ایک حالیہ بین الاقوامی تحقیق کے نتائج میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ پائے جانے والے مضرِ صحت رجحانات برقرار رہے تو 2050ء تک دنیا بھر میں جگر کے کینسر کے کیسز تقریباً دگنے ہو سکتے ہیں۔
طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جگر کے کینسر کے نئے کیسز کی سالانہ تعداد 8 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 15 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ سکتی ہے جس کے بعد اس مرض سے اموات کی شرح 13 لاکھ 70 ہزار سالانہ ہو جائے گی۔
جگر کا کینسر اس وقت دنیا بھر میں جان لیوا کینسرز کی فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود ہے۔
طبی رپورٹ میں وارننگ دی گئی ہے کہ اس خطرناک بیماری کی بننے والی وجوہات سے بچا جا سکتا ہے جن میں الکوحل کا استعمال، وائرل ہیپاٹائٹس بی اور سی، موٹاپا اور میٹابولک ڈسفنکشن ایسوسی ایٹڈ اسٹیٹوٹک لیور ڈیزیز شامل ہے جو جگر میں چکنائی کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے کینسر کے 60 فیصد کیسز کو مؤثر عوامی صحت کی پالیسیوں اور بروقت احتیاطی تدابیر کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
30 جولائی کو جاری کردہ اس تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے لیے پیدائش کے فوراً بعد ویکسینیشن لگوانا سب سے مؤثر طریقہ ہے مگر بدقسمتی سے افریقی خطے سمیت غریب ممالک میں ویکسینیشن کی شرح انتہائی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو 2015ء سے 2030ء کے درمیان ہیپاٹائٹس بی کے باعث 1 کروڑ 70 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2050ء تک جگر کے کینسر کے 21 فیصد سے زائد کیسز الکوحل کے استعمال سے منسلک ہوں گے جو کہ 2022ء کے مقابلے میں 2 فیصد زیادہ ہیں۔
اسی طرح جگر میں چکنائی جمع ہونے سے پیدا ہونے والے کینسر کی شرح 11 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جو کہ 2 فیصد اضافہ ظاہر کر رہی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج میں محققین کی جانب سے واضح طور پر عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ماہرین نے خاص طور پر امریکا، یورپ اور ایشیا میں موٹاپے یا ذیابیطس کے مریضوں کو جگر کی چکنائی (فیٹی لیور) کے خطرات سے آگاہ کرنے سے متعلق مہم شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف تشخیص اور علاج پر انحصار کافی نہیں ہے بلکہ اصل ضرورت احتیاطی اقدامات اور عوامی آگاہی کی ہے تاکہ مستقبل میں اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کو روکا اور اس سے بچا جا سکے۔