنچ پائیں لیکن ہمیں 2025 تک آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس برآمدات کے ہدف کو کم از کم 10 بلین ڈالر تک پہنچانا چاہئے تاکہ جدید معیشت کی عالمی فہرست میں ہماری درجہ بندی بہتر ہوسکے ۔

مکینزی کی ایک تحقیق کے مطابق ایک دہائی کے دوران اعداد و شمار کے بہاؤ نے مجموعی طور پر دنیا کے جی ڈی پی میں تقریباً دس فیصد اضافہ کیا ہے ۔ گویا اس کاسالانہ تجارت میں 2.8ٹریلین ڈالر کا حصہ ہے جو کہ عالمی جی ڈی پی میں اشیا ءکے عالمی رجحان کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے ۔ کارکردگی، پیداوار، سپلائی چین اور جدت کیلئے ان دنوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جائے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہی بنیادی جدت کا باعث بنے گی۔موسمیاتی تبدیلی کے خطرات زہریلے ناگوں کی طرح سر اٹھا رہے ہیں، ان کا قہر ہماری موجودہ طرز زندگی کوغیرمعمولی طور پر تبدیل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے تقریباً 33ملین آبادی کو تباہ اور بے گھر کر دیا ہے اور 30 بلین ڈالر یا جی ڈی پی کے 10فیصدکا نقصان ہوا ہے۔ اب مزید کس تصدیق کی ضرورت ہے کہ گلوبل وارمنگ نے اپنے تباہ کن اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں سے ملنے والے شواہد بھی بہت زیادہ ہیں۔ گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے سے دریا کناروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی کے ذرائع متاثر ہوسکتے ہیں ۔ وہ معیارِ زندگی خطرے کی زد میں ہے جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک پاکستان کا جی ڈی پی 18 سے 20 فیصد سالانہ تک کم ہوسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جی ڈی پی کا 6.5 سے 9 فیصد ضائع ہونے کا امکان ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے سیلاب اور گرمی زراعت اور مویشیوں کی پیداوار کو کم کرتی ہے، انفراسٹرکچر کو تباہ کرتی ہے، مزدور کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتی کے اور صحت کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ مزید برآں، فضائی آلودگی میں 6.5فیصد اضافہ اور زراعت کیلئے پانی کی کمی سے جی ڈی پی میں 4.6فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ غیر زرعی طلب کو پورا کرنے کیلئے آبپاشی کے پانی کا 10فیصد ری سائیکل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کی آبادی 2050 تک 350 ملین نفوس پر مشتمل ہو گی ۔ اس آبادی کو کھانا کھلانا، پہننے کیلئے لباس اور رہنے کیلئے گھر فراہم کرنااور روزی کمانے کیلئے ملازمتیں یا کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین