بچھو حیوانات کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو ٹانگوں کے چار جوڑے یعنی آٹھ ٹانگیں رکھتے ہیں جیسے مکڑی کیکڑے وغیرہ۔ بچھو کے دو چمٹی نما ہاتھ اور دم جو کہ ایک مخصوص اند از میں مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس دم کے آخر میں ایک ڈنک ہوتا ہے۔ بچھو کی ارتقائی تاریخ چار سو پینتیس ملین سال پرانی ہے۔ یہ بنیادی طور پر صحرائوں میں پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں ماحولیاتی حالات کی بناء پر ایک وسیع میدانی علاقے کو بھی اپنا گھر بنا چکے ہیں اور انٹارکٹیکا کے علاوہ تمام براعظموں پر موجود ہیں۔ ان کی دو ہزار پانچ سو سے زیادہ انواع ہیں۔
یہ عام طور سے چھوٹے کیڑے وغیرہ کو اپنی غذا بناتے ہیں اور رات کے وقت انتہائی فعال ہوتے ہیں۔ بچھو کا چھلکے نما ڈھانچہ فلوریت رکھتا ہے۔ یعنی ایک خاص توانائی جو جذب کرکے ایک خاص روشنی خارج کرسکتا ہے ۔ یہ توانائی عام طور سے بالائے بنفشی شعاعوں کے ذریعے دی جاسکتی ہے اور اس نظارے کو عمل پذیر ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ بچھو کا زہر جو کہ اس کی دم کے آخری حصے میں موجود ڈنک میں ہوتا ہے، عام طور سے انسانوں کے لیے جان لیوا ثابت نہیں ہوتا۔
اس کے باوجود قومی صحت عامہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ڈیڑھ ملین لوگ دنیا بھر میں بچھو کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں اور کمزور لوگ یا بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ دنیا کے بڑے علاقے جہاں بچھو کے کاٹے جانے کے واقعات بڑی تعداد میں ہوتے ہیں زیادہ تر گرم مرطوب علاقے ہیں جیسے افریقا، مشرقی وسطی، انڈیا، جنوبی امریکاوغیرہ ۔ ان میں سے بہت سے علاقوں میں شہری توسیع اور شہر کی صفائی کے ناقص انتظام کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں نے بچھوؤں کے سامنے آمنے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ بچھو اپنے زہر کا استعمال شکاریوں سے دفاع کرنے اور اپنے شکار کو پکڑنے کے لیے کرتے ہیں۔
بچھو کے زہر کی ساخت انتہائی پیچیدہ اور غیر یکساں ہوتی ہے۔ اس میں پروٹینز یا لحمیہ کم اور پیپٹا ئیڈ زیادہ ہوتے ہیں جب کہ غیر نامیاتی اور نامیاتی اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ اجزا حیاتیاتی طور پر انتہائی فعال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لحمیات اور پیپٹائیڈ پر کافی تحقیق کی گئی ہے اور یہ کام دواساز کمپنیوں اور بائیوٹیکنالوجی کے اداروں کی دلچسپی کا باعث ہے ۔ تاہم ، اس حقیقت کے باوجود کہ کافی تحقیقی کوششیں جاری ہیں اور بچھو کے زہر کے اجزاء سے ماخوذ علاج کے امکانات بہت امیدافزا ہیں، کلوروٹوکسن وہ واحد جُز ہے جسے ابھی طبی آزمائش کی طرف لے جایا گیا ہے۔ اس وقت بازار میں بچھو کے زہر پر مبنی کوئی دوا نہیں ملتی۔
بچھو کے زہر کے مرکبات جو کہ ممکنہ استعمال اورعلاج کی تحقیق کا موضوع رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ تفصیل یہاں بیان کی جارہی ہے۔ عام طور سے بچھو کا زہر چھوٹی اور بڑی ٹاکسن یا نباتاتی زہر پر مشتمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کیلسن اور کچھ عصبی نظام پر اثر انداز ہونے والے ٹاکسن۔ زہر میں موجود خامرومیں ہیالرو نیڈیز، فاسفولیپیز اور میٹالو پروٹیز قابل ذکر ہیں۔ اگر بات کی جائے بیکٹیریاں کی تو آج کے دور میں اینٹی بائیوٹک سے مزاحمت کا سلسلہ چل نکلا ہے، جہاں بہت سارے جراثیم ان ادویات سے ہونے والے علاج کو بے اثر کرچکے ہیں۔
اس لیے ایسے نباتاتی یا غیر نباتاتی مرکبات کو کھو جا جارہا ہے جو اینٹی بائیو ٹک سے مزاحمت رکھنے والے ان بیکٹیریاں کو ختم کرسکیں اور علاج ممکن ہوسکے۔ بچھو کے زہر سے حاصل کیے گئے پیپٹائیڈ نہ صرف بیکٹیریاں کش ہوتے ہیں بلکہ فصلی کیڑوں کے خلاف بھی موثر ثابت ہوئے ہیں۔ اسی طرح کے پیپٹائیڈز کو تجربہ میں ہونے والے مختلف تجربات کے ذریعے پر کھا گیا ہے اور بین الاقوامی جریدوں میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ کارکامونوریگا اور ساتھیوں نے اپنے 2019ءکے تحقیقی مقالے میں یہ مشاہدہ رپورٹ کیا ہے کہ بچھو کی قسم ڈپلوسینٹرس ملیسی سے حاصل ہونے والے زہر کے ایک پیپٹا ئیڈ میں متعدد اینٹی بائیوٹک سے مزاحمت رکھنے والے تپ دق کے بیکٹیریاں کے خلاف اثر رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اسی طرح دیگر بچھوؤں کی قسم بھی زہر میں ایسے ہی پیپٹائیڈ رکھتی ہے۔ البتہ ان میں سے بعض پیپٹائیڈ خلیہ پاش ہونے کی وجہ سے ایک موثر جراثیم کش مرکب کے طور پر مزید تحقیق اور تجربات کے لیے اپنی افادیت کھودیتے ہیں۔ پُھپُھو ند بھی ایک خرد بینی جاندار ہے اور بچھو کے زہر میں مختلف پھپھوندوں کے خلاف کام کرنے والے اجزاء بھی موجود ہیں۔ کینڈیڈا نامی پھپھوند بھی بیکٹیریا کی طرح اینٹی بائیو ٹک سے مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ٹٹیس سٹگمورس نامی بچھو کے زہر میں سٹگمورن ایک ایسا پیپٹائیڈ ہے جو کینڈیڈ پھپھوند کی مختلف اقسام کے خلاف اثر رکھتا ہے اور اس پھپھوند کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
مختلف وائرس بھی بچھو کے زہر میں موجود پیپٹائیڈ کی وجہ سے یا تو بے اثر ہوجاتے ہیں یا پھر مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح طفیلی جانداروں کے لیے بھی بچھو کے زہر میں طفیلی کش اجزاء موجود ہیں۔ جیسا کہ تپ ٹیپ وارم یا اس کے لاروا کے خلاف گارچی نامی بچھو کا زہر انتہائی موثر ثابت ہو ا ہے ۔ اس مشاہدے کو فلورلیس سولس اور ساتھیوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں 2016ءمیں شائع کیا ہے۔
اس کے علاوہ خون کی رگوں کا پھیلائو بڑھانے اور خون کے دبائو میں کمی کرنے والے ٹاکسن بھی بچھو کے زہر سے رپورٹ کیے گئے ہیں۔ مدافعتی ردِ عمل کو دبانے والے ٹاکس بھی دوا ساز کمپنیوں کے لیے ایک پرکشش سالمہ ہے جو کہ ایسی بیماری جس میں جسم اپنے ہی خلاف قوت مدافعت کا استعمال شروع کردیتا ہے کے لیے ہدف کے طور پر پرکھی جاسکتی ہے۔ عام طور سے بچھو کا ڈنک انتہائی درد اور تکلیف کا سبب ہوتا ہے ،مگر کچھ ٹاکسن اگر خام زہر میں سے الگ کر لیے جائیں تو درد کو آرام پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں کم از کم بیس ایسے پیپٹائیڈ بچھو کے زہر میں سے شناخت ہوچکے ہیں جو تکلیف میں آرام کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اینڈروٹونس موریٹا نیکس بچھو سے حاصل ہونے والا پیپٹائیڈ جس کو گونیر سسٹائڈ کہاجاتا ہے نہ صرف مختلف سرطان بلکہ رسولی کو بھی کسی سرطان میں تبدیل ہونے سے روک دیتا ہے۔ اس طرح کی ساری تحقیق جہاں زہریاز ہریلے مادوں پر کام کیا جارہا ہے اس طرف اپنی توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں جو زہر کے الگ تھلگ اجزاء کی خصوصیت، نئے مرکبات کے لیے مینو فیکچرنگ کے طریقہ کار کو قائم کرنا، منفی اثرات کو کم سے کم کرنا اور طویل مدتی تھراپی کے لیے نئے علاج کو دریافت کر کے رائج کرنا ہے۔
یہاں اب تک بچھو کے زہر سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات جو کہ پچھلے دس یا پندرہ سالوں میں حاصل کی گئی ہیں، بیان کردی گئی ہیں۔ پاکستان بھی مختلف قسم کے بچھوؤں کا مسکن ہے۔ ہمارے ملک میں کم از کم بچھوؤں کے پانچ خاندان موجود ہیں جن میں سترہ نسلیں اور پچاس انواع ہیں۔ زیادہ تر بچھوپاکستان کے صحرائی اور میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ کالا اور پیلا بچھو سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں عام طور سے پائے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے یا بڑے دونوں طرح کی جسامت میں ملتے ہیں۔ کالا بچھو البتہ بڑا ہوتا ہے جب کہ پیلا بچھو چھوٹی جسامت رکھتا ہے۔
خیبر پختون خوامیں بھی ان دو رنگت کے بچھوؤں کے علاوہ دیگر رنگت رکھنے والے بچھوں بھی پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے چند پہاڑی علاقوں کے مکین ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر تحقیق بچھوؤں کی مختلف نسلوں کی دریافت اور علاقائی تقسیم سے متعلق ہے۔ بچھو کے زہر پر ہونے والے تحقیق محدود ہے۔ پیلا بچھو جس کا سائنسی نام ’’بوتس سنڈیکس ‘‘ہے ۔اس کے زہر سے مختلف چھوٹے اور بڑے ٹاکسن رپورٹ کیے گئے ہیں۔ ٹاکسن کی بیکٹیریاں کے خلاف اثریا ان سے حاصل ہونے والا کوئی ایسا پیپٹائیڈ جو کہ کسی سرطان یا رسولی کے خلاف اثر رکھتا ہو پر کام کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں بچھو کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے ہیں ۔ جو کچھ تحقیق بین الاقوامی سطح پر کی جارہی ہے پاکستان میں اس طرز کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ بچھو کا زہر دراصل اپنے اجزاء میں بنیادی طور پر جو چھوٹے بڑے پیپٹائیڈ رکھتا ہے وہ مختلف آئن چینل کو متاثر کرتے ہیں۔ ان چینل میں پوٹاشیم ، سوڈیم ، کیلشیم، کلورائیڈ آئن چینل شامل ہیں ۔یہ چینل ہی انسانی جسم میں اعصابی تحریک کا سبب ہوتے ہیں اور بہت سارے دماغ تک پہنچنے والے یا دماغ سے آنے والے سگنل ان ہی چینلوں کے کھولنے اور بند ہونے کی وجہ سے کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سی بیماریاں یا خرابیاں جو ان آئن چینل کی وجہ سے ہوسکتی ہیں وہاں ایسے پیپٹائیڈ انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں،کیوں کہ ان کے استعمال کے ذریعے ایسی بیماریوں کا علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ بچھو کا زہر کیونکہ اتنی بڑی مقدار میں اس کے ڈنک میں موجود نہیں ہوتا کہ جتنی مقدار سے مختلف تحقیقی تجربات کیے جائیں ۔لہٰذا سیکٹروں کی تعداد میں بچھوؤں سے ایک اچھی مقدار حاصل کی جاتی ہے اور پھر کام شروع کیا جاتا ہے ۔
یہ زہر بہت جلد ہی ڈنک میں واپس پیدا ہوجاتا ہے اور بچھو کے لیے شکار اور دفاع میں کام آتا ہے۔ بچھو بڑی تعداد میں بچے پیدا کرتے ہیں لحاظہ ان کا سیکڑوں کی گنتی میں ملنا آسان ہوتا ہے۔ زہر حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے مسکن میں چھوڑے جاسکتے ہیں اس طرح سے ماحولیاتی نظام قائم رہتا ہے اور دوبارہ بھی ان ہی بچھوؤں کو پکڑ کر زہر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بچھو کے زہر پر اتنی تحقیق نہیں کی گئی ہے جتنا کہ سانپ کے زہر یا مختلف پودوں کے بیج سے حاصل ہونے والے لحمیے یا پیپٹائیڈ پر ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مختلف ادویات مارکیٹ میں موجو د ہیں جو کسی سانپ کے زہر یا پودے سے حاصل شدہ سالمے کو تراش خراش کربنا ئی گئی ہے۔
کچھ پیپٹائیڈ جو کہ اینٹی بائیوٹک سے مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریاں کے خلاف موثر ثابت ہوئے ہیں، ان میں امکارپورن، سٹرپورن اور ویجووین نامی ٹاکسن بچھو کے زہر سے لی گئی ہیں۔ یہ تینوں ٹاکسن بھی ممکنہ طور پر دواسازی کے لیے اچھے سالمے ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس طرح سے بچھو کے زہر پر ہونے والی تحقیق میں مزید توجہ درکار ہے ،کیوں کہ آنے والے وقتوں میں طبی میدان میں چھوٹے نباتاتی سالمے اینٹی بائیوٹک کی جگہ لے لیں گیں۔
جدید تکنیک اور انتہائی حساس آلات نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ کسی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ نمونوں کو اس کے اجاء میں الگ الگ کر کے ہر جزو کا تجزیہ کیا جائے اور تمام معلومات حاصل کرلی جائیں۔ پاکستان میں بھی ابھی بہت کام کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارے ملک میں چونکہ پچاس قسم کی انواع موجود ہیں جن میں سے صرف چند بچھو پر ہی کام کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی نیا مالیکیوں دریافت کیا جاسکے جو کہ آگے چل کر کسی اعصابی یا موذی بیماری کا علاج ثابت ہو۔