عاشورہ محرم کے موقع پر راولپنڈی میں جو کچھ ہوا، تاویلوں اور دلیلوں سے قطع ذنظر مرکزی نکتہ یہی ہے کہ یہ انتظامیہ کی ناکامی تھی۔ ایسی ناکامیاں اس وقت مقدر ہو جاتی ہیں جب امن عامہ کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر نہ ہو، جب متعلقہ افسران اپنے فرائض کے حوالے سے واضح نہ ہوں، جب ان کی ترجیحات کچھ اور ہوں یا جب ان کی نوکری کے استحکام اور ترقیٔ درجات کے پیمانے ان کی کارکردگی اور اہلیت کے بجائے کسی کی خوشنودیٔ خاطر سے جڑے ہوں۔
راجہ بازار کا مدرسہ تعلیم القرآن، دیو بندی مکتبہ فکر کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ ایک اوسط ذہنی سطح کے منتظم کو بھی معلوم ہونا چاہئے تھا کہ عین نماز جمعہ کے اوقات میں جب عزاداروں کا جلوس مسجد کے سامنے سے گزرے گا تو کیا صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ پہلی بڑی کوتاہی یہی ہے کہ اس متوقع صورتحال کا ادراک نہ کیا گیا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد اور مدینہ مارکیٹ کے بڑے دروازوں کے سامنے سیکورٹی کا کوئی مضبوط حصار نہ باندھا گیا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جلوس کے منتظمین کو جمعہ کی نماز سے ایک آدھ گھنٹہ قبل یا بعد میں وہاں سے گزرنے پر آمادہ کر لیا جاتا۔ عدالتی تحقیقات سے بہت کچھ سامنے آ جائے گا لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ راولپنڈی کی انتظامیہ، بالخصوص پولیس افسران نے کوتاہی اور غفلت مجرمانہ کا مظاہرہ کیا۔ اگر پاس پڑوس میں پولیس کی بھاری نفری پہلے سے موجود ہوتی یا فوج کو مستعد کر دیا گیا ہوتا تو فسادی عناصرکو شروع میں ہی قابو کیا جا سکتا تھا۔ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ گھنٹوں وہاں فائرنگ ہوتی رہی، کسی روک ٹوک کے بغیر املاک کو نذر آتش کیا جاتا رہا، بے گناہ انسانوں کا لہو بہتا رہا اور انتظامیہ کہیں دکھائی نہ دی۔ دو دن آگ بھڑکتی رہی اور اس پر قابو نہ پایا جا سکا۔ سیکڑوں دکانوں میں رکھا کروڑوں یا اربوں کا سامان خاکستر ہو گیا۔ پل بھر میں آسودہ حال تاجر، زندگی بھر کے اثاثوں سے محروم ہو گئے اور یہ واقعہ ملک بھر میں اشتعال کا سبب بن گیا۔
شہباز شریف بہت اچھے منتظم اور کڑے نظم و ضبط پر یقین رکھنے والے وزیراعلیٰ ہیں۔ پولیس افسران کی تعیناتی میں ان کی بڑی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ بدعنوان نہ ہوں اور نیک شہرت رکھتے ہوں۔ ہمارے ہاں کی مخصوص سیاسی ثقافت کے باعث ان کے ہاتھ پائوں کبھی کبھار بندھ بھی جاتے ہیں لیکن وہ کسی شہرت یافتہ بدعنوان افسر کو کسی طور قبول نہیں کرتے۔ راولپنڈی میں تعینات اعلیٰ پولیس افسران کی شہرت بھی اس لحاظ سے اچھی تھی لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ بدعنوانی سے پاک ایک نیکوکار اور صالح افسر، پیشہ ورانہ طور پر باصلاحیت اور اہل بھی ہو۔ میں ایسے بہت سے صالحین کو جانتا ہوں جو نیکو کاری اور پرہیز گاری کے اثاثے سمیٹتے رہے لیکن اپنے اداروں کی کوئی بگڑی کل سیدھی کر سکے نہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے حوالے سے کوئی بڑا معرکہ مار سکے۔ رشوت نہ لینے والا افسر یقیناً اچھی پوسٹنگ کا حق دار ہے لیکن یہ بھی ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ موجودہ آتشیں ماحول میں وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور امن عامہ کے حوالے سے کس اہلیت اور صلاحیت کا مالک ہے۔ تسلیم کہ اجلے دامن اور زبردست پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل ذوالفقار چیمہ جیسے افسران کم کم ہی ملتے ہیں لیکن کچھ ایسا قحط بھی نہیں۔ شہباز صاحب کو چاہئے کہ وہ اہم جگہوں پر تعیناتی کے لئے افسران کا انتخاب کرتے وقت یہ بھی ضرور دیکھ لیں کہ ایک نیکوکار اور بدعنوانی سے پاک افسر کس قدر اہل، باصلاحیت اور پیشہ ورانہ اعتبار سے مضبوط ہے۔ ورنہ یہی ہو گا کہ راولپنڈی والے واقعہ کی طرح پارسا افسران اس وقت بھی سجدے میں گرے ہوں گے جب وقت قیام ہو گا۔
راولپنڈی کے سانحے کے بعد فرقہ وارانہ منافرت کا مسئلہ (جو ہمیشہ سے موجود رہا) ایک بار پھر ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ کسی سانحہ کے وقت ہمارے ذہن و فکر میں ابال اور معاشرے میں ایک اچھال ضرور آتا ہے لیکن کچھ ہی دنوں میں ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے قائم کی گئی ملی یکجہتی کونسل نے ایک اچھے کام کا آغاز کیا تھا لیکن جلد ہی وہ مال غنیمت سمیٹنے سیاست کے میدانوں کو نکل گئی۔ ایک بات طے ہے کہ اس کار خیر کا بار گراں علمائے کرام ہی کو اٹھانا ہو گا۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے فتویٰ گروں کو لگام نہیں ڈلتی تو نفرتوں کے الائو بھڑکتے رہیں گے اور جُوے خوں بہتی رہے گی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل ایک کمیشن یا کمیٹی کو ازخود مدارس کے نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر ایسا مواد خارج کر دینا چاہئے جو منبر و محراب کے نوخیز وارثوں کے دل و دماغ میں زہر بھرتا اور عدم برداشت کے بیج بوتا ہے۔ وفاقی حکومت بھی ایک ایسا کمیشن تشکیل دے سکتی ہے جس کے ارکان خود علماء نامزد کریں۔ یہ بھی جائزہ لینا چاہئے کہ سڑکوں پر آنے والے جلوسوں کو کس طرح کڑے انتظام میں رکھ کر ان کے سفر اور گزرگاہوں کو محدود کر دیا جائے۔ اس کا اطلاق تمام مکاتب پر یکساں ہونا چاہئے۔
راولپنڈی کے سانحہ کا دلدوز پہلو یہ بھی ہے کہ گیارہ افراد کی جانوں کے ساتھ ساتھ درجنوں لوگ زخمی ہوئے اور کم و بیش دو سو دکانیں خاکستر ہو گئیں۔ مدینہ مارکیٹ، مسجد کا اثاثہ تھی جو باقی نہیں رہی۔ حکومت پنجاب کو فوری طور پر اس مارکیٹ کی تعمیر نو کرنی چاہئے۔ تاجروں کے نقصان کے ازالے کیلئے ایک کمیٹی بنا دینی چاہئے۔تاجران کو مسجد و دارالعلوم تعلیم القرآن میں بٹھا کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنے نقصانات کی تفصیلات بتائیں۔ یہ بھی نہیں تو انکم ٹیکس گوشواروں سے مدد لی جائے لیکن اس معاملے میں قطعی تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس کا تعلق ہزاروں افراد کی روزی سے ہے۔ ان کا نقصان مقامی انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی سے ہوا، سو ان کی چارہ گری پنجاب حکومت کا فرض اولین ہے۔ امید ہے وزیراعلیٰ فوری اقدام کریں گے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ نے بالعموم انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہم شوشہ بازی اور تماشا گری کے بے ثمر کھیل سے باہر آ رہے ہیں۔ ’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کا بچگانہ رجحان ہولے ہولے بلوغت اور شعور کی منزلوں کو بڑھ رہا ہے۔ ایسی آوازیں بھی اٹھیں کہ فلاں مسلک والے نشانہ بنتے ہیں تو طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہمارے لوگ نشانہ بنے تو میڈیا نے بلیک آئوٹ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے معاملات میں’’بلیک آئوٹ‘‘ ہی اچھی بات ہے۔ ہر اس بات سے گریز کیا جانا چاہئے جو فتنے کو ہوا دیتی، تعصب کی آگ بھڑکاتی اور زنجیری ردعمل ابھارتی ہے۔ میڈیا کی یہ نو دریافت سنجیدگی اور شائستگی نہایت ہی نیک شگون ہے۔
بہتر ہو کہ اب علمائے کرام احتجاجی جلوسوں اور’یوم سیاہ‘ جیسے اقدامات سے اجتناب کریں۔ عوام کا اکٹھ چاہے امن ریلی کہلائے یا کچھ اور، اپنی نفسیات رکھتا ہے جسے ’’ہجومی نفسیات‘‘ (MOB PSYCHOLOGY) کہا جاتا ہے۔ یہ ہجومی نفسیات کسی بھی مشاق خطیب یا ہنر کار منتظم کے قابو میں نہیں رہتی۔ سو بہتر ہو کہ کسی بھی عنوان سے عوام کو سڑکوں پر لانے کے بجائے پوری دل سوزی اور درد مندی کے ساتھ ان آتش فشانی دہانوں کو ٹھنڈا کرنے کی ترکیب کی جائے جو پیہم لاوہ اگلتے اور پُرامن بقائے باہمی کے نخلستان کو بھسم کرتے رہتے ہیں۔