• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی نائب وزیر خارجہ حناربانی کھر جب کابل پہنچی تو افغانستان کے تمام جلی رہنما ان کے سامنے سر جھکا کران کا استقبال رہے تھے، یہ سین دیکھ کر میں ہی کیا ساری دنیا کے امن پسند خوش ہوئے کہ مذہبی شدت پسندوں کو بھی انسانیت پسند آنے لگی مگر اسمبلی میں بیٹھے چترالی صاحب کے منہ سے غصے کے مارے جھاگ نکلنے لگی۔ ہر چند تمام خواتین وزیروں کے علاوہ مرد ممبران نے اس احتجاج کو بے عملی، غیر سیاسی اور عقل سے عاری قرار دیا۔ ابھی یہ طوفان تھما نہیں تھا کہ لنڈی کوتل میں خواتین نے سائیکل پر باہر آکر اس اعتماد کو تقویت بخشی کہ اگر سعودیہ اور دبئی کی خواتین چاند پہ جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ لنڈی کوتل کی یہ جوان بچیاں تو بہت کچھ کر سکتی ہیں، کب ہم اس دقیانوسیت سے پیچھا چھڑائیں گے؟

آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ قطر میں مراکش کے گول کیپر کی ماں، اپنے بیٹے کی کامیابی پر گرائونڈ میں آکر بیٹے کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی۔ ہمارے ملک میں ہر چیز پہ قدغن ہے، فیفا ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب میں عرب گلوکار خواتین نے شرکت کی۔ ہر چند ٹرافی دینے کے لئے بھارتی اداکارہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہ بھی ثانوی بات نکلی کہ ساری قوموں کے لوگوں نے مل کر جشن منایا اور ہمارے لیاری کے نوجوانوں کی خوشی بھی دیکھنے کے لائق تھی۔

قطر جومچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی ہے اس مقام پر کیسے پہنچا؟ تیل کی طاقت کے بل بوتے پر قطر نےمعاشی اور مشینی ترقی کرکے دنیا میں اپنا نام قطر ایئرلائنز کے ذریعے بنایا،بعدازاں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد سے ساری دنیا میں اپنےآپ کو منوایا۔ یہ الگ بات کہ شہنشاہیت عام آدمی کو تحفظ دیتی ہے کہ نہیں۔ یہ سوال سارے عرب ممالک کے لئے اس لئے بے معنی ہے کہ یہ سارے ملک، تیل کی دولت کے باعث ایک طرف اپنی عیاشیاں جاری رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس سارے ریتیلے عرب میں سب سے زیادہ تعمیراتی کام اور دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر ایسے کھڑے ہوئے ہیں کہ ہر روز اور ہر منٹ کے بعد، کہیں نہ کہیں سے سیاحوں سے بھرا جہاز ان کی سرزمین پر اترتا رہتا ہے۔ ہم اپنے تئیں جمہوریت کا چورن پوری قوم کو کھلا کر سیاست کے نام پر اپنی جاگیریں دنیا بھر میں بنا کر کبھی فرانس تو کبھی سوئٹزرلینڈ سیر کو چلے جاتے ہیں۔ اب جھاکا اتنا کھل گیا ہے کہ فوج جس کو چاہتوں کے ساتھ ملک بھر کے لوگوں نے سر پر بٹھایا، وہیں زیرلب گزشتہ برسوں میں اور اب ببانگ دہل ملک اور بیرون ملک ان کے اثاثوں پر حرف زنی ہو رہی ہے۔ خود باجوہ صاحب نے سیاسی مداخلت کا اقرار کیا ہے مگر محض اقرار سے ملک کی سیاسی ابتری جو ان کے چھ برس کے دوران ہوئی،کا ازالہ ممکن ہے؟ وہ سارے راز، پیاز کے چھلکوں کی طرح اتر رہے ہیں جنہیں ادارے کے تقدس کے پردوں میں چھپایا جاتا رہا۔ سب سے مایوس کن اس لیڈر کے تازہ ترین بیانات ہیں جو بہادر شاہ ظفر کے آخری دنوں کی کیفیت سے مماثل ہیں۔

ہمارے ملک میں عوام کے ساتھ ہر زمانے میں دھوکا کیا گیا۔ ہم نے ان لوگوں کو اشرافیہ کہا جو پاکستان کی زمین، زر اور قدرتی معدنیات کو کوڑیوں کے مول فروخت کرتے رہے اور ابھی تک ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ہم سے مراد کیا ہے! وہ لوگ جو اوسط درجے سے گر کر اس وقت خط غربت سے نیچےرہنے والوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ مجموعی سطح پر ’’سر ڈھانپو تو پیر کھلتے ہیں‘‘ والی حالت ہے اور نظر کیا آ رہا ہے ’’اسمبلیاں بچائو تحریک۔‘‘ کس کے لئے اسمبلیاں بچائو، اپنی اپنی جاگیر بچانے کو؟ ہمیں تو ہر روز روٹی کی بڑھتی قیمت کا سامنا ہے۔ ہمیں تو دوائیوں کے نایاب ہونے اوراسپتالوں میں زمین پر لیٹے مریضوں کی آہ و بکا کا سامنا ایک طرف ہے تو دوسری طرف ہماری نوخیز بچیوں کو بھیڑیوں سے بچانے کی فکر دامن گیر ہے۔ ایوب خان سے ڈکٹیٹر مشرف تک، اسمبلیاں ایسے توڑتے تھے جیسے مٹی کے کھلونے اور ہم قائداعظم کے کھوٹے سکوں کی طرح موجود رقم کو اپنی جیبوں میں بار بار دیکھتے ہیں کہ اس سے ایک روٹی مل سکے گی کہ دو۔

ہمارے سارے سیاست دان نامی مصنوعی اشرافیہ سچ پوچھیں تو اپنے اپنے زمانے کے محمد شاہ رنگیلا لگ رہے ہیں۔ زوال انبوہ میں ہر اس منافق کا ساتھ دیا جو قومی غیرت کا سودا کر کے بڑا فخریہ اعلان کرتا رہا ہے کہ ہم نے ملک کو بچالیا۔ بے شرمی کی حد یہ رہی ہے کہ کبھی ڈیم گروی رکھ دیئے، کبھی غریبوں کے سرمائے سے بنی عمارتیں۔ ان سب کا بس چلے تو قائداعظم کا مقبرہ بھی فروخت کرکے فخریہ کہیں ہم نے ملک کو بچالیا ہے۔

ویسے تو صرف انجلیناجولی کے ہار کی داستان پھیلائی اور اب ہماری تہذیبی میراث برقعے کو بھی بنی گالہ کھا گیا ۔ مجھے سونے سے نفرت یہ دیکھ کر ہوئی تھی کہ میری سسرال کی خواتین ایک سونے کے ہار کے عوض شوہر کی بدقماشیاں برداشت کرتیں اور بڑے فخر سے نیا ہار دکھاتی تھیں۔ طاہرہ عبداللہ اور میں دنیا کے ہر گوشے میں بلا کوئی زیور پہنے گھوم آئے ہیں۔آخر ہماری عورتوں کے گھروں سے تلاشی کے بعد سونا کیوں نکلتا ہے؟ عورت کی ضد پر شوہر کیا کچھ کرتے ہیں۔ یہ تو مغل تاریخ ہے۔ اس 75برس کے ملک کی اسلام کے نام پر جو رسوائیاں ہوئی ہیں، وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ آج اگر عورت کی ہوس اور حرص کو دفنا دیا جائے، قلوپطرہ بننے کے خواب دیکھنے والیاں رابعہ بصری بننے کی کوشش کریں تو شاید یہ سسکتی ہوئی قوم بچ جائے۔ حکومتی گھمن گھیریوں سے تنگ آکر گزشتہ 8ماہ میں ساڑھے سات لاکھ لوگ روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک میں چلے گئے ہیں اور ہم سیاست دان نما لوگوں کی آنیاں اور جانیاں دیکھ رہے ہیں۔ جوگیا وہ تو 43کروڑ، 44لاکھ کے جہاز اڑا کر قوم کی تقدیر امر بالمعروف کر گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین