• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخواکے بعد اب بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اچانک تیزی آگئی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر بیرونی دہشت گردی کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ بنوں کے واقعہ کے بعد گزشتہ دنوں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایک روز میں متعدد دھماکوں نے نئے سیکورٹی چیلنجز کھڑے کر دیئے ہیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے شہباز شریف حکومت کو فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔اگر خیبر پختونخوااور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام نہ ہوسکی تو خدانخواستہ ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ابھی چند روز قبل اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کے ایک بڑے ممکنہ خطرے کو ناکام بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہےکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد ی روکنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے قبل از وقت اقدامات کیوں نہیں کئے؟یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت سی پیک کو کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پاکستانی وزارت خارجہ نے ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے رکھے ہیں۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کوبھی ماضی میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیاتھا۔حیرت ہے کہ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے کھلم کھلا شواہد کے باوجود عالمی برادری حرکت میں نہیں آرہی۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی پچھلے پچھتر سال سے ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے لیکن اسے فیٹف کی بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جاتا۔!

وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کو عوام کا احساس محرومی دور کرنا چاہئے۔المیہ یہ ہے کہ حکومت بلوچستان نے معاہدے پر عمل در آمد کی بجائے دو ماہ سے جاری پر امن دھرنے میں شریک مردو خواتین پر رات گئے تشدد اور طاقت کا استعمال کرکے ظلم کی انتہا کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گوادر کے غریب ماہی گیروں کی داد رسی کی جاتی اور حکومت مظلوم اور پسے ہوئے عوام کی آواز بنتی لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ گوادر کے لوگوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے بلوچستان حکومت نے ان پر شیلنگ اور گرفتاریاں کر کے صورتحال کو مزید بگاڑدیا ۔ گوادر کے عوام محب وطن پاکستانی ہیں اور اپنے جائز حقوق کیلئےپرامن جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کو سرکاری تشدد کے ذریعے کچلنا انتہائی تشویش ناک اورغیردانشمندانہ طرز عمل ہے۔اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے پاکستان سے محبت کرنے والے بلوچ عوام کو بھی اپنے سے دور کر رہی ہے۔ بلوچستان حکومت ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنا بند کرے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی گوادر کے مظلوم عوام پر تشدد پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہناتھا کہ دو ماہ سے جاری پر امن دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن قابل مذمت ہے۔ حکومت کو مظاہرین کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے اور پر امن مظاہرین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ گوادر کے نہتے، پر امن مظاہرین پر حالیہ تشدد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت کی نگاہ میںگویا ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود’’حق دو تحریک‘‘ کا یہ عزم ہے کہ جو وعدے حکومت نے گوادر کے عوام کے ساتھ کئے تھے اگر ان کی تکمیل نہ کی گئی تو احتجاج جاری رکھیں گے۔گوا در کے غریب ماہی گیر ہمیشہ سے پاکستان سے پیار کرنے والے ہیں۔ وفاقی حکومت کو اس پیچیدہ صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر صوبائی حکومت نے اپنی روش نہ بدلی تو پاکستان مزید الجھنوں میں پھنس سکتا ہے ۔ ماضی میں دسمبر کے مہینے میں کئی تلخ واقعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔انیس سو اکہتر میں بھی پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا گیا اور آج بھی حالات کو خراب کیا جارہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان لوگوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف بدعنوانوں کو جیلوں سے نکال کر ایوانوں میں پہنچادیا گیا، ملک میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ جبکہ دوسری طرف گوادر کے مظلوم عوام ہیں جو اپنے جمہوری حقوق مانگ رہے ہیں لیکن ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے الٹا ان پر تشدد کیا جارہاہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو مملکت خداداد پاکستان اور اس کے محب وطن عوام کی قدر کرنی چاہئے۔ ملک و قوم کی ترقی کیلئے ہمیں قائد اعظم کے افکار اور نظریات پر عمل در آمد کرنا ہوگا۔ بانی پاکستان کے راستے پر چلتے ہوئے ہی ہم دنیا میں بلند مقام و مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا خون شامل ہے۔ اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور ایثار کے نتیجے میں آج ہم ایک آزادملک میں سانسیں لے رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین