• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 8)

میثاقِ مدینہ کے چند اہم نکات:اس تاریخ ساز آئینی اور دستوری معاہدے کی 53دفعات ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

1۔ یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔ یہودی اپنے دین پر اور مسلمان اپنے دین پرعمل پیرا ہوں گے۔ 2۔ مدینے کا دفاع فریقین پر لازم ہوگا۔ بیرونی حملے کی صورت میں سب مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ 3۔یہودی اور مسلمان اپنے اپنے اخراجات کے خود ذمّے دار ہوں گے۔ جنگ کی صورت میں اخراجات دونوں برداشت کریں گے۔ 4۔ قریش اور اس کے مددگاروں کو کوئی فریق پناہ دے گا، نہ کسی ظالم یا مجرم کی مدد کی جائے گی۔ 5۔ جو قبیلے مسلمانوں کے دوست ہیں، وہ یہودیوں کے بھی دوست ہوں گے اور جو مدینے کے یہودیوں کے حلیف ہیں، وہ مسلمانوں کے بھی حلیف ہوں گے۔ مظلوموں کی مدد و حمایت سب پر لازم ہوگی۔ 6۔ معاہدے کے فریقین پر مدینے میں لڑائی جھگڑا، فساد و خون خرابا حرام ہوگا۔ 7۔ یہود و مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کا احترام کرتے ہوئے خوش گوار تعلقات استوارکریں گے۔ 8۔خون بہا اور فدیے کے لیے جو طریقہ پہلے سے رائج ہے، وہی قائم رہے گا۔ 9۔ معاہدے کے فریقین میں اختلاف کی صورت میں دونوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے پابند ہوں گے۔

امن و امان کے معاہدے کو مزید وسعت دینے کے لیے اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب و جوار کے دیگر قبائل سے بھی معاہدے کیے۔ اس اقدام سے مدینے اور اس کے اطراف کا تمام تر علاقہ ایک وفاق کی شکل اختیار کرگیا، جس کے سربراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ مسلمانوں کی پہلی اسلامی ریاست تھی، جس میں تمام سیاسی، قانونی اور عدالتی اختیارات پر غالب حکم رانی مسلمانوں کی تھی۔ (رحیق المختوم، ص264 )۔

یثرب کے یہودیوں کی عادات و اطوار

یہودیوں کی معاندانہ روش:میثاقِ مدینہ کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں، لیکن جلد ہی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کردیا۔ ان کا عناد روز بروز بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ جس کی چند وجوہ درجِ ذیل ہیں۔

یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک رئیسِ قوم دیکھنا چاہتے تھے کہ جو صرف اپنے گروہ کے دُنیاوی مفاد سے سروکار رکھے، لیکن جب انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ تو احکامِ الٰہی کی اطاعت اور معاشرتی برائیوں کے خلاف ایک عالم گیر اصلاحی تحریک چلانے کے دَرپے ہیں، جو نہ صرف اُن کی تمام تر خرافات کو بہا لے جائے گی، بلکہ ان کی معاشی برتری، تجارتی و کاروباری اجارہ داری اور سیاسی چوہدراہٹ کو بھی ختم کردے گی، تو وہ نقصان پہنچانے کے دَرپے ہوگئے۔ اوس و خزرج کی طویل جنگ اور انصار کا تفرقوں میں بٹے رہنا، اُن کے مفاد میں تھا، لیکن اب تمام قبائل کو آپس میں بھائی بھائی بنتے دیکھ کر ایک مضبوط اُمت کا رُوپ دھار لینا، یہودیوں کے مفادات کے لیے سخت خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ اسلام کا سود سے پاک معاشی نظام بھی یہودیوں کی معاشی و سماجی موت تھا۔

یثرب کے معاشرے پر یہود کی مضبوط گرفت: یہودی یثرب کی سیاسی، معاشی، تجارتی اور معاشرتی سرگرمیوں کے رُوحِ رواں تھے۔ مال و زَر کے لین دین سمیت تمام تر تجارتی اور معاشی معاملات یہودیوں کے ہاتھوں میں تھے۔ فلسطین و شام کے متمدن علاقوں سے آنے والے وہ لوگ نہ صرف جدید طریقوں سے واقف تھے، بلکہ باہر کی دُنیا سے اُن کے تعلقات بھی وسیع تھے۔ مرغ بانی، ماہی گیری اور زراعت کے علاوہ غلّے کی درآمد اور کھجوروں کی برآمد سمیت تمام تجارتی لین دین اُن کے قبضے میں تھا۔ 

اوس و خزرج کے درمیان طویل ترین جنگ میں جدید اسلحے کی فراہمی بھی ان کی ذمّے داری تھی۔ پورے یثرب میں جگہ جگہ شراب خانے موجود تھے۔ وہ لوگ شراب کی بڑی بڑی بھٹیوں کے مالک تھے۔ قبیلہ بنو قینقاع کے زیادہ تر یہودی پیشے کے اعتبار سے سُنار، لوہاریا ظروف سازی کے شعبے سے بھی وابستہ تھے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار سود خوری تھا۔ پورے عرب میں قبیلے کا کوئی ایک بھی سردار، شیخ یا بااثر آدمی ایسا نہ تھا کہ جو اُن کے سودی کاروبار کے جال میں پھنسا ہوا نہ ہو۔ یہ بھاری شرحِ منافع پر زیادہ سے زیادہ قرضہ دیتے اور پھر سود دَر سود کا چکر چلتا رہتا۔

دوغلی پالیسی پر عمل پیرا: اُن کے تجارتی و مالی مفادات اور بقا کا تقاضا یہ تھا کہ یہ خود تو عرب کے سب قبائل سے تعلقات رکھیں اور اپنی چرب زبانی سے اُنھیں سبز باغ دکھا کر اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہیں، لیکن اُنھیں آپس میں متحد نہ ہونے دیں۔ چناں چہ اکثر اوقات بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلا کر اُن قبائل کو آپس میں دست و گریباں رکھتے۔ بنو خزرج اور بنو اوس ایک ہی ماں کی اولاد میں سے تھے، لیکن یہودیوں کی سازشوں نے اُنھیں120سال تک خوف ناک جنگ میں اُلجھا کر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

مذہبی تعصّب اور نسلی فخر و غرور: یہودیوں کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصّب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ دُنیا کی سب سے زیادہ متمدن اور اللہ کی محبوب قوم کے گھمنڈ میں مبتلا اس بدنصیب قوم کی خُود فریبی کا یہ عالم تھا کہ بڑے فخر سے کہتے تھے کہ ’’دوزخ کی آگ ہمیں نہیں جلائے گی، کیوں کہ ہم یہودی ہیں اور دوزخ ہم پر حرام ہے۔‘‘ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، (ترجمہ) ’’اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں ہرگز چُھونے والی نہیں، سوائے چند روز کے۔ اُن سے پوچھو کہ کیا تم نے اللہ سے اقرار لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا۔ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو، جن کا تمہیں مطلق علم نہیں، ہاں جو بُرے کام کرے اور اس کے گناہ اُسے گھیر لیں، تو ایسے لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں۔ جہاں وہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔‘‘ (سورۃالبقرہ، آیات 80،81)۔ یہودی عربوں کو اُمّی کہتے تھے، جس کے معنٰی صرف اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ وحشی اور جاہل کے بھی تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ یہ لوگ اسرائیلیوں سے کم تر ہیں اور اُن کے مال و جان پر یہودیوں کا حق ہے۔ یہودی علماء سحر و جادوگری، فال وغیرہ میں ماہر تھے، جس کی وجہ سے عربوں پر اُن کے علم اور عمل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ عرب سرداروں کے علاوہ عام عربوں سے برابر کی بنیاد پر معاملات کرنا انھیں گوارا نہ تھا۔

یثرب کے یہود، عربیت کے رنگ میں: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ، ’’اللہ تعالیٰ نے اولادِ یعقوب ؑ میں یہ برکت عطا فرمائی کہ دس انبیاء کے علاوہ باقی سب انبیاء و رُسل اُن کی اولاد (بنی اسرائیل) میں پیدا ہوئے، جن کے نام حضرت شیث علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (353/1)۔ یہود اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ نبی آخرالزماں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنی اسرائیل میں سے ہوں گے۔ 

انھیں اپنی مقدّس کتاب توریت سے بھی اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ آخری نبیؐ حجازِ مقدّس اور خاص طور پر سرسبز و شاداب علاقے یثرب میں تولّد ہوں گے، چناں چہ اُنھوں نے نہ صرف یثرب کے قُرب و جوار میں اپنی مستقل آبادیاں بسائیں، بلکہ خود کو زبان، لباس، تہذیب تمدّن یعنی ہر لحاظ سے پوری طرح عربیت کے رنگ میں رنگ لیا، حتیٰ کہ اُن کی غالب اکثریت کے نام تک عربی زبان کے تھے۔ حجاز میں آباد 12یہودی قبائل میں سے بنی زعورا کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی زبان میں نہ تھا۔ اُن کے چند گِنے چُنے علما کے سوا کوئی عبرانی زبان جانتا تک نہ تھا۔ دراصل، اُن میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب نہ ہوسکے۔ 

اُن پر یہودی عصبیت اور غرور و تکبّر کا عنصر شدّت کے ساتھ غالب رہا۔ انھیں سب سے بڑا دھچکااُس وقت لگا کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل سے نہیں ہیں۔ آنحضرتؐ کے مدینہ تشریف لانے پر انھوں نے اپنی دوغلی پالیسی کی بِنا پر معاہدہ تو کرلیا، لیکن اُنھیں جب یہ علم ہوا کہ اسلام کی یہ تحریک تو اُن کے تمام ناجائز کرتوتوں کو اُکھاڑ پھینکے گی، اُن کا سودی کاروبار، ٹھاٹ باٹھ، عیش عشرت ختم ہوجائے گی۔ فسق و فجورکی رنگین محفلیں اُجڑ جائیں گی، تو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو اپنا نصب العین بنالیا۔ آپ ؐ کو زک دینے اور تکلیف پہنچانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے، جھوٹی باتیں پھیلانا، لوگوں کو بدگمان کرنا، مسلمانوں میں پُھوٹ ڈالنا، ساز باز کرنا اُن کا روز کا معمول تھا۔(سیرت سرورِ عالمؐ، جِلد سوم، صفحات77-73 )۔

حضرت صفیہؓ کی معتبر گواہی: یہودیوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دُشمنی کی سب سے معتبر گواہی، اُمّ المومنین حضرت صفیہؓ کی ہے۔ حضرت امام بیہقی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ ’’حضرت صفیہؓ ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ آپؓ کے والد حئی بن اخطب اور چچا، ابو یاسر یہودیوں کے بڑے سردار اور مذہبی رہنمائوں میں سے تھے۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے، تو یہ دونوں بھائی اپنی مقدّس کتاب ’’توریت‘‘ میں لکھی گئی پیش گوئی کی تحقیق کی غرض سے مدینہ منورہ آئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل ملاقات کی۔

حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ دونوں واپس آئے، تو مَیں نے دیکھا کہ بڑے اُداس، پریشان اور متفکّر ہیں۔ مجھے تجسّس ہوا اور میں نے اُن کی باتیں سُنیں، جو اس طرح تھیں۔ چچا میرے والد سے کہتے ہیں۔ ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی نبیؐ ہیں کہ جن کے آنے کی خبر اور تفصیل ہماری مقدّس کتاب میں موجود ہے؟‘‘ والد نے جواب دیا، ’’ہاں اَبویاسر! میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ وہی نبیؐ ہیں۔‘‘چچا پھر سوال کرتے ہیں، ’’کیا تمہیں یقین ہے؟‘‘ اُن کے چہرے پر گھبراہٹ اور لہجے میں خوف نمایاں تھا۔ ’’ہاں ابو یاسر! مجھے یقین ہے کہ یہ وہی نبیؐ ہیں۔‘‘ والد نے شکست خوردہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ 

چچا نے دریافت کیا۔ ’’بخدا جب تک جان میں جان ہے۔ میں اس شخصؐ کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات کو چلنے نہیں دوں گا۔‘‘ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کو اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان اور اُداس نہیں دیکھا تھا، لیکن ان دونوں کی باتوں سے مجھے یقین ہوگیا کہ توریت میں جس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا میں آنے کا ذکر ہے، وہ نبی ؐ آچکے ہیں۔ اور اب اسلام کو دُنیا میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اُن کی گفتگو سُننے کے بعد اسلام اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میرا تجسّس مزید بڑھ گیا۔‘‘ (اُمہات المومنینؓ، ص140 )۔

مسائل کے انبار:اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، تو عام تاثر یہ تھا کہ آپؐ کی مشکلات میں کمی آجائے گی، لیکن زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ یہودیوں کی قدیم بستی یثرب کو مدینہ منورہ کے نام سے پہلی اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کردینا اتنا آسان نہ تھا۔ مکّہ مکرّمہ میں آپؐ کے مخالف آپؐ کے اپنے قبیلے کے لوگ تھے، جب کہ آپؐ کے چچا، پھوپھیاں، قبیلہ بنو ہاشم، قبیلہ بنو عبدالمطلب اور حضرت خدیجہؓ کی حمایت میسّر تھی، لیکن مدینہ اَن جان جگہ تھی، جہاں اَن جان لوگ تھے۔ یہاں مخالفت اور دُشمنی کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ 

ایک طرف اَزلی دُشمن متعصّب یہودی تھے، تو دُوسری طرف یثرب کے نامراد بادشاہ منافقِ اعظم عبداللہ بن اُبی بن سلول کے منافق رفقاء کا ایک طاقت وَر گروہ، اس کے ساتھ ہی بیرونی خطرات، کفّارِ قریش کی ریشہ دوانیاں، اندرونی سازشیں، مہاجرین کے مسائل، انصار کی تربیت، ریاست کے معاملات، امن و امان کی صورتِ حال، نوجوانوں کی حربی تربیت، تربیتِ دین کا کام، انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات اور یہودیوں سے معاہدے کے بعد آپؐ کے سامنے ایک بڑا مسئلہ منافقین کی شکل میں بھی تھا۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جو بظاہر تو مسلمان تھے، لیکن باطنی طور پر مشرک تھے۔

منافقین کی نشانیاں

زبان سے ایمان و اسلام کا اظہار اور دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد رکھنا نفاق کہلاتا ہے، یہ نفاق کفر، بلکہ کفر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ”منافق جہنم کےسب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور ان کے لیے آپ کسی کو مددگار نہ پائیں گے۔‘‘ )النساء، 145)۔ قرآن کریم نے منافقت کو ایک بیماری بتاتے ہوئے، منافقین کی چند نشانیاں بیان کی ہیں۔

دھوکے باز: ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت پر ایمان لے آئے لیکن درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ آیات 8،9)۔

دروغ گو: سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ :’’ان (منافقین) کے دِلوں میں (کفر کا) مرض تھا۔ اللہ نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا اور کیوں کہ یہ جھوٹے ہیں، لہٰذا ان کو دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (البقرہ آیت۔ 10)۔

فسادی: ’’اور جب ان (منافقین) سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘(البقرہ آیت۔11) حالاں کہ یہی لوگ مفسد ہیں، لیکن انھیں شعور نہیں ہے۔(البقرہ آیت۔12)۔

بے وقوف: ’’اور جب ان (منافقین) سے کہا گیا کہ جس طرح دُوسرے لوگ سچائی اور خلوص کے ساتھ ایمان لائے ہیں، اسی طرح تم بھی ایمان لائو، تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں، کیا اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ سُن لو یہی بے وقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں۔‘‘ (البقرہ، آیت۔13)۔

دوغلے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’اور جب یہ (منافق) مومنوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصل میں تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو ہم ہنسی مذاق کیا کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ آیت۔14) چناں چہ یہ پیدائشی دوغلے ہیں۔

بزدل اور ڈرپوک: سورئہ توبہ میں باری تعالیٰ فرماتا ہے ’’یہ (منافقین) خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں، حالاں کہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں یہ ڈرپوک لوگ ہیں۔‘‘ (آیت۔56)۔ (جاری ہے)