• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب اسحاق ڈار کی پاکستان تشریف آوری سے قبل ہی کشت آرزو میں امیدوں کے بیج ڈالے گئے تھے۔خوش گمانیوں کے آب شیریں سے اس بیج کی آبیاری کی گئی تھی۔ہم جیسے کئی خوش فہم لوگوں نے خوابوں کے محل بھی تعمیر کر لئے تھے۔چشم تصور سے ڈالر کو اوندھے منہ گرتے اور روپے کی قدر سربلند دیکھی تھی،ہم نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا خواب دیکھا تھا اور معاشی سرگرمیوں کو حیات نوبخشنے کی تمنا کی تھی۔ راقم کی دیانت دارانہ رائے تھی کہ اسحاق ڈار کی آمد سے دم توڑتی معیشت کو آکسیجن ملے گی اور اسکی اکھڑتی سانسیں بحال ہونگی لیکن موصوف پاکستان آتے ہی معیشت کے بجائے سیاسی سمندر میں یوں غوطہ زن ہوئے کہ پھر سطح آب پر نظر نہیں آئے، جنہیں معیشت کی بحالی کے ایجنڈے پر لایا گیا تھا وہ سیاسی رابطہ کاری میں کچھ ایسے الجھے کہ نہ معیشت قابو میں ہے اور نہ سیاست۔کوئی جناب اسحاق ڈار کو جا کر یہ خبر دے کہ ملک کی 60فیصد صنعت بند ہوچکی ہے،گیس اور بجلی کے بحران نے تمام مقامی صنعتوں کو’’ادھ موا‘‘ کردیا ہے۔ بینکوں نے پچاس ہزار تک کی بھی ایل سی کھولنے سے انکار کیا ہوا ہے۔جناب اسحاق ڈار کو کوئی جاکر خبر کرے، ڈالر ملک سے ناپید ہو چکا ہے۔ ایکسپورٹرز بحران در بحران کا شکار ہے،منی چینجرز مافیا ڈالر کو ذخیرہ کر کے افغانستان کے راستے بیرون ملک اسمگل کر رہا ہے۔روز مرہ کی اشیائے ضروریہ اور جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب کر دی گئی ہیں۔پیراسٹامول، انسولین اور اس نوعیت کی ضروری ادویات تک مارکیٹ میں موجود نہیں۔ایک موبائل کمپنی کے دس ہزار ٹاورز برائے فروخت ہیں۔ٹیوٹا نے اپنا اسٹاف کم کردیا ہے اور پارٹس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری بند کر دی ہے۔کراچی پورٹ پر کئی جہاز لنگر انداز ہیں، سینکڑوں کنٹینرز کا سامان پورٹ پر پڑا ہوا ہے،تاجروں کا اربوں روپے کا سرمایہ اٹکا ہوا ہے، کنسٹرکشن کا کام تقریباً بند ہے، مزدور بے روزگار ہےلیکن ہمارے حکمراں سیلاب پر سیاست کر رہے ہیں،پنجاب اسمبلی کی بحالی کے معاملے پر گھنٹوں قانونی نکات پر بحث کی جا رہی ہے۔اس نازک صورتحال میں دہشتگردی کا عفریت ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے۔اسلام آباد میں خودکش دھماکے نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔بنوں میں سی ڈی ہیڈ کوارٹر میں پانچ دن تک آگ اور خون کا بہیمانہ کھیل کھیلا جاتا رہا، یوں لگتا تھا کہ جیسے بنوں پر غیر ملکی افواج نے حملہ کر دیا ہو۔صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آگئی ہے۔شمالی وزیرستان میں جہاں پاک فوج نے قیمتی جانوں کی قربانیاں دیکر امن وامان بحال کیا تھا، وہاں تاجر قتل کئے جا رہے ہیں ۔ اندریں حالات، فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا’’'ملک کی تباہی و بربادی کا سلسلہ اب وہاں تک پہنچ گیا ہے جہاں اندھیرے راج کرتے ہیں ،جہاں تاریکیاں پرورش پاتی ہیں‘‘ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے میرے ملک کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔

خوابوں کی دنیا میں رہنے والے یہ حکمراں بجلی کا یونٹ 35 روپے اور صنعتی یونٹ 90روپے کرنے کے درپے ہیں۔مہنگائی ختم کرنے کا منفرد طریقہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ حکومتی حجم کم کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات کنٹرول کرنے کے بجائے مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیاجائے۔غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کی خاک چھانی جا رہی ہے اور خارجہ پالیسی کی کامیابی کا نمونہ یہ ہے کہ برادر ملک متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے 24شہروں کو ویزہ کیلئے بلیک لسٹ کردیا ہے۔لیلائے اقتدار سے وصال کی خواہش تو پوری ہوئی لیکن اس مشق کے دوران ڈالر 230تک پہنچ گیا،گھی 500روپے فی کلو ہوگیا۔کیا حکمرانوں کی خواہشات کی تکمیل کاخرچ قوم کو ادا کرناہے؟کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے ایسے ملک کیلئے جدوجہد کی تھی جہاں امیر اور غریب میں اتنا تفاوت ہو؟پاکستان کے نوجوانوں کے ذہن میں سینکڑوں ایسے سلگتے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ہمارے نوجوان موجودہ حکمراں طبقے سے شدید مایوس اور ناراض ہیں۔ان کیلئےنہ ملازمتوں کے مواقع ہیں، نہ کاروبار کیلئے ماحول،ملک کے شہ دماغ پاکستان سے ہجرت کر رہے ہیں۔حالیہ سالوں میں سات لاکھ سے زائد پڑھے لکھے اور لائق نوجوانوں کا ملک چھوڑ جانا کسی المیے سے کم نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملکی سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ذاتی کردار کشی کی روش نے معاشرے پر گہرے زخم لگا دیے ہیں۔خدا را سیاسی اختلاف کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ کسی کی عزت ہی محفوظ نہ رہے۔بلیک میلنگ کیلئے مختلف مکروہ حربے اختیار کرنیوالوں کو اس’’ستار العیوب‘‘کا خوف کرنا چاہئے۔ اگر یہ روش چل نکلی تو کوئی محفوظ نہیں رہیگا۔کردار کشی کا غلیظ دھندہ کرنیوالوں سے گزارش ہے کہ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیں۔تمام سیاسی جماعتیں ملکر صرف ایک شخص عمران خان کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوشش میں ہیں۔میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں۔اگر نہیں کر سکتے تو ہار مان لیں لیکن سیاست آلودہ نہ کریں۔

تازہ ترین