گزشتہ دنوں سعودی اور چینی وزیر تعلیم کے مابین سعودی طلبہ کو چینی زبان سِکھانے کا معاہدہ ہوا جس کے بعد اب سعودی عرب نے مسجد الحرام میں دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کی طرح چینی زبان میں بھی اسلامی اسباق کا آغاز کر دیا۔
جنرل پریذیڈنسی شعبے کے ڈائریکٹر صالح الرشیدی کا کہنا تھا کہ اسلامی اسباق اب 14 زبانوں انگریزی، اردو، فرانسیسی، ہاؤسا، ترک، مالائی، انڈونیشی، تامل، ہندی، بنگالی، فارسی، روسی، بورنیو اور چینی میں دستیاب ہیں۔جس کی نگرانی مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے امور کی جنرل پریذیڈنسی کے شعبہ ترجمہ نے کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد عربی نہ بولنے والوں کی مدد کرنا ہے جو مسجد الحرام میں ان کلاسز میں شرکت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مسجد الحرام سمیت سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں چینی زبان سکھانے کے منصوبے کا مقصد چین کی اہمیت اور دونوں ممالک کے درمیان جاری تعلقات کو مستقبل میں مزید مستحکم کرنا ہے تاکہ دونوں ملک مستقبل میں ایک دوسرے کی اقتصادی قوت اور سرمایہ کاری کے موقع پر بھرپور طریقے سے استفادہ کرسکیں۔
واضح رہے کہ ایک جانب سعودی عرب چین کا مغربی ایشیائی اور افریقی ممالک میں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
حال ہی میں چینی سرمایہ کاری کمپنیوں کی بڑی تعداد نے سعودی عرب میں دلچسپی دیکھاتے ہوئے یہاں کا رخ کیا ہے۔
جس کے بعد سعودی عرب چینی کلچر اور ثقافت سے آگاہی کے لیے چینی طلبہ کو ملک میں تعلیم کے حصول کی اجازت دے گا اور ویژن 2030 کے اہداف کے حصول کے لیے سعودی عرب میں چینی زبان سے آگاہی کو یقینی بنایا جائے گا۔
سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں چینی زبان سکھانے سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سعودی عرب بیجنگ کو کس قدر اقتصادی اہمیت دیتا ہے، چین سعودی عرب کے لیے بہت بڑا اقتصادی شراکت دار ہوسکتا ہے۔
چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے اور سعودی عرب چینی اقتصادی حجم سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق سعودی عرب میں چینی زبان سکھانے کے کورسز سے 50 ہزار افراد کو روزگار ملے گا جبکہ سالانہ 2 کروڑ چینی سیاح سعودی عرب میں سیاحت کی غرض سے آئیں گے۔