• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر کامیاب شخصیت یا ادارے کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار اُس کے خود احتسابی (Self Accountability) کے عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا تفصیلی جائزہ پیش خدمت ہے۔تحریکِ انصاف اور بالخصوص عمران خان کی عوامی مقبولیت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی سندھ کےبلدیاتی انتخابات میں کم از کم کراچی کی حد تک کلین سویپ کرے گی لیکن اِن مایوس کن نتائج کی وجہ جہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کا اس وقت عمران خان کے خلاف ہونا ہے وہیں تحریکِ انصاف کی جانب سے کُچھ سنگین غلطیاں بھی ہوئی ہیں کیونکہ باوجود اُن عوامل کے جو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال ہوئے، پی ٹی آئی نے ابھی حال ہی میں پنجاب کے ضمنی انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔اس صورتِ حال میں آخر وہ کیا وجہ ہے کہ وہ کراچی جہاں پی ٹی آئی باقی تمام جماعتوں کی مجموعی مقبولیت سے زیادہ عوام میں اثر و رسوخ رکھتی ہے وہاں لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف پر اُس طرح بھرپور اعتماد نہیں کیا؟ ہمیں کراچی کی لوکل سیاست، وہاں کے مسائل اور حرکیات کو سمجھنا پڑے گا۔ کراچی کی لوکل سیاست باقی مُلک کی عمومی سیاست سے مختلف ہے اور مُلک کی سیاست کا کراچی پر اُس طرح گہرا اثر نہیں پڑتا۔یہ سچ ہے کہ 9اپریل کو عمران خان کو نکالے جانے کے بعد باقی ملک کی طرح اُس پر کراچی میں بھی شدید غم و غصّہ پایاگیا۔ 10 اپریل کو ایک مال کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نےاحتجاج کیاجب کہ کراچی میں عمران خان کا ہر جلسہ ریکارڈ توڑ رہا۔کراچی میں اگر مقامی سیاست کی بات کی جائے تو کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جسے ہمیشہ ہر دور میں نظر انداز کیا گیا، ملک کے لئے سونے کی چڑیا ہونے کے باجود مسائل کا انبار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حقیقت ہے کہ کراچی کے لوگوں میں احساسِ محرومی بہت گہرا ہو چکا ہے اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کو صرف اُن کے پیسے سے مطلب ہے اُن کے مسائل سے نہیں،انہی وجوہات کی وجہ سے کراچی کے لوگ ہمیشہ اُن سیاستدانوں اور پارٹیوں کو پسند کرتے ہیں جو مُلک کی عمومی سیاست پر بات کرنے کی بجائے کراچی کے مسائل پر بات کریں اور پھر بلدیاتی انتخابات کا تو انعقاد ہی گلی محلے کے مسائل حل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔تحریکِ انصاف سے جو بنیادی غلطی ہوئی وہ یہی تھی کہ کراچی کی لیڈرشپ کی توجہ ایک تو ملکی سطح کی سیاست پرتھی اور دوسرا اُنہوں نے کراچی کے گلی محلے کی سطح پر اُس طرح خاطر خواہ کام نہیں کیا جس طرح پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی نے کیا اور دوسری غلطی تحریک انصاف کی یہ تھی کہ کراچی کی تقریباً تمام لیڈرشپ ڈیفنس میں رہائش پذیر ہے جب کہ دوسری طرف جماعت اسلامی اُن کے مقابلے میں برسوں سے حافظ نعیم کو کراچی کی سیاست میں اِن کیے ہوئے ہیںجو عام علاقے میں رہنے والے، کراچی کے مسائل کو سمجھنے والے اور صرف کراچی کے مسائل پر بولنے والے ہیں ۔ایک طرح سے جماعت نے حافظ نعیم کو کراچی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ حافظ نعیم نے ہر موقع پر کراچی کے لیے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ بے پناہ محنت کی جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت مختلف شخصیات میں تقسیم رہی، پی ٹی آئی نے اتنی زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود کراچی کے لیے کوئی کام نہیں کیا جب کہ1100ارب روپے دینے کاعمران خان کااعلان بھی صرف اعلان ہی رہا۔ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی سے ہوتے ہوئے بھی کراچی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔حتیٰ کہ پورے 4سال میںبمشکل3سے4دفعہ آئے ،وہ بھی صرف جمعہ کی نما زپڑھنے یا اپنے دوستوں سے ملنے۔ تمام خرابی کی جڑ یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے کراچی میںکوئی کام نہیں کیا حالانکہ ان کے پاس پورا موقع تھا ۔ ان کو بنانے میں بنیادی کردار کراچی نے ادا کیا تھا ۔انہوں نے دوسری جماعتوں کی طرح مسلم لیگ (ن)اور ماضی کی جماعتوں سے سبق حاصل نہیں کیا اور کراچی پر کوئی توجہ نہیں دی ۔اس کے بر عکس جماعت اسلامی نےشروع میں ہی حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کو کراچی کے میئر کے لیے نامزد کر دیا ، انہوں نے 4سال مسلسل کراچی کے مسائل پر توجہ دی، پیپلز پارٹی سے بھی کراچی کے حقوق کے لیے لڑے۔ اس لیے پیپلز پارٹی دھاندلی کے باوجود جماعت اسلامی کو شکست نہ دے سکی جب کہ پی ٹی آئی سرے ہی سے میدان میں بہت پیچھے رہی، عمران خان نے اپنے امیج کو بری طرح خراب کیا ہے ۔گورنر اورصدر پی ٹی آئی سے ہونے کے باوجود انہوں نے کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا تو کیسے عوام ان کو ووٹ دیتے ؟ پیپلز پارٹی کی جیت سمجھ میں آتی ہے کہ اُن کی صوبائی حکومت کی بدولت اُن کو پوری صوبائی مشینری کی مدد حاصل تھی اور پیپلز پارٹی نے اس الیکشن میں بہت بڑی دھاندلی بھی کی۔اس کے علاوہ بھی تحریک انصاف کے پاس یہ آپشن تھا کہ جماعت اسلامی سے صرف کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے لیے اتحاد کرکے کم از کم پیپلز پارٹی کو کافی حد تک روک سکتی تھی ،دونوں پارٹیوں کا اتحاد آسانی سے اپنا میئر اور ڈپٹی مئیر لا سکتا تھا جو کہ موجودہ صورتحال میں اب نا ممکن لگ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی بلدیاتی انتخابات میں ناکامی آنے والے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو متاثر کرے گی۔ وہ مستقبل میں کراچی میں کامیابی کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیاست سے زیادہ بلدیاتی انتخابات پر فوکس کریں ورنہ کراچی ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین