ریاست ماں جیسی ہونی چاہئے یا باپ جیسی۔یہ بحث ہزاروں سال سے چلتی آرہی ہے۔ زیادہ اتفاق اس پر ہے کہ ریاست ماں جیسی محبت اور شفقت بانٹے اور باپ جیسا تحفظ اور سہارا دے۔ ترقی یافتہ مہذب ممالک ہر پیدا ہونے والے بچے کو ریاست یا مملکت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ امریکہ ،کینیڈا اور دوسرے ایسے ملکوں میں بچے کی پرورش اور تربیت سے متعلق قوانین بہت سخت ہیں،اتنے سخت کہ ایشیا سے ان ملکوں میں منتقل ہونے والے تارکین وطن کے خاندان بعض اوقات کہہ اٹھتے ہیں کہ بچہ ہمارا ہے یا حکومت کا۔ صدیوں سے انسان تہذیب کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا،ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدے تک پہنچا ہے۔ اب دنیا میں 195 کے قریب ممالک ہیں،جہاں مختلف قسم کے آئینی قوانین،قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے۔
کینیڈا میں، وہاں کے طرز رہائش۔ خاندانی قوانین۔ بلدیاتی اداروں کے قواعد و ضوابط۔ بزرگ شہریوں کے لیے مراعات اور تحفظ کے مختلف طریقہ ہائے کار سے وابستگی رہتی ہے۔ہم وہاں خواتین کو اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے جتنا منظّم پاتے ہیں ،ہمارے ہاں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
سالہاسال کے غورو فکر، پارلیمانی مباحث۔ مفکرین اور مصلحین کی عرق ریزی کے بعد انہوں نے ایک سسٹم وضع کرلیا ہے،اس میں بھی مزید سہولتوں کے لیے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔میرے خیال میں کینیڈا جیسی شہری دوست ریاست کسی دوسرے خطّے میں نظر نہیں آتی ہے۔ اس لیے دنیا بھر سے بالخصوص ایشیا سے ہر سال سینکڑوں نئے خاندان ترکِ وطن کرکے پہنچتےاور وہاں کی بہت مہذب،سہولتوں اور تحفظ والی زندگی کا حصّہ بنتے رہتے ہیں۔ اسے حقیقی معنوں میں ایک ویلفیئر ریاست کہا جاسکتا ہے۔
میں یہ تمہید اس لیے باندھ رہا ہوں کہ ہمیں یہ اندازہ ہوسکے کہ ایک ریاست کی اصولی طور پر ذمہ داریاں کیا کیا ہیں۔ اور ادھر ہمارے خطّے کے ممالک میں ریاست ان ذمہ داریوں میں کتنی پیچھے رہ گئی ہے،حالانکہ ہمارے اس علاقے میں جسے وادیٔ سندھ کہتے ہیں۔ گلگت سے لے کر گوادر تک کے خطّے میں ایک اچھی اور محافظ مہذب ریاست کا وجود آٹھ ہزار سے پانچ ہزار سال پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ لیکن بیرونی حملہ آوروں نے بتدریج ہماری تہذیب اور ثقافت سے انسان دوست قواعد و ضوابط چھین لیےاور یہاں حکومت وقت کی طرف سے انسانوں پر مظالم اور تشدد کی پالیسیوں کو جنم دیا۔ حکمرانوں کو عوام سے بہت دور اور بالاتر رہنے کے تمدّن کو جلا دی۔
اب ہم پاکستانی بالخصوص جس ریاست کی حدود میں زندگی گزار رہے ہیں، یہاں ریاست اور حکومت 1947 سے بتدریج عوام سے حاصل سہولتیں واپس لیتی آرہی ہے۔ انگریز نے اور ان سے پہلے مغل بادشاہوں نے رعایا کے لیے جن آسانیوں کا اہتمام کیا ہوا تھا، وہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں کچھ عرصے تک رہیں۔ اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی رہیں، کبھی پرائیویٹائزیشن کے نام پر، کبھی کارپوریٹ سسٹم کے بہانے،کبھی پرائیویٹ سیکٹر کو طاقت ور بنانے کا دعویٰ کرکے عام شہری کو دی گئی سہولتیں واپس لی جاتی رہی ہیں۔
اب ہم ایسی ریاست میں تبدیل ہوچکے ہیں جو ملک کے اصل مالکوں اور صدیوں سے ان سرزمینوں پر رہنے والوں کو زمین پر بوجھ سمجھتی ہے۔ انسان کی بجائے رقبے کی سلامتی کی فکر میں رہتی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان ہو یا معیاری تعلیم۔ علاج معالجے کی سہولتیں اور شہریوں کے اندر نقل و حرکت کے لیے شہروں سے شہروں کے درمیان ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے ۔ جو بھی شہری قانونی طور پر ریاست کی حدود میں رہ رہا ہےاور جو بچہ یہاں پیدا ہورہا ہے اس کی زندگی کی ہر ضرورت ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ 70 اور کسی حد تک 80کی دہائی میں بھی ریاست شہریو ں کی پیدائش، پرورش، تعلیم وتربیت کے لیے فکر مند ہوتی تھی۔ 1970 کی دہائی میں تو قومیانے کے عمل کے ذریعے ریاست نے اپنی ذمہ داریوں کو واپس لیا۔ تعلیم و تربیت کا اہتمام۔،بھاری صنعتوں کا انتظام،بیمۂ زندگی کا انصرام ،مملکت پاکستان نے اپنا فرض قرار دیا۔ اس عمل کے ذریعے اساتذہ اور معالجین کا وقار بھی بحال ہوا۔ لیکن ٹرانسپورٹ کے معاملے میں ریاست زیادہ کامیاب نہ رہی۔ اس کے بعد آنے والے11 سالہ مارشل لاء میں شہریوں کے حقوق غصب کیے گئے۔ اشرافیہ،امراء کے طبقے۔
بیورو کریسی کی گرفت زیادہ مضبوط کی گئی۔ کارخانے سابق مالکان کو واپس کیے گئے۔ تعلیمی ادارے بھی سابقہ خاندانوں کی تحویل میں دے دیے گئے۔ ریاست نے اپنے فلاحی فریضوں سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب ریاست شہریوں کو اپنے تابع اور غلام رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے آئین اور قوانین میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ لیکن شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینے کی جو ذمہ داری آئین میں درج کی گئی ہے اس سے دست بردار ہوتی جارہی ہے۔
تاریخ پاکستان سے با خبر پاکستانی بجا طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ 80 کی دہائی سے جب سے فوجی حکومتوں اور امراء کی حکومتوں کا دَور شروع ہوا ہے تو شہری بتدریج ریاستی سہولتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ انہی ایّام میں بڑے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں، پرائیوٹ کالجوں،پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا قیام ملک بھرمیں عمل میں آیا اور انہی ادوار میں بہت گراں پرائیویٹ لگژری اسپتال تعمیر کیے گئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ریاست پاکستان کے بجٹ میں ان سہولتوں کے لیے مختص کی گئی رقوم اسی طرح رکھی جاتی ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ سے۔ عالمی بینک سے اور دوسرے اداروں سے مالی امداد اسی طرح حاصل کی جاتی ہے۔
ہمیں عبدالستار ایدھی کا من حیث القوم ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے پاکستان میں انسانی حالت زار دیکھ کر زخمیوں لاوارث لاشوں کو اٹھانے، انہیں غسل دینے، تدفین کرنے کا عزم کیا اور دنیا کی ایک بڑی فلاحی تنظیم قائم کی،حالانکہ یہ ذمہ داری ہر شہر کی بلدیہ کی تھی،یہی 70 اور80 کی دہائی ہے جب وفاقی اور صوبائی حکمرانوں نے بلدیاتی اداروں کو اپنی کرپشن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے ان کے انتخابات روک دیے۔
میونسپل کارپوریشنوں اورکمیٹیوں میں بیوروکریٹوں کو ایڈمنسٹریٹر بنانا شروع کردیا۔ بلدیات قبضہ مافیا اور اراضی مافیا کے لیے جنت بنتی گئیں۔ عوام کو ملنے والی فلاحی،تعلیمی،محفوظ خوراک،صفائی ستھرائی کی سہولتیں کم ہوتی گئیں۔ عبدالستار ایدھی کی درد مندی نے پاکستان کے دوسرے درد مندوں کو بھی احساس دلایا کہ اس ریاست کے شہریوں سے جو بنیادی سہولتیں چھینی جارہی ہیں ان کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔
70 کی دہائی کے اختتام اور 80 کی دہائی کی ابتدا سے چھوٹی بڑی فلاحی تنظیموں کے قیام کی روایت پختہ ہوتی چلی گئی۔ اسی اثنا میں غیر ملکی فلاحی تنظیموں نے بھی پاکستان میں اپنی شاخیں قائم کیں اور این جی اوز کا ایک بڑا نیٹ ورک ملک میں جڑ پکڑتا گیا۔ غیر ملکی این جی اوز پر تنقید بھی ہوئی الزامات بھی لگے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ان این جی اوز سے وابستہ عہدیداروں اور رضا کاروں کے اپنے دن پھر گئے۔
بہت سے مزدور لیڈر بڑی مہنگی گاڑیوں میں نظر آنے لگے ۔ رہائش گاہیں کچی بستیوں سے ڈیفنس میں منتقل ہوتی رہیں۔ لیکن ساری فلاحی تنظیمیں اس نوعیت کی نہیں تھیں۔ غربت کے خاتمے میں ان این جی اوز نے نمایاں امداد دی۔ شہروں میں ہی نہیں دیہی علاقوں تک بھی ان کی رسائی ہے۔ یہ شہریوں کو اپنے حقوق کا بھی احساس دلاتی ہیں اورذمہ داریوں کا بھی کہ، آزادی ذمہ داری کے ساتھ ہی نتیجہ خیزہے۔
میں 2022 کو فلاحی تنظیموں کا سال اس لیے قرار دیتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد میں موجود عطیات سے چلنے والی یہ تنظیمیں 2005 کے زلزلے کے بعد زیادہ متحرک اور فعال ہوتی رہی ہیں۔ زلزلے کے دنوں میں مجھ سمیت اکثر صحافیوں،کالم نویسوں کو ان تنظیموں کے رضاکارانہ دائرۂ کار کے مشاہدے کا موقع ملا۔ ویسے تو پاکستان کے عام شہریوں نے اپنے طور پر زلزلہ زدہ علاقوں میں بہت خدمات انجام دیں۔ لیکن جن شہریوں نے ان فلاحی تنظیموں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنے وقت کا اور مال کا عطیہ دیا وہ زیادہ نتیجہ خیز رہا۔
زلزلے میں ہزاروں گھر تباہ ہوئے۔ ایک لاکھ کے قریب ہم وطن جان کی بازی ہار گئے۔ اس ناگہانی آفت نے ان تنظیموں کو مزید منظّم اور متحرک ہونے کا موقع دیا۔ 2005 کے بعد 2010 میں سندھ کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی یہ تنظیمیں بہت متحرک رہیں۔ گوگل کے مطابق پاکستان مرکز برائے خیر خواہی Pakistan Centre for Philanthorop (PCP) نے ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ این جی اوز شمار کی ہیں۔ یعنی ہر 2000پاکستانیوں کے لیے کم از کم ایک این جی اوز۔ ایدھی فائونڈیشن پاکستانیوں کی سب سے زیادہ مدد کرتی اورسب سے زیادہ خیرات مستحقین میں بانٹتی ہے۔
دنیا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان میں مخیر افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہاں سب سے زیادہ عطیات دیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ فخر ہونا چاہئے کہ پانچ ارکان میں سے زکوٰۃ بھی اپنے مستحقین بھائیوں کی امداد بلکہ خود کفالت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ عطیات سے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بھی غریب خاندانوں کے بچوں بچیوں کو مدد مل رہی ہے۔ سارے بڑے پرائیویٹ اسپتال نادار مریضوں کے علاج کے لیے زکوٰۃ سے ہی سہولت نکالتے ہیں۔
مریض سے پہلے پوچھ لیا جاتا ہے کہ وہ زکوٰۃ کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے صوبوں میں صحت کارڈ کا اجراء بھی اسی ضمن میں کیا ۔ کووڈ 19 کی عالمگیر وبا میں بھی فلاحی تنظیموں نے بے مثال رفاہی خدمات انجام دیں،ان کے رضا کاروں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر مریضوں کو سہولتیں بہم پہنچائیں۔ مہنگے ٹیسٹوں میں تعاون کیا،ماسک فراہم کیے،مفت دوائوں کی تقسیم کی۔
اس کے بعد 2022 کے خوفناک سیلاب کا نازک مرحلہ آیاتو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بے حس رہیں۔ وڈیرے اپنے اپنے علاقے کو بچاتے رہے۔ انہوں نے اپنے ووٹرز کی زندگیوں کی فکر کی نہ ان کی رہائش اور پناہ کی۔ پاکستان کے کروڑوں عوام نے، بیرون ملک پاکستانیوں نے اپنے ہم وطنوں کو سڑک کنارے بے یارومددگار دیکھا۔ بچے، بزرگ عورتیں مائیں بہنیں کھلے آسمان تلے رات دن گزار رہے تھے۔ اس بے چارگی میں بھی یہ فلاحی تنظیمیں ہی تھیں جو اپنی اپنی بساط کے مطابق ملک بھر میں مصروف تھیں۔ ’الخدمت‘ پہلے سے ہی ملک گیر سطح پرکام کرتی ہے۔
اپنی سرگرمیوں سے عوام کو باخبر بھی رکھتی ہے۔ اخبارات۔ رسائل۔ چینلوں اور سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہے۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہلے بھی راشن،سردیوں میں غلاف تقسیم کرتی ہے۔ لکھتے لکھتے میں نے الخدمت کے میڈیا سربراہ شعیب ہاشمی سے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ 25سال سے قائم الخدمت فائونڈیشن سیلاب 2022 کے دوران اب تک 10 ارب روپے کی امداد تقسیم کرچکی ہے۔ اب تعمیر نَو اور بحالی کا مرحلہ 5ارب روپے کی خطیر رقم سے شروع کیا جارہا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں 62805رضاکار مصروف عمل ہیں۔ حالیہ سیلاب میں 24 جولائی سے اب تک باقاعدگی سے خدمات جاری ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان میں مئی کے مہینے سے امدادی کام شروع ہوگیا تھا۔ سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا جنوبی پنجاب میں ہوا،جہاں پہاڑی نالے جوش میں آجاتے ہیں۔
کینیڈا میں مقیم کراچی کے بعض دردمند امراء نے پاکستان میں تعلیمی انحطاط بالخصوص غریب آبادیوں میں مفت تعلیم کے لیے بڑے عطیات جمع کرکے پورے ملک کے غریب ترین علاقوں میں ایک جیسی عمارتیں تعمیر کرکے ان میں ایک ہزار سے زیادہ اسکول قائم کیے ہیں۔ یہاں بچوں بچیوں کو مفت تعلیم اور تربیت دی جارہی ہے۔ اساتذہ کی تربیت کے بھی کورسز کروائے جاتے ہیں۔ سٹیزنز فائونڈیشن کا ادارہ دنیا بھر میں قابل اعتبار تسلیم کیا جاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے 65758سیلاب زدہ خاندانوں میں 50 لاکھ کھانے کےڈبے تقسیم کیے۔ اس کے لیے بھی انہوں نے اپنے عطیہ دہندگان سے اپیل کی جنہوں نے دل کھول کر عطیات عنایت کیے۔
انڈس اسپتال کا دائرہ کار مفت علاج معالجے کے لیے جدید ترین طبی آلات کے ذریعے مدد کررہا ہے۔ یہ بھی بیرون ملک مقیم درد مند پاکستانیوں کے گرانقدر عطیات کے ذریعے کراچی میں بڑی تعداد میں مریضوں کا مفت علاج کررہا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں قائم سرکاری اسپتالوں کی دیکھ بھال عملے کی تربیت کا بھی اہتمام کررہا ہے۔ اس لیے اب اس کا نام انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک رکھا گیا ہے۔
حالیہ سیلاب کے دوران انہوں نے 1016 میڈیکل کیمپ قائم کیےاورقریباً دو لاکھ مریضوں کا علاج ہوا۔ سندھ میں 529 میڈیکل ریلیف کیمپ۔ پنجاب میں ۔ راجن پور یں 32۔بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 117 میڈیکل ریلیف کیمپ اور کے پی کے میں 37میڈیکل ریلیف کیمپوں میں خدمات انجام دی گئیں۔ان کے کیمپ عام بیماریوں کے علاوہ پانی سے متعلقہ بیماریوں کی خصوصی روک تھام کے لیے متحرک رہے۔ ملیریا کا خاص طور پر خیال رکھا گیا۔
ایدھی کے امدادی کام، جن میں پہلے پکے پکائے کھانوں کی تقسیم پھر کچے راشن ،سردیوں کے لیے کپڑوں کی تقسیم بھی سندھ میں بڑے پیمانے پر کی گئی۔ فیصل ایدھی ان کیمپوں میں خود موجود رہے۔
مسجد جامع صدیق اکبر بلاک 3 گلشن اقبال کے امام اورخطیب مولانا ہدایت اللہ نے جامعۃ الثقافتہ الاسلامیہ کے نام سے تنظیم قائم کی ہے جو کراچی میں خاص طور پر گلشن اقبال میں ایمبولینسوں کی مفت سروس فراہم کرتی ہے۔ کورونا کے دنوں میں آکسیجن کے سلنڈر بھی مفت ضرورتمندوں کو دیے گئے۔ حالیہ سیلاب 2022 میں ایک مہینہ مسلسل کھانا پکاکر کشتیوں اور گاڑیوں کے ذریعے سندھ کے علاقے جھڈو کے آس پاس فراہم کیا۔ متاثرین میں پینے کے صاف پانی کی بوتلیں بھی بانٹی گئیں۔ گھروں سے پانی کی نکاسی کے لیے موٹریں دیں۔ خشک راشن بھی بعد میں دیا۔ سردیوں کے پیش نظر کمبل بھی بانٹے گئے۔ مچھر مار اسپرے کیا گیا۔ سیلاب سے پہلے بھی یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ معذوروں کو وہیل چیئرز۔ بیساکھیاں۔ واکرز۔ نبو لائزر مشینوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔
مجھے جن تنظیموں کی تفصیلات میسر آسکیں۔ وہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ سیلاب 2022 میں جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں کامل طور پر انجام دینے میں ناکام رہیں تو ان ہزاروں چھوٹی بڑی فلاحی تنظیموں نے ہی متاثرین کو بے سہارا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔
ریاست ہماری بے حس رہی یا ناکام یا لا تعلق۔ لیکن ان فلاحی تنظیموں نے ریاست کی غیر فعالیت کا خلا بہت ایمانداری سے پُر کیا۔ ہماری استدعا تو یہ رہی ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں پاکستان کا درد رکھتی ہیں،اپنے ہم وطنوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانا چاہتی ہیں۔ ایسی عوام دوست با شعور تنظیموں کا اپنا ایک اشتراک یا کنسورشیم ہونا چاہئے۔ سال میں ایک مرتبہ ان کے سربراہ مل بیٹھیں۔
کام کا جائزہ لیا جائے کہ کتنے گھرانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے سے واپس لاسکے ہیں۔ کتنے بچوں بچیوں کو مفت تعلیم کے ذریعے میٹرک کرایا گیا۔ غربت کے اصل اسباب کیا ہیں۔ غریبوں کی خوشحالی میں رکاوٹ کونسے طبقے ہیں۔ ریاست بے حس ہے یا نا اہل۔
کوئی یونیورسٹی ان فلاحی تنظیموں کی خدمات پر تحقیق کرواکے حقیقی اعداد و شُمار سامنے لاسکتی ہے۔