مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر کے خلاف ایل این جی ریفرنس میں احتساب عدالت نے دائرہ اختیار پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی جس کے دوران سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی بطور ملزم پیش ہوئے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ترمیمی ایکٹ کے تحت ریفرنس کے مستقبل پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق کیس ختم نہیں ہو گا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایل این جی کیس میں جرم ہوا، اس کے ٹھوس شواہد ہمارے پاس ہیں، صرف ترمیمی ایکٹ کے مطابق دائرہ اختیار طے کریں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمیں کہا ہے کہ متبادل فورم کے تعین میں آپ کی معاونت کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت ریفرنس صرف واپس ہوئے ہیں، نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت دائرہ اختیار نہ ہونے پر ریفرنسز میں بریت نہیں ہوئی، نیب واپس ہونے والے ریفرنسز کا جائزہ لے گا اور رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایل این جی ریفرنس بھی سپریم کورٹ کی ہدایات پر غیر شفافیت کے باعث شروع ہوا تھا، وزارتِ پیٹرولیم کے سیکریٹریز اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے، معاملہ نیب کو واپس ہو کر کس فورم پر جانا ہے؟ ورکنگ جاری ہے اور یہ بات طے ہونی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد ریفرنسز ٹرانسفر ہو جائیں گے، صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، شاہد خاقان عباسی موجود ہیں، یہ کچھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ یہ سیاسی بنیاد پر بنایا گیا کیس ہے، مجھ پر الزامات کیا ہیں، آج بھی معلوم نہیں۔
احتساب عدالت کے جج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو چارج فریم کرتے ہوئے اس کی کاپی فراہم نہیں کی گئی؟
احتساب عدالت نے ایل این جی ریفرنس کے دائرہ اختیار پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔