• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں ظلم و جبر کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، عالمی جنگوں اور باہمی تنازعات میں لاکھوں کروڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ہٹلر نے نسلی برتری اور دنیا پر تسلط قائم کرنے کیلئے کروڑوں افراد کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا، جس کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی اور ان گنت ہلاکتوں کی کہانیاں اور نشانیاں دنیا کے ہر کونے میں بکھری پڑی ہیں،جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ اپنے مرے ہوئے اور زندہ بچ جانے والے وار ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج کے اس مہذب معاشرے اور ترقی یافتہ دور میں بھی ذاتی یا اجتماعی خواہشات، قومی و علاقائی مفادات، انتہا پسندی کے فروغ اور وسائل پر قبضے کیلئے جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دو سپر طاقتوں، روس اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوا، جس میں میدان جنگ دنیا کے دوسرے ممالک تھے۔ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ نے باہمی جھگڑوں اور نفرتوں کو فروغ دیا، غریب ممالک میں انسانی ترقی کی رفتار معدوم ہوئی اور بھوک و افلاس میں اضافہ ہوا۔ سرد جنگ کے دوران تین بڑی جنگیں ہوئیں، پہلا میدان جنگ کوریا تھا جہاں لاکھوں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی اور کوریا دو حصوں نارتھ اور ساؤتھ میں تقسیم ہوگیا اور یہ تنازعہ ابھی تک جاری ہے۔ ویت نام کی جنگ میں امریکہ کو شکست ہوئی جس کا بدلہ امریکہ نے چند سال بعد افغانستان میں روس کو شکست دے کر چکا دیا۔ امریکہ کی مالی امداد، پاکستانی خفیہ اداروں کی حکمت عملی اور افغان مجاہدین کی قربانیوں سے افغانستان میں جہاد کامیاب ہوا، روس کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور پھر دنیا کی دوسری سپر پاور سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور روس ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد بظاہر سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا مگر اس خطے میں امن ایک خواب بن کر رہ گیا۔ افغانستان میں مذہب اور کلچر کی حفاظت کیلئے جہاد کرنے والے مجاہدین عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے دریائے آمو عبور کرنے کی بجائے بحر اوقیانوس عبور کر کے اپنے پرانے محسنوں کے ملک امریکہ پر حملہ آور ہوگئے، یوں دنیا میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگیا جس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ پاکستان جو مذہبی جذبات ابھار کر انتہا پسندی کے جن کو بوتل سے نکالنے میں امریکہ کا شریک کار تھا، اب اس بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کیلئے اپنی مجبوریوں اور ضروریات کے سبب امریکہ اور مغرب کی معاونت کیلئے تیار تو ہوگیا مگر پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکہ نے تقریباً بیس سال افغانستان میں جنگ لڑی جسکے اثرات سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ پاکستان کی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ملک اور عوام کو بچانے کیلئے لازوال قربانیاں دیں اورہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا جسکی بدولت ہمارے ملک کے افغانستان سے ملحقہ صوبوں میں امن قائم ہوا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف جنگ کے دوران سولہ دسمبر 2014کو ایک اندوہناک واقعہ پشاور میں پیش آیا، جب چند شقی القلب دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول میں گھس کر لگ بھگ ڈیڑھ سو معصوم طالب علموں کو ان کے کلاس رومز میں شہید کردیا جبکہ اسکول پرنسپل اور دوسری ٹیچرز ان بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اس دل دہلا دینے والے واقعے سے پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود ان بچوں کی موت کا غم اور انکے والدین کی آنکھوں کے آنسو لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں اور ہر سال سولہ دسمبر کا دن شہید بچوں کی یاد میں بلیک ڈے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس سوگوار دن کی مناسبت سے مجھے میری الزبتھ فرائی کی نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان ہے: ’’میری قبر پر کھڑے ہوکر مت رو ‘‘ جس میں الزبتھ فرائی ان لوگوں کو تسلی دیتی نظر آتی ہیں جو اپنے پیاروں کے انتقال پر افسردہ ہیں۔ اس نظم میں وہ موت کو زندگی کے اختتام کی بجائے ایک نئی زندگی کا آغاز قرار دیتی ہے۔

نظم کا ترجمہ۔۔۔

میری قبر پر کھڑے ہوکر مت رو

میں وہاں نہیں ہوں، میں سویا نہیں ہوں

میں چلتی ہزاروں ہواؤں میں ہوں

میں برف پر چمچماتا ہیرا ہوں

میں پکے ہوئے خوشہ گندم پر سورج کی کرن ہوں

میں خزاں کی نرم بارش ہوں

جب آپ صبح کی خاموشی کے ساتھ جاگتے ہیں

میں خاموش پرندوں کی دائرے میں اڑتی پروازمیں ہوں

میں دن اور رات کی حدود سے بالاتر ہوں

میری قبر پر کھڑے ہوکر مت رو

میں وہاں نہیں ہوں، مجھے موت نہیں آئی ۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین