• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم نے پچھلے کالم میں یہ ذکرکیا تھا کہ لاہور سے ایک خاتون پائلٹ ڈاک لے کر کراچی بھی جایا کرتی تھی، یہ خاتون برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھی، اس وقت اس سرزمین کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، صرف برصغیر تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت والے اس خاتون کو پہلی بھارتی خاتون پائلٹ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ پہلی بھارتی خاتون پائلٹ تووہ ہو گی جس نے برصغیر کی آزادی کے بعد اس پروفیشن کو اپنایا ہو گا، خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں، یہ اعزاز بھی لاہور اور لاہور کے تاریخی ایئرپورٹ والٹن کو حاصل ہے، وہ والٹن ایئر پورٹ جس کا اب نام ونشان بھی مٹ چکا ہے جہاں1947 میں مہاجرین نے آکر کیمپ لگائے، یہیں گلاب دیوی اور میو اسپتال کے ڈاکٹروں نے زخمیوں اور بیماروں کا علاج کیا تھا، قائداعظم گلاب دیوی اسپتال بھی تشریف لاچکے ہیں ۔ وہ تاریخی ہوائی اڈہ جس نے برصغیر میں ہوا بازی کی بنیاد رکھی ،وہ ہوائی اڈہ جہاں قائداعظم بعض حوالوں کے مطابق گیارہ مرتبہ آئے اور انہوں نے پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ اس ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تھا اور مہاجرین سے خطاب کیا تھا، ہم نے اس تاریخی ایئرپورٹ پر 1947ء کے درخت بھی دیکھے ہیں اور اس کے رن وے پر اس ایئرپورٹ کے آخری جنرل منیجر سلیمان ملک کو اپنی موٹر کار میں بٹھا کر 170کلومیٹرکی رفتار سے صرف چند ماہ پہلے موٹر کار بھی چلائی تھی ،اس ایئرپورٹ کے نزدیک کبھی قائداعظم کا سرکاری گھر تھا جو 2007ء تک رہا پھر اس کو بھی گرا دیا گیا۔قائداعظم کا ایک ذاتی گھر لاہور کینٹ میں بھی ہے جس کو جناح ہائوس کہتے ہیںجو ہر آنے والے کورکمانڈر کی سرکاری رہائش گاہ ہوتی ہے، والٹن ایئرپورٹ کا اب کوئی نام ونشان نہیں رہا، وہاں موجود ہزاروں درخت کاٹے جاچکے ہیں، آج کل وہاں بہت بڑا کاروباری حب بنایا جا رہا ہے۔یہ لاہور جو کبھی بہت سرسبز اور ہرا بھرا ہوا کرتاتھا، اب بہت تیزی سے لوہے، سریے، شیشے اور پکی اینٹوں کا ایک بدصورت شہر بنتا جا رہا ہے، یہاں سے بہت تیزی کے ساتھ زرعی رقبہ اور درخت ختم کئے جا رہے ہیں،مختلف ہائوسنگ سوسائٹیاں زرعی رقبے پربنی ہوئی ہیں۔ لاہور کے تاریخی والٹن ایئرپورٹ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ ہماری تاریخ کا ہمیشہ ایک سیاہ باب رہے گا بہرحال اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔دنیا میں لوگ پرانی یادگاروں اور تاریخی عمارتوں کو ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیتے ہیں، یہاں پلاٹ مافیا نے سب کچھ تباہ وبرباد کردیا ہے۔

آئیے سرلاٹھکرائےکی بات کرتے ہیں، اس خاتون نے 1936میں صرف 21برس کی عمر میں لاہور میںہوا بازی کے ایک ہزار گھنٹے پورے کرکے کمرشل ہوا بازی کا لائسنس حاصل کیا، لاہور اور پورے برصغیر کی یہ پہلی خاتون تھی جس نے 1936ء میں جہاز اڑانے کا فیصلہ کیا ،مکمل تربیت حاصل کی اور لاہور فلائنگ کلب سے تربیت حاصل کی، خوش قسمتی سے ہم نے لاہور فلائننگ کلب بورڈ کی تصاویر بنائی ہیں، اس نے 16سال کی عمر میں لاہور میں بی ڈی شرما سے شادی کی اور اپنے خاوند سے بھی جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کی، سر لاٹھکرائےکے پہلے خاوند بی ڈی شرما ایک ہوائی حادثے میں وفات پا گئے تو انہوں نے ان کی جگہ ہوائی جہاز اڑانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ لاہور سے کراچی ڈاک لے کر جانے لگیں ،انہوں نے دوسری شادی مسٹر ٹھکرال سے کرلی تھی اور قیام پاکستان کے بعد دہلی چلی گئی تھیں، 2008میں ان کی وفات ہوئی۔ انہوں نے پائلٹ کا کورس کرنے کے علاوہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹ سے ڈپلومہ حاصل کیا چنانچہ میواسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ نے یہاں تعلیم حاصل کی تھی۔ آج لاہور میں ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، والٹن ایئرپورٹ پر بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہوا ، والٹن ایئر پورٹ پر قائداعظم کی سرکاری رہائش گاہ کو ہی ختم کر دیاگیا ہے، والٹن ایئرپورٹ کی کیا حیثیت ہے؟اس تاریخی ایئرپورٹ پر قائداعظمؒ کی آمد اور ان کی تقریر کا اقتباس بھی نصب ہے۔ یقیناً اس تاریخی ایئرپورٹ کے ختم ہونے کے بعدتمام پرانی تاریخی چیزیں غائب ہو جائیں گی۔بہرحال اس مرتبہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ لاہور کی پرانی گلیوں اور بازاروں کی طرف چلیں اور حویلی نونہال سنگھ میں قائم تاریخی گورنمنٹ وکٹوریہ اسکول کا بھی ذرا نظارہ کر آئیں، آج سے بیس پچیس برس قبل جب لاہور میں بسنت پرجوش انداز میں منائی جاتی تھی تو ہم اس تاریخی اسکول کے احاطے تک کارسےجایا کرتے تھے، آج جب ہم نے کار کا رُخ گلی کی طرف کیا تو معلوم ہوا کہ ہمیں پیدل ہی جانا پڑے گا چنانچہ ہم پیدل ہی روانہ ہو گئے، خیال تھا کہ ان پچیس برس میں شہر کی گلیاں بہت صاف ستھری ہو گئی ہوں گی اور والڈ سٹی اتھارٹی جو بہت دعوے کر رہی ہے، اس کی کہیں نہ کہیں جھلک ضرور نظر آئے گی مگر افسوس کہ یہ گلیاں پہلے سے زیادہ گندی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں، جب ہم وکٹوریہ اسکول یا نونہال سنگھ کی حویلی کے سامنے پہنچے تو یقین کریں یہ دیکھ کردل خون کے آنسو رونے لگا کہ حویلی مزید خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے، اس تاریخی حویلی میںڈرامے اور فلمیں بنا کر لاکھوں اور کروڑوں کمانے والوں نے ایک روپیہ بھی اس حویلی کی مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ نہیں کیا، یہ حویلی میدان بھائیاں والا میں ہے، میدان بھائیاں اندرون موری گیٹ بھی بڑی تاریخی جگہ ہے۔ یہ جگہ چار سکھ بھائیوں کی ملکیت تھی جو شام کو اس میدان میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے، ان کا تعلق کمبوہ برادری سے تھا۔وہ ایک بہت بڑے منجھے (چارپائی) پر بیٹھا کرتے تھے۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین