لاہور کے شہری، عابد مجید روڈ سے واقف ہیں مگر کم لوگوں کو عابد مجید کے بارےمیں علم ہو گا۔ یہ مرکزی شاہراہ اِس نام سے کیوں منسوب ہوئی،شاید مجھے بھی علم نہ ہوتا۔ لیفٹیننٹ عابد مجید مرحوم میری درس گاہ، کیڈٹ کالج حسن ابدال کے طالب علم تھے۔ آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ 19لانسر کا حصہ بنے اور 1965ء کی جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر شہادت کا رُتبہ پایا۔ کیڈٹ کالج کے پرنسپل، کرنل جے ڈی ایچ چیپ مین نے کالج کے مرکزی ہال میں عابد مجید کا پورٹریٹ نصب کرنے کی تقریب منعقد کی۔ چیف گیسٹ، عابد مجید شہید کی والدہ محترمہ تھیں۔ اِس تقریب کی وہ تصویر بہت مشہور ہوئی جس میں والدہ کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے ہیں اور وہ ہاتھ اُٹھائے اپنے شہید بیٹے کی تصویر سے مخاطب ہیں۔ خواہش ہے کہ لیفٹیننٹ عابد مجید شہیدکے حوالےسے لاہور کے شہریوں کو معلومات ملنی چاہئیں۔ اِس شاہراہ کے کسی مناسب مقام پر ایک یادگاری کتبہ اِس کمی کو دُور کر سکتا ہے۔ ہمارے کالج کی مسجد کے نوجوان خطیب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جنگ کے فوراً بعد، جمعہ کے خطبہ میں اُنہوں نے سورۃ بقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے، لفظ ’’شہید‘‘ کے اسلامی تصور سے آگاہ کیا۔ ایک بات ذہن میں بیٹھ گئی کہ شہادت کی موت سے بڑا اعزاز کسی مسلمان کو نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ سعادت قسمت میں لکھی ہو تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔مسلمانوں کے لئے شہادت کا اعزاز ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ کلمہ گو دُنیا میںاپنے گناہ و ثواب کی بنیاد پر جنت یا دوزخ میں داخل ہوں گے مگر ’’شہید‘‘ نامۂ اعمال کی پُرسش سے بے نیاز، جنت میں اعلیٰ درجے پر فائز ہو گا۔ بچپن سے یہ بات ذہن میں جاں گزین ہو گئی کہ ہمارے علاوہ کسی اور مذہب یا سماج میں ’’شہید‘‘ جیسا منفرد تصور موجود نہیں۔ حکم ہے کہ شہید مسلمان کو مردہ نہ سمجھا جائے کیونکہ وہ زندہ ہے مگر ہمیں اِس بات کی سمجھ نہیں۔
وقت کے ساتھ اہلِ علم کی تحریروں سے پتہ چلا کہ ’’شہادت‘‘ کے بہت سے درجات ہیں۔ باور کروایا گیا کہ اصل شہادت تو صرف میدان جنگ میں کُفرکے خلاف برسرِ پیکار سپاہی کا اعزاز ہے مگر دُشمن کی بمباری میں عام شہری کی جان چلی جائے تو اُس کی موت بھی شہادت ہے۔ برصغیر کے بٹوارے میں فسادات ہوئے۔ لاکھوں بے گناہ مسلمان جان سے گئے۔ اُنہیں بھی شہید کہا گیا۔ اِسی طرح یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہونے والے بھی شہادت کا درجہ پاتے ہیں۔
مجھے نہ لسانیات پر عبور ہے اور نہ مذہبی معاملات پر دسترس۔ کم علمی کا اعتراف ہے مگر ’’شہید‘‘ کے حوالے سے سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے کا تذکرہ کروں گا۔ منٹو مرحوم، طنز سے بھرپور، کاٹ دار تحریروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اُنہوں نے قیامِ پاکستان کے دوران فسادات کے تناظر میں بہت سے مشہور افسانے تحریر کئے۔ اِن میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ شامل ہیں۔ ’’ٹھنڈاگوشت‘‘ سماجی حدود سے تجاوز پر قابل مواخذہ ٹھہرا۔ ریاست حرکت میں آئی اورمنٹو کے خلاف مقدمہ قائم ہوا۔ عدالتی کارروائی میں منٹو کا دفاع فیض احمد فیض اور بہت سے دُوسرے نامور لکھاریوں نے کیا۔ اِس مقدمے کی مکمل رُوداد منٹو کی اپنی تحریر میں موجود ہے۔ اِسی باغی افسانہ نگار نے ایک اور کہانی میں لفظ ’’شہید‘‘ کے استعمال کےبارےمیں لکھا۔ چونکہ سماجی روایات کی پاسداری نہ کرنے پر منٹو پہلے سے زیرِ عتاب رہے تھے، کسی ناشر کو اشاعت کی ہمت نہ ہوئی۔ اِس منفرد افسانہ نگار کی موت پر ’’نقوش‘‘ نے منٹو نمبر طبع کیا اور اِس غیر مطبوعہ کہانی ’’شہید ساز‘‘ کو جریدے میں جگہ ملی۔ فرضی کہانی میں منٹو ایک طرف، لُٹے پُٹے بے روزگار مہاجرین کی تلخ زندگی کا تذکرہ کرتا ہے تو دوسری طرف ایک بے ایمان ٹھیکیدار کا ذکر ہے۔ ٹھیکیدار کی ناقص میٹیریئل سے بنائی ہوئی عمارتیں اچانک زمین بوس ہونے پر اُن کے مکین، ناگہانی حادثے میں ہلاک ہوتے ہیں۔ وہ دیدہ دلیری سے اپنے شرمناک فعل کی وضاحت کرتا ہے۔ احسان جتاتا ہے کہ جو لوگ غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں، دُنیا میں تلخ اور بدنصیب زندگی گزار رہے تھے، اُنہیں حادثاتی موت شہادت کا درجہ عطا کرتی ہے اور یوں وہ بعد از موت جنت کی آسائشوں کے حق دار بن جاتے ہیں۔ منٹو کا یہ افسانہ اُس کی اچھی تحریروں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کا ذکر صرف اِس لئے کیا گیا ہے کہ ’’شہید‘‘ کے تصور کی تعبیر اِس عجیب انداز میں بھی کی گئی۔
علم میں اضافہ ہونے پر معلوم ہوا کہ دُوسری اقوام بھی جان کا نذرانہ دینے والے سپاہیوں کو سماج میں عزت اور احترام دینے کے طریقے اپناتی ہیں۔ اِس کوشش میں دُنیا کی ہر قوم شامل ہے، چاہے جاپان کے خود کُش پائلٹ، یا بُدھ مت کے پیروکار ۔
برِصغیر کی زبانوں میں لفظ ’’شہید‘‘ کا استعمال، شہادت کے مخصوص تصور کی بناپر صرف مسلمانوں کے لئے مختص تھا۔ کسی اور مقامی زبان، خاص طور پر، سنسکرت یا ہندی میں اِس کا ذکر نہیں مگر انتہائی بے شرمی کے ساتھ ایک مکمل اسلامی تصور کو ہندی میں شامل کر لیا گیا۔ پہلی دفعہ جب لتامنگیشکر کی گائیکی میں ہندوستان اور چین کے درمیان 1962ء کی لڑائی میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کے لئے ’’شہید‘‘ کا لفظ سُنا تو بہت حیرت ہوئی۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ مشہور نغمہ نگار اور موسیقار، سی رام چندر نے جنگ کے صرف دو مہینے بعد 26جنوری 1963ء کو ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کی تقریب میں سرانجام دیا۔ بھارت کے صدر رادھا کرشنن اوروزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی موجودگی میں ہلاک ہونے والے غیر مسلم سپاہی شہید کہلائے۔ لتا منگیشکر عوامی اجتماع میں گانے سے پرہیز کرتی تھیں مگر اِس خاص قومی موقع پر گلوکاری کے لئے تشریف لائیں۔ گانے کے بول تھے ’’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی۔ جو شہید ہوئے ہیں اُن کی، یاد کرو قربانی۔‘‘ اِس نغمے سے انکشاف ہوا کہ جنگ میں سپاہیوں کو جان دینے پر آمادہ کرنے کیلئے حکومت اور اُسکے کارندے ہر قسم کی چالاکی اور عیاری سے کام لیتے ہیں، چاہے اُس میں کسی ’’مذہبی تصور‘‘ کی چوری بھی شامل ہو۔