وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ/ چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) شازیہ مری نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام مستحقین کیلئے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رقم وصول کرنے کا نیا طریقہ کار متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
ابتدائی طور پر اس طریقہ کار کو بطور پائلٹ پروجیکٹ کچھ اضلاع میں متعارف کرایا جائے گا جسے بتدریج پورے ملک تک بڑھا دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر شازیہ مری آج کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
اس موقع پر ان کے ساتھ سیکرٹری بی آئی ایس پی یوسف خان، این ایس ای آر اور کیش ٹرانسفر کے ڈی جی نوید اکبر اور نور رحمان خان بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی نے اپنے آغاز سے مستحقین تک رقوم کی ترسیل کیلئے مختلف طریقہ کار جیسے کہ پاکستان پوسٹ کے ذریعے منی آرڈر، اسمارٹ ڈیبٹ کارڈ، موبائل فون بینکنگ اور بائیو میٹرک تصدیقی نظام (BVS) کا استعمال کیا۔ موجودہ رقوم کی ادائیگی کے طریقہ کار میں مستحق خواتین کو درپیش مسائل اور پاز ایجنٹس کی طرف سے کٹوتیوں کی شکایات کے پیش نظر بینکنگ نظام کو متعارف کرایا جارہا ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ ادائیگی کے نظام کو فائدہ مند بنانے کے لیے، بی آئی ایس پی نے اسٹیٹ بینک اور دیگر کمرشل بینکوں کے ساتھ سلسلہ وار میٹنگز کیں اور گزشتہ 3-4 ماہ کی مشقوں کے نتیجے میں، بی آئی ایس پی اب یہ پائلٹ پروجیکٹ شروع کر رہا ہے۔
اس نظام کے تحت خواتین کو بااختیار بنایا جائے گا۔ مزید یہ خواتین اپنے فنڈز بغیر قطاروں میں کھڑے ہوئے اور باوقار طریقے سے وصول کرسکیں گی اور ساتھ ہی اس سے شفافیت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔
چیئرپرسن نے مزید بتایا کہ بی آئی ایس پی مستحق گھرانوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت کا حقیقی بنیادوں پر جائزہ لینے کے لیے جلد ہی ڈائنامک رجسٹری سروے شروع کر رہا ہے۔ یہ سروے متحرک ہوگا اور اگر گھرانے کی سماجی معاشی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اسے حقیقی بنیادوں پر ریکارڈ میں شامل کر لیا جائے گا۔ اس حوالے سے پورے ملک میں ڈائنامک رجسٹری ڈیسک قائم کیے جاچکے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ نظام میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے پی اے سی کا طریقہ کار ضروری اور اہم ہے اور اس تاثر کو زائل کیا کہ بی آئی ایس پی نے کسی بھی سرکاری ملازم کو کسی فراڈ یا غیر قانونی عمل سے فائدہ پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے کسی تحقیق اور اپیل کاحق دیے بغیر 820,000 افراد کو اپنی بینفشری لسٹ سے نکال دیا تھا۔
شازیہ مری نے انکشاف کیا کہ ماضی میں ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی کہ سرکاری ملازمین کو بی آئی ایس پی سے گرانٹ حاصل کرنے سے روکا جائے، خاص طور پر اگر وہ کم تنخواہ والے سرکاری ملازمین ہوں۔ بی آئی ایس پی میں فلٹر پالیسی نہ ہونے کہ وجہ سے 140,000 سرکاری ملازمین جن میں گریڈ 1 سے 5 تک کے 60 فیصدملازمین بھی شامل تھے جن کی اوسط تنخواہ تقریباً 13000 روپے تھی، فائڈہ اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستحقین کی فہرست سے نکالے گئے گھرانوں کو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
شازیہ مری نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بی آئی ایس پی میں تعلیمی وظائف پروگرام کے تحت 8.1 ملین بچوں کا اندراج کیا گیا ہے اور 364,000 حاملہ خواتین اور ان کے 2 سال سے کم عمر کے بچے بی آئی ایس پی کے نشوونما پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی نے اپنے مختلف اقدامات کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کیا ہے۔
شازیہ مری نے مزید کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران بی آئی ایس پی نے ملک بھر میں اپنے منفرد ڈیٹا بیس کے ذریعے 2.8 ملین سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں 70 ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔
انہوں نے آزمائش کی اس گھڑی میں لوگوں کی مدد جاری رکھنے پر وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور عالمی برادری کا شکریہ ادا کیا۔