ہم دل کا خوف ہوا میں اُڑاتے ہوئے پلیٹ فارم کی جانب چل دیئے۔ایک کھوکھے سے ہلکا ہلکا دھواں اُٹھ رہا تھا،تو ایک طرف لکڑی کی ایک میز پہ تین چار چولھے دھرے تھے، جن پر رکھے دیگچوں میں سفید چنوں کا سالن پک رہا تھا۔ گیس والے چولھے پر کڑاہی میں تیل گرم ہو رہا تھا، جس میں پوریاں تلی جارہی تھیں، جب کہ ایک چولھے پر چائے کھول رہی تھی۔چنوں، پوریوں اور چائے کی خُوش بو نے بھوک دو آتشہ، بلکہ سہ آتشہ کردی۔ ایک منحنی سے لالا جی دھڑا دھڑا پوریاں بنانے میں مصروف تھے۔
ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا لڑکا گتّے کی پلیٹس میں چنے اور پوریاں ڈال کے لوگوں کے سامنے رکھتا جا رہا تھا۔چنوں کی پلیٹ میں پیاز کا سلاد، آم، مرچوں کا اچار تھا۔ہم ٹہلتے ٹہلتے وہاں پہنچے اور لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی میز کے پاس کھڑے ہوگئے۔ لالا جی کے پاس کام کرنے والے لڑکے نے ایک کٹوری میں چنے، ایک میں رائتہ، سلاد اور پیاز کے اچار کا ملغوبہ سا ڈالا اور پلیٹ میں دو پوریاں رکھ کے ہمارے سامنے دھر دیں۔
گوکہ لالا جی کے کھوکھے کی صفائی سُتھرائی قابلِ رشک نہیں تھی،مگر ناشتا بے حد لذیذ تھا۔ہم نے چٹخارے لیتے ہوئے ناشتے کا صفایا کیا اور لڑکے سے چائے منگوائی۔ چائے میں دودھ کم، میٹھابے حد تیز اور پتی کڑک تھی۔گرچہ یہ تینوں چیزیں ہماری طبیعت کے برخلاف تھیں، مگر الائچی کی خُوش بُو سے اس کڑک چائے کا ذائقہ کچھ اچھا ہوگیا تھا۔ انبالہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے،جسے1400 قبلِ مسیح میں امبا راجپوتوں نے آباد کیاتھا۔
پنجاب کی سرحد کے قریب ہریانہ کا پہلا شہر، تاریخی گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع ہے۔جب کہ پنجاب اور ہریانہ کا مشترکہ دارالحکومت، چندی گڑھ یہاں سے صرف 37کلومیٹر دُور ہے۔1709میں سکھوں نے مغلوں کو شکست دے کر انبالہ کو اپنی سلطنت کا حصّہ بنایا، مگر بعدازاں جب انگریزوں کے سیلِ بیکراں نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیا، تو یہ بھی برٹش راج کے قبضے میں آگیا۔ غدر میں کئی لوگوں کو یہاں پھانسیاں دی گئیں۔ گاندھی کے قاتل، نتھورام گوڈسائی کو بھی اسی شہر میں نومبر1949 ء میں تختۂ دار پہ لٹکایا گیا۔
پاکستان کی ایوانِ بالا، سینیٹ کے ڈائریکٹر آف اسٹاف، مبین صاحب بھی ہمارے ہم سفر تھے۔ گھنی مونچھیں، موٹے شیشوں کی عینک کے پیچھے سے مُسکراتا چہرہ… انہوں نے بتایا کہ ’’مَیں اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کی غرض سے پہلے بھی دو بار بھارت آچُکا ہوں۔انبالہ شہر میں نقشبندیہ مجدّدیہ سلسلے کے مشہور صوفی بزرگ حضرت توکّل شاہ انبالوی کی درگاہ ہے۔دل میں بڑی خواہش ہے کہ وہاں حاضری کا کچھ سلسلہ ہو جائے۔‘‘ انبالہ شہر کے مسلمان جب یہاں سے ہجرت کر کے گئے تو ان کی بہت بڑی تعداد سرگودھا میں جا آباد ہوئی۔یہاں کا ’’انبالہ مسلم ہائی اسکول‘‘ مسلمانوں کا بہت مشہور اسکول تھا، جو تقسیمِ ہند کے بعد سرگودھا منتقل ہوگیا۔ آج بھی اُردو بازار، سرگودھا کے قریب انبالہ مسلم کالج اور انبالہ مسلم ہائی اسکول ایک پرانے گردوارے کی عمارت میں علم کی روشنی بکھیر رہے ہیں۔
ٹرین نے کُوچ کا بگل بجایا اور ہم بھاگم بھاگ ٹرین میں سوار ہوگئے۔ پولیس نے بوگی میں داخل ہوتے وقت وزارتِ مذہبی اُمور کی طرف سے جاری کردہ ہمارا وفد کی رکنیت کا کارڈ طلب کیا، جو ہم نے جھٹ دکھادیا، پھر ہمارے پیچھے ایک اور اجنبی بھی بوگی میں آن گھسا۔ پولیس نے جب اُس سے کارڈ طلب کیا، تو اس کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ سی پھیل گئی، جسے دیکھ کر ہمارے چہرے پر بھی سراسیمگی سی دوڑگئی کہ یہ اجنبی ہمارے گروپ کا حصّہ تو نہیں، پھر ہماری بوگی میں کیوں گُھسا چلا آرہا ہے۔
اُس شخص نے پہلے ہمیں ،پھر پولیس آفیسرز کو دیکھا، کچھ دیر تذبذب کے عالم میں کھڑا رہا اور پھر جیب سے ایک کارڈ نکال کر دکھایا، جسےدیکھ کر پولیس آفیسرزنے اسے اندر جانے دیا۔بعد میں پتا چلا کہ وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس، شاید پولیس اسپیشل برانچ یا سی آئی ڈی کا کوئی افسر تھا، جسے ہم لوگوں کی سیکیوریٹی پر مامور کیا گیا تھا۔ وہ بوگی میں داخل ہو کے ایک طرف کھڑا ہوگیا اور ہم اپنی نشست پر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئے۔ انبالہ کینٹ اسٹیشن کا پیلا بورڈ آہستہ آہستہ پیچھے جارہا تھا۔ہم نے اپنے دادا جی، غلام رسول کے لنگوٹیا یار سری رام مہتّا کے خاندان سے ملنے کی حسرت دل میں لیے انبالہ شہر کوالوداع کہا اور آنکھیں موند کر رات کے سفر کی یادیں تازہ کیں۔
ٹرین اب دن کی روشنی میں رواں دواں تھی۔ دُور تک پھیلے کھیت، کہیں مکئی، تو کہیں گنّے کی فصلیں سر اُٹھائے ریل گاڑی کو تک رہی تھیں۔ باقی جگہوں پہ امرتسر کے نواحی علاقے کی طرح گندم کے ٹنڈمنڈ تنے ہل چلانے کے منتظر کھڑے تھے۔ کہیں کہیں کھیت ہل چلا کے اگلی فصل کی بوائی کے لیے تیار کر دئیے گئے تھے۔ بجلی کی موٹروں پہ چلتے ٹیوب ویل بھی کئی جگہوں پہ نظر آئے۔کچھ جگہوں پہ لوگ علی الصباح ہی چاول کی فصل کی بوائی میں مصروف نظر آئے۔ چاول کی فصل کے لیے کدو کیے ہوئے کھیت، تالاب کا سا منظر پیش کر رہے تھے،جن میں سفید رنگ کے بگلے اُترتے اور اڑانیں بھرتے نظر آئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یمنا نگر اسٹیشن گزرا، پھر ہریانہ کی حدود ختم ہوگئی اور بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست، اُتّر پردیش کی حدودشروع ہوگئی۔’’صاحب کچھ چاہیے تو نہیں؟‘‘ ہم نے کھڑکی سے گردن موڑی توسانولے سے رنگ کا دھان پان سا ایک لڑکاچہرے پہ مسکراہٹ سجائے سامنے کھڑا تھا۔ نیلی شرٹ، کالی پتلون پہ مشتمل وردی اس پہ بھلی لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں رَت جگے کی لال پرچھائیاں تھیں۔ ’’نہیں بیٹا! کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ہم نے جواب دیا اور دوبارہ نظارے دیکھنےمیں مصروف ہوگئے۔ رات ہوئی تو کچھ دیر کے لیے ہم برتھ پہ جا لیٹے، مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دُور رہی،پھر کچھ دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد نیچے اُترے اور کھڑکی کی طرف جابیٹھے۔
برتھ خالی دیکھ کے وکرم (اسٹاف لڑکا) میرے پاس آیا اور اجازت طلب نظروں سے پوچھا کہ ’’مَیں ساری رات،دن کا تھکا ہوا ہوں، اگر آپ اجازت دیں، تو کچھ دیر برتھ پر کمر سیدھی کر لوں۔‘‘ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی، تو وہ برتھ سوگیا۔ وکرم کا تعلق امرتسر اور بٹالہ کے درمیان واقع کسی گاؤں سے تھا۔وہ ریلوے کے الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ میں الیکٹریشن کے طور پر کام کرتا تھا۔ ہماری ٹرین میں ائیر کنڈیشننگ کا نظام چلانے اور درست رکھنے کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔نوکری کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا تھا۔ دن کے وقت کالج جاتا اور رات کو ریلوے میں نوکری کرتا تھا۔
زندگی کی گاڑی کو بڑی مشقّت سے کھینچ رہا تھا اور اس مشقّت کے آثار اس کے چہرے سے ہویدا تھے۔ جب ہم نے اُس سے پانی کی بوتل منگوائی اور بقیہ پندرہ روپے بطور بخشش رکھنے کا کہاتو اس کے چہرے پہ شکر گزاری کا ایسا تاثر تھا، جیسے کسی نے اسے ہفتِ اقلیم کی شہنشاہی بخش دی ہو۔ لدھیانہ سے تھوڑا پہلے دریائے ستلج گزرا۔وہی ستلج، جو قصور، سلیمانکی اور بہاول نگر کے پاس سے بھی گزرتا ہے، مگر یہاں اس میں دھول اڑتی ہے۔ یمنا نگر کے قریب سے دریائے جمنا گزرتا ہے۔ جمنا ،ہریانہ میں ہے اور ستلج پنجاب میں، تو پچھلی کئی دہائیوں سے پنجاب اور ہریانہ کےعوام ستلج، جمنا لنک کینال کے معاملے پر گتھم گتھا ہیں۔
ہریانہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ ستلج، جمنا لنک نہر بن جائے، تاکہ انہیں اضافی پانی مل سکے، جب کہ پنجاب کے عوام آستینیں چڑھا کہ سامنے آجاتے ہیں کہ ’’اگر کسی نے ہماری دھرتی پہ بہتے دریائے ستلج کا پانی چھیننے کی کوشش کی تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘پچھلی پچاس دہائیوں میں جب سے 1966ء میں ہریانہ کو پنجاب سے الگ صوبہ بنایا گیا، تو یہ معاملہ جھگڑےکا سبب بنا ہوا ہے۔ جب کہ کیس ہندوستان کی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ہریانہ کا آخری شہر، یمنا نگر کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اتر پردیش کے زرخیز میدانوں میں گاڑی دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ ہرے بَھرے کھیت گاڑی کی کھڑکی سے سلامی دیتے کہیں پیچھے کی طرف انتہائی عجلت میں بھاگے چلے جا رہے تھے۔ کسی کسی جگہ پہ آموں کے باغات کے جھنڈ نظر آتے، تو یوں محسوس ہوتا، جیسے ہم کراچی سے واپس لاہور کی طرف رواں دواں ہیں اور لاہور کی ٹرین کہیں ملتان کے آس پاس سے گزر رہی ہے۔ پٹری کے دائیں ہاتھ بڑی بڑی کرینیں، مشینیں، ٹریکٹر اور ٹرالیاں مسلسل مٹی ڈال رہی تھیں۔ وہ والی مٹی نہیں،جو ہم لوگ ہر قسم کے مسئلے پہ ڈال کے بری الذمّہ ہوجاتے ہیں، بلکہ وہاں بڑے بڑے کنکریٹ کے پُل تعمیر کیے جانے کی تیاری چل رہی تھی، بجلی کے بڑے بڑے کھمبے اس مٹی کے ٹریک کے ساتھ کھڑے کیے جا رہے تھے۔ہم نے قیاس کیا کہ یہ ضرور ٹرین کا نیا ٹریک بن رہا ہے۔
وکرم نظر آیا تو استفسار کیا کہ’’ بھیا! یہ داہنے ہاتھ ٹرین کی پٹری کے ساتھ کیا کام چل رہا ہے؟‘‘ اس نے مُسکراتے ہوئے باہر دیکھا اور کہا’’یہ انبالہ تا دہلی براستہ اُتر پردیش جو ٹرین کا ٹریک ہے، اسے اَپ گریڈکر رہے ہیں تاکہ آنے جانے والی گاڑیاں بلا تعطّل چلتی رہیں۔‘‘وکرم کی بات سُن کر ہمارے دماغ میں اپنا کراچی تا لاہور ڈبل ٹریک منصوبہ گھوم گیا، جو جانے کب سے التوا کا شکار ہے۔ پچھلی پون صدی میں بھارت کے ریلوے نظام نے بہت ترقّی کرلی ہے۔ ہر طرف بجلی پہ چلنے والے انجن بلاآواز دوڑتے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ عوام کو دور دراز کا سفر آرام دہ اور کم خرچ، بالا نشین ریل گاڑیوں پہ دست یاب ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں، تو وقت کے ساتھ ریل کا نظام بدسے بدتر ہی ہوتا جارہا ہے۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوگیا، جب ہم خوشاب جوہر آباد میں تعیّنات تھے، تو کالاباغ کے قریب سے ماڑی کے علاقے سے ماڑی انڈس ایکسپریس چلتی تھی۔ ماڑی سے کچھ فاصلے پہ داؤد خیل کا جنکشن تھا، جی وہی داؤد خیل، جس کے قریب سیمنٹ کی فیکٹری میں کام کرتے ہوئے عبداللہ حُسین نے اپنا شاہ کار ناول، ’’اداس نسلیں‘‘ تخلیق کیا تھا، تو ماڑی انڈس ایکسپریس ماڑی سے چل کرداؤد خیل آتی ،وہاں سے میاں والی، پھر خوشاب، جوہرآباد، سرگودھا، فیصل آباد، شیخوپورہ سے ہوتی ہوئی لاہور پہنچتی۔
تقریباً آدھے پنجاب کے لوگ اس سے مستفید ہوتے، توسردیوں کی ایک دھند آلود رات ہم نے جوہرآباد سے لاہور تک ماڑی انڈس ایکسپریس میں سفر کیا،تو پورا راستہ اس ٹرین میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ غریب لوگوں کے لیے ماڑی انڈس ایکسپریس ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ پھر وہ ٹرین بھی میاں والی ٹرانسپورٹر مافیا کے ہتھے چڑھ گئی۔ اب ٹریک پہ الّو بولتے ہیں اور بسوں والے مَن چاہے کرایوں سے عوام کو لُوٹتے ہیں۔ ایک مرتبہ تاریخی قصبے میانی جانے کا اتفاق ہوا، تو اسٹیشن بدستور قائم، البتہ ٹرین کی پٹری کسی سامری جادوگر کی جادوگری سے غائب ہوچُکی تھی۔
اُتر پردیش کے پہلے بڑے اسٹیشن سہارن پور پہ گاڑی نے سستانے کے لیے پڑاؤ ڈالا۔چوں کہ انبالہ اسٹیشن پہ آزادی کا مزہ چکھ لیا تھا، تو ہم لوگ سہارن پور جنکشن پر بھی اُتر گئے۔ ویسے تو سہارن پور کے میٹھے اور لذیذ آم ہمارے ہاں مشہور ہیں، مگر یہاں تو سہارنی آموں کا دُور تک نام ونشان نہیں تھا۔ سلطان شمس الدّین التمش کے دَور میں یہ علاقہ سلطنتِ دہلی کے زیرِ تسلّط آیا، اُس زمانے میں یہ گَھنے جنگلوں اور دلدلوں کا علاقہ تھا۔ اس علاقے کو دوآبہ بھی کہتے ہیں، بعد میں غیاث الدّین تغلق کے بیٹے محمّد شاہ تغلق نے یہاں کے مقامی شوالک راجاؤں کی بغاوت کچلنے کے لیے اس علاقے کا رُخ کیا۔
نیز، یہاں ایک صوفی بزرگ، شاہ ہارون چشتی کا دریا کنارے بسیرا تھا، تو محمّد شاہ تغلق کو شاہ ہارون چشتی سے عقیدت ہو گئی اور اس نے اس علاقے کو ’’شاہ ہارون پور‘‘ کا نام دے دیا، جو بعد میں امتداد زمانہ سے ’’سہارن پور‘‘ ہوگیا۔شاہ ہارون چشتی کی درگاہ آج بھی سہارن پور میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند بھی اسی ضلع میں واقع ہے، جو دیوبند مکتبۂ فکر کے لیے مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’شیخ الہند محمود الحسن میڈیکل کالج‘‘ سہارن پور کی اہم تعلیمی درس گاہ ہے۔ یاد رہے، شیخ الہند، ہندوستان کی آزادی کے لیے برپا ہونے والی ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ کے روحِ رواں اور دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالبِ علم بھی تھے۔
سہارن پور کے بعد دیوبند کا چھوٹا سا شہر آیا، پھر دیوبند اسٹیشن پر بھی ٹرین نے تھوڑا سا توقّف کیا۔غدر کے بعد،مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی نے علومِ اسلامی کی ترویج و ترقّی کے لیے دیوبند کے مقام پر1866 عیسوی میں ’’دارالعلوم اسلامیہ، دیوبند‘‘ قائم کیا۔ یہ علما شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کے افکارو نظریات سے متاثر تھے۔ دارالعلوم دیوبند نے درسِ نظامی کی تدریس کا آغاز کیا، جس کی نگرانی علمائے فرنگی محل لکھنؤ نے سنبھالی۔
مدرسہ دیوبند سے فارغ التّحصیل علما ہی نے جمعیت علمائے ہند کی داغ بیل ڈالی۔ جمعیت علمائے ہند نے ڈَٹ کے مسلم لیگ اور دو قومی نظریے کی مخالفت کی تھی اور مولانا حُسین احمد مدنی کی قیادت میں کانگریس کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا وزن متحدہ ہندوستان کے پلڑے میں ڈالاتھا، جب کہ سہارن پور اور دیوبند اس تحریک کا منبع تھے کہ یہاں کے سرکردہ علما ءہی جمعیت کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ (جاری ہے)