• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی ایئربیس پٹھا ن کوٹ پر دہشت گردی کی کارروائی کے حوالے سے بھارتی تحقیقاتی ایجنسی اے این آئی کے سربراہ شرد کمار نے چند روز قبل نہایت واضح لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھاکہ اس میں پاکستانی حکومت یا کسی بھی پاکستانی ایجنسی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ دہشت گردی میں بحیثیت ریاست پاکستان کیلئے اس کلین چٹ کے جاری کیے جانے کے بعد توقع تھی کہ باہمی تنازعات کو پرامن مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے ضمن میں بھارتی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور پٹھان کوٹ واقعے میں کسی ثبوت کے بغیر پاکستان کو ملوث کرنے کے غیرذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرکے بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا نے ماحول کو جتنا ناسازگار بنادیا تھا ، اسے خیرسگالی کے اقدامات کے ذریعے بہتر بنایا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ شردکمار کے بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی حکومت گزشتہ روز نئی قلابازی کے ذریعے ایک بار پھر مذاکرات سے فرار کی راہ پر لوٹ آئی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سروپ نے پٹھان کوٹ حملے کا الزام ایک بار پھر پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات پر کوئی اتفاق ہوا ہے نہ اس کیلئے کوئی تاریخ طے ہوئی ہے اس کے برعکس بھارت پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان کی جانب سے کارروائی کا منتظر ہے۔وکاس سروپ نے ممبئی حملوں کے حوالے سے بھی الزام عائد کیا کہ اس میں ملوث عناصر پاکستان میں موجود ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی پاکستان کیلئے ایک امتحان ہے۔اس طرح بھارتی حکومت نے ان معاملات میں جن میں تحقیقات ابھی کسی حتمی انجام تک نہیں پہنچی، اپنے طور پر پاکستان کے بعض عناصر کو یقینی مجرم قرار دے کر ان کے خلاف پاکستان سے کارروائی کے مطالبے کی قطعی غیرمعقول حکمت عملی اپنائی ہے ۔ تاریخی تناظرمیں دیکھیں تو یہ روش مذکرات سے فرار کیلئے بہانہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے بھارت کی اس تازہ قلابازی پر اپنے ایک انٹرویو میںبالکل درست کہا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کے معاملے میں بھارتی تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ کا بیان پاکستان کے ملوث نہ ہونے کا واضح ثبوت ہے ، جس کے بعد بھارت کو مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں میں معمول کے تعلقات کی بحالی کیلئے آگے بڑھنا چاہئے تھا۔سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کرنا کسی قوم کا دوسری قوم پر احسان نہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں اختلافات کے تصفیے کا ایک معروف طریقہ ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں مذاکرات کیلئے بھارت کی اس شرط کو مسترد کردیا کہ پہلے پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔انہوں نے وضاحت کی کہ پٹھان کوٹ واقعے پرہمارے تحقیقاتی ادارے کام کررہے ہیں ، ایسے واقعات کی تحقیقات مکمل ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں،اس لئے کسی کو بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اصل ضروری بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ تعاون کی فضا جو پاکستان نے قائم کی تھی برقرار رہنی چاہئے تاکہ معلومات کا تبادلہ ہوسکے اور تحقیقات کو آگے بڑھایا جاسکے۔سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ سارے معاملات کو بالائے طاق رکھ کر محض دو ایک واقعات کی بنیاد پر پورے تعلقات کی تشریح کرنا درست نہیں۔پاکستان کے اس موقف کی معقولیت محتاج وضاحت نہیں۔ دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں میں ملوث عناصر کی درست نشان دہی ایک وَقت طلب کام ہوتا ہے ۔ خود بھارت میں اب تک سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ کے ملزمان سزا یاب نہیں ہوئے جبکہ اس انسانیت سوز کارروائی پر ایک دہائی گزرچکی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس واردات کا بڑا ملزم ضمات پر رہا بھی ہوچکا ہے۔لہٰذا بھارت کو جنوبی ایشیا سمیت پورے خطے کے استحکام اور ترقی کی خاطر پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا سلسلہ بلاتاخیر شروع کرکے تمام تصفیہ طلب معاملات کو جلداز جلد منصفانہ طور پر حل کرلینا چاہئے تاکہ جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کیلئے امن اور خوش حالی کی نئی راہیں کھل سکیں۔
تازہ ترین