• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے 2021کا وہ دن یاد ہے جب الحمرا کے لان میں ایک شاندار تقریب ہوئی تھی جس میں یونیسکو کی ڈائریکٹر پیٹریشیا میک فلپس نے کہاتھا’’میں اس باوقار تقریب کا حصہ بن کر واقعی فخر محسوس کر رہی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ لاہور عظیم ترین ثقافتی ورثے کے حامل شہروں میں سے ایک ہے۔یہ ایک بھرپور اور متحرک ثقافت کا حامل شہر ہے اور اب یہ ان شہروں کے نیٹ ورک میں شامل ہو چکا ہے جس کی ادبی حیثیت کو یونیسکو نے تسلیم کیا ہے ۔ یقیناً یہ ایک یادگار لمحہ تھامگر اس کیلئے یونیسکو نے کچھ اہداف بھی مقررکئے ۔ پانچ سال کے بعد یونیسکو کو یہ دیکھنا ہے کہ واقعی اس کا فیصلہ درست تھا یا نہیں ۔مجھے افسوس سے کہنا ہے کہ ابھی تک ہم نے اس سلسلے میں کچھ خاص نہیں کیا۔بحیثیت صدرنشین مجلس ترقی ادب میں نے آفتاب خان کو اس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کاپراجیکٹ دیا تھا ۔مجھے توقع ہے کہ وہ ضرور مکمل ہوگا۔ اس موضوع پر ایک ڈاکیو منٹری بھی بنوانی شروع کرائی تھی جس کے اسکرپٹ بھی آفتاب خان نے لکھا تھا۔

خوابوں بھرا لاہورادب و ثقافت کاصدیوں سے مرکز ہے۔ دبستان ِ لاہورنےعلامہ اقبال ، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، ن م راشد، سعادت حسن منٹو ،منیر نیازی، ناصر کاظمی اور حفیظ جالندھری جیسے نابغےدامن ِ ادب کے سپرد کئے ۔مغلیہ دورمیں شیش محل سےمتصل دیوانِ خاص میں مشاعرے ہواکرتے تھے ۔گزشتہ صدی کے نصف تک انگوری باغ اہل لاہورکیلئے مشاعرہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔لاہور کی یہی ادبی تاریخ اسے دیگرشہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ شاید اسی لیے 2019میں یونیسکو نے اسے ’’سٹی آف لٹریچر‘‘ کا درجہ دیا ہے جو اس کی علمی اور ادبی حیثیت کا برملا اعتراف ہے۔

اندرونِ بھاٹی گیٹ اور بازار حکیماں میں بھی برسوںتک باقاعدگی سے مشاعرے ہوتے رہے ۔ بھاٹی دروازےکے محلہ شیش محل میں مشہور ناول نگار اور شاعر محمد منشی رہتےتھے۔ شیش محل سے تھوڑا آگےرائے بہادر میلہ رام کی حویلی تھی جہاں ماہانہ مشاعرے ہوتے تھے ۔ جن میں علامہ اقبال، سر عبدالقادر ، سر شہاب الدین ، میاں سراج الدین ، راجہ نرندر ناتھ، راجہ سروپا کشن نول، نواب لیاقت علی خاں، نواب احمد یار خاں دولتانہ، سر سکندر حیات، سردار سندر سنگھ اور سردار جوگندر سنگھ وغیرہ مستقلاً شریک ہوتے تھے۔ اسی محلے کے ایک نوجوان محمد طفیل نے ’’نقوش‘‘ نامی مجلہ شائع کرنا شروع کیا جس کی ایک تاریخی حیثیت ہے ۔ معروف شاعر و ادیب محمد دین تاثیر (ایم ڈی تاثیر) کی رہائش بھی یہیں تھی۔ سرعبدالقادر بھی یہیں رہتے تھے ۔یہیں سے انہوںنے 1901 میں رسالہ ’’مخزن‘‘ شروع کیا تھاجہاں علامہ اقبال، چوہدری خوشی محمد ناظر، مرزا اعجاز حسین، میر غلام بھیک نیرنگ، عبدالرشید چشتی ، مولوی ظفر علی خان، شیخ محمد اکرام اور تلوک چند محروم اکثر جایا کرتے تھے ، حکیم احمد شجاع پاشا نے رسالہ ’’ہزارداستان‘‘ کا دفتر بھی بنایا تھا جہاں احمد شاہ پطرس بخاری، عابد علی عابد، سید امتیاز علی تاج، مسٹرہادی حسین، عابدحسین خان بیدل، عبدالمجید سالک، پنڈت سدرشن اور اختر شیرانی کی جوانی گزری۔

بازار حکیماں میں چارمشاعرے ہوتے ۔ ایک حکیم شجاع پاشا کے ہاں جنہوں نے 1895میں اردو بزمِ مشاعرہ کی بنیاد رکھی جس کے دوسرے مشاعرے میں علامہ اقبال پہلی بار غزل سرا ہوئے۔ اس وقت علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہورمیں پڑھتے تھے۔ دوسرا مقام حکیم شہباز دین کا مکان تھا جہاں 1895 سے 1922تک شام ہوتے ہی شاعروں اور ادیبوں کا میلہ لگ جاتا تھا۔ تیسرا مشاعرہ فقیر سید افتخار الدین کے مکان پر ہوتا تھا اور چوتھا مشاعرہ فقیر حفیظ الدین کی حویلی میں ہوتا تھا ۔حلقہ اربابِ ذوق کی بنیاد اسی شہر میں رکھی گئی۔ قیوم نظر اور میرا جی نے اس کا آغاز کیا اور پھر اپنے دور کا ہر بڑا ادیب شاعر اس سے منسلک رہا۔ یہ حلقہ ابھی تک پورے طمطراق سے موجود ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین بھی لاہورمیں کافی فعال رہی۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کو اسی تنظیم سے تعلق کے سبب جیل کاٹنی پڑی۔صوفی تبسم ، شہزاد احمد، احمد فراز، ظہیر کاشمیری، قتیل شفائی، حبیب جالب کو اسی شہر سے شہرت ملی۔ یہاں سے بڑے بڑے ادبی رسائل بھی نکلتے تھے۔’’فنون‘‘، ’’سویرا‘‘، ’’ادب لطیف‘‘، ’’ماہِ نو‘‘، ’’تخلیق‘‘ وغیرہ۔ تقسیم ہند کے وقت بھارت چلے جانے والے رائٹرز میں سے۔ ساحرلدھیانوی ایبٹ روڈ پر رہائش پذیر تھے۔ امرتاپریتم دھنی رام روڈ انارکلی میں سکونت پذیر تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد کئی مقامات پرادبی محفلیں سجتی تھیں۔ جن میں پاک ٹی ہاؤس، عرب ہوٹل، چائنیز لنچ ہوم، وائی ایم سی اے بہت مشہور تھے۔ نئے مقامات میں الحمرا کی ادبی بیٹھک اور مجلس ترقی ادب کے چائے خانہ کو اہمیت حاصل ہوئی۔ چوپال، ٹاؤن ہال، کاسمو پولیٹن کلب اور اکادمی ادبیات کے لاہور آفس میں بھی ادبی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فیض احمد فیض کے ماڈل ٹاؤن میں واقع مکان میں تواتر سے ادبی محافل منعقد ہوتی رہی ہیں۔ یہ مکان اب یادگار فیض میں بدل دیا گیا ہے۔ جشنِ بہاراں کے عنوان سے سالانہ سرکاری مشاعرے کے انعقاد میں تعطل آیا مگر اب مجلس ترقی ادب نے پھراسے بحال کر لیا ہے۔ مجلس ترقی ادب کا ’’لاہور ادبی عجائب گھر‘‘ سٹی آف لٹریچر کے اہداف میں شامل تھا، جسے پورا کیا گیا۔ بہر حال یونیسکو کی طرف سے لاہور کو سٹی آف لٹریچر قرار دینے کے بعد لاہور کے شاعروں ادیبوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو چکا ہے کہ اس شہرِ بے مثال کی ادبی حیثیت پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ یونیسکو نے پانچ سال کے بعد اسے دوبارہ دیکھنا ہے کہ لاہور وہ تمام اہداف حاصل کر چکا ہے یا نہیں جو سٹی آف لٹریچر کیلئے ضروری ہیں۔

تازہ ترین