• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وجیہہ شخصیت، درمیانہ قد،گٹھا ہوا بدن، سفیدی مائل گندمی رنگ، شگفتہ مسکراتا کتابی چہرہ،زندگی سے بھرپور آنکھیں، آنکھوں تک پھیلی مسکراہٹ، کلین شیو، اونچی لمبی ناک، پرکشش بڑی بڑی آنکھیں ان پر خوبصورت فریم کا چشمہ چہرےکو جاذبیت عطا کرنے والا، تابندہ کشادہ پیشانی، گوشت پوست کے جس متحرک انسانی ڈھانچے کے یہ نقش ونگار تھے، اس کانام تھا منوبھائی۔

منو بھائی سے مجھے ملنے،ان سے باتیں کرنے، ان کے ہمراہ سفرکرنے،ان کا کلام سننے، ان سے بحث ومباحثہ کرنے کا بارہاموقع ملا لیکن میں پھر بھی انہیں چند سرسری ملاقاتوں سے تعبیر کرتا ہوں جب اچانک ان کے مرنے کی خبر مجھ تک پہنچی تو دل میں خواہ مخواہ یہ خیال آیاکہ یہ ملاقاتیں تھوڑی ہیں کچھ اور زیادہ ہوتیں تو کیا ہی اچھا ہوتا پھر اس خیال کی تصدیق اور تائید ان کے پنجابی کلام اور اس پر تحریروں اور کالموں سے ہوئی اور اس یاد پر طرح طرح کے رسمی اور غیر رسمی اظہار سے ہوئی جواس دیوتانے اپنے دوستوں کے لیے چھوڑی اور جس کو متاعِ عزیز سمجھ کر اس کے دوست احباب اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں۔زندگی میں کتنے موقع آتے ہیں جن کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ موجود نہ رہیں۔ جس جس دوست نے تم پر کالم لکھا،تمہارا ذکر کیا خلوص اس کے چہرے پر ابھر آیا۔ تم ہوتے تواپنی مخصوص پر کشش مسکراہٹ بکھیر کران سب کا شکریہ ادا کردیتے کہ وضع داری ،حسنِ سلوک،اخلاق ،محبت اور رفاقت جوتمہیں برتنا آتی تھی وہ کسی اور کا خاصہ نہیں۔منوبھائی کے میں بہت قریب رہا ، وہ ان عظیم لوگوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کم نصیب ہیں وہ لوگ جوان سے نہیں ملے اور ان کی صحبت سے محروم رہے اور ان سے زیادہ کم نصیب وہ لوگ ہیں جو ان سے ملے اور اس لطف صحبت سے محرومی پر ہمیشہ غم زدہ رہیں گے۔

یہ1960ءکی دہائی کا آخری زمانہ تھا اور یہی وہ سال تھا جب میں پہلی بار منوبھائی سے ملا۔ اس کے بعد ہماری ملاقاتیں بڑھتی گئیں ہماری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔کوئی انسان صرف اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ انسان ہونے کی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں سےٹکرائے کہیں مارے کہیں مار کھائے، کبھی وہ ہمیں انقلابی دکھائی دے کبھی سماجی طرز پر ایک مصلح اور کبھی صرف جیتا جاگتا عام گوشت پوست کا انسان اور جو لوگ زندگی کو سمجھتے ہیں وہ تمام خود غرضیوںسے اٹھ کر انسان کا غالب رنگ دیکھتے ہیں اوریہی تھا میرا دوست وہمدم منوبھائی… وہ ایک بہت بڑا اسٹائلش لکھاری تھا جو بات اچھی بھی ہوتی ہے اور بُری بھی، قلم کی اس قدر روانی دو وجہ سے ہوتی ہے ایک تو یہ کہ کسی کو اندرونی طور پر یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اسے تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ کہنا ہے دوسرے اسلئے کہ اچھے اور برے تجربات کی وجہ سے فنکار کے دل میں ایک عجیب طرح کی گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے جسے وہ اپنے فن کی مدد سے جلد سے جلد جھٹک دینا چاہتا ہے۔ منوبھائی میں مظلوموں اور غریبوں کے تئیں جذبات کی شدت تھی اور آ پ جانتے ہیں جب روح میں خیالات اس درجہ متلاطم ہوں تو لکھاری کیا سے کیا کچھ نہیں بن جاتا۔منوبھائی ہر محفل میں شمع محفل کی صورت آتارہا اور اس کے جانے کے بعد ہر محفل میں ایک شمع کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔

بیتے ہوئے ماہ وسال کی لوح پر منوبھائی اور میری انگنت ملاقاتوں کے انمٹ نشانات ثبت ہیں۔ جہاں کہیں انسانیت یا انسان کا قتل ہوتا تھا اس انسان دوست کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور ان آنسوئوں کو پینے کا منو بھائی کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ ان آنسوئوں سے ایک کالم لکھ دے جن میں ظالموں سے نفرت اور مظلوموں سے نفرت کا اظہار ہو، یہ تھا ایک سچا انسان جس کا نام تھا منوبھائی۔

منوبھائی اکثر کہتا تھا کہ نیک عمل ہمیں بوجھ سا محسوس ہونے لگا ہے لیکن وہ جو کچھ لکھتا تھا اس پر ایمان بھی رکھتا تھا وہ انسانیت کے خوش آئند مستقبل پر پختہ ایمان رکھتا تھا اس نے زندگی میں جو بھی ناکامی دیکھی اس کو بھی اپنا موضوع بنایا لیکن یہ ناکامیاں 7مرلے کے مکان میں رہنے والے ایک دیانت دار انسان کا مقدر تھیں، ایک بددیانت معاشرے میں؎

میری قیمت زمین وآسماں ہے

بہت انمول ہوں پھر بھی بکاہوں

ہماری پرانی عادت ہے بلکہ روایت ہے کہ ؎

ہم تسلی دلِ مضطر کو دیا کرتے ہیں

یعنی یہ جبر بھی ہم اس پہ کیا کرتے ہیں

فیض صاحب گئے ، فراز گیا، جالب ، حمید اختر، عبداللہ ملک، داغ ِجدائی دیتے چلے گئے اور ہم دل کو سمجھاتے رہے کہ وہ تو زندہ ہیں؎

کچھ اس انداز سے چھیڑاانہوں نے نغمہ رنگیں

کہ فرط ِشوق سے جھومے گی شاخ آشیاں برسوں

شاخ آشیاں تو جھومتی ہی رہتی ہے کون گیا اور کون آیا اس سے اس کے جھومنے کے معلول اور سکون کے وقفے میں کوئی فرق نہ آیا ۔ لیکن جب میں منوبھائی کی زندگی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ منوبھائی نے جب زندگی کو ترک کیا وہ نہایت زندہ تھا۔ اس قدر زندہ تھا کہ؎

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

منو بھائی واقعی ایسا شخص تھا جس سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے۔

منوبھائی کا غم میرا آپ کا اور ہم سب کا غم ہے۔اس کی محبتیں، عنایتیں اور چاہتیں ہیں کہ میرے آگے پیچھے پھررہی ہیں ،اس کی یادوں نے چارجانب سے دل کو گھیر لیا ہے آئیے دوچار لمحوں کیلئے منوبھائی کی محفل میں شریک ہولیں……؎

کرے گا سجدہ کہاں آسمان ذوقِ ادب

کہ بارگاہ صحافت کا آستاں نہ رہا

تازہ ترین