• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم ’’انتظامیہ کیسے مسمار ہوئی‘‘ کے تسلسل میں ذکر ہو گا کہ انگریز کی باقیات سے، آزاد ہندوستان کی سیاسی قیادت نے کیا سلوک کیا۔ جنگ عظیم دوم کے آغاز میں کانگریس کی صوبائی حکومتیں، اکتوبر 1939ء میں مستعفی ہو ئیں۔1942ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک شروع کی۔ جلسے جلوسوں کا آغاز ہوا تو سول انتظامیہ نے کانگریس کی احتجاجی تحریک کو سختی سے کچل دیا۔ سیاسی قیادت جیل گئی اور کارکن سڑکوں پر لاٹھی چارج کا سامنا کرتے رہے۔ اِس پس منظر میں کانگریسی قیادت، برطانوی راج کا ساتھ دینے پر ہندوستان کی سول انتظامیہ سے سخت نالاں تھی، مگر حیرت کی بات ہے کہ آزادی ملنے پر غیر ملکی آقائوں کی تشکیل کردہ، دورِ غلامی کی اِس یادگار کو ہندوستان کی لیڈر شپ نے مکمل طور پر اپنا لیا۔

ہندوستان کے ہوم منسٹر، سردار پٹیل نے آئین ساز اسمبلی کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے، انڈین سول سروس کے بارے میں کہا، ’’یہ آپ کا ایک کارآمد ہتھیار ہے۔ اِسے منظر سے ہٹا دینے پر مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ ‘‘ اپنے ساتھیوں کو مزید خبردار کرتے ہوئےکہا، ’’انتظامیہ کے اِس نظام کا کوئی متبادل نہیں... اگر آپ کے پاس آل انڈیا سروس جس کے اراکین اپنے خیالات کا برملا اظہار نہ کر سکیں اور عدم تحفظ کا شکار ہوں، نہ رہی تو ہندوستان کی وحدت کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ آئین سازی کے عمل میں اچھوت طبقے سے تعلق رکھنے والے کانگریسی رہنما، امبیدکر اور سردار پٹیل نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ سردار پٹیل کا تعلق ہندوستان کے صوبہ گجرات سے تھا۔ وہ 1875ء میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئےانگلستان گئے اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ہندوستان کی پہلی کابینہ میں اُنہیں ہوم منسٹری کا قلمدان دیا گیا۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں وہ ایک سخت گیر اور کسی حد تک متعصب ہندو رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ قارئین اِسے کانگریسی قیادت کی غلامانہ ذہنیت یا دُور بین سوچ سمجھیں، مگر اِن سیاست دانوں نے انگریز کی وراثت ، آل انڈیا سروس جسے برطانوی وزیر اعظم، لائیڈ جارج ’’انتظامیہ کا فولادی ڈھانچہ‘‘ کہتے تھے ، ہندوستان کے آئین میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کا نام دے کر مکمل طور پر محفوظ کر لیا اور آج بھی یہ نظام ،اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے اور کسی ہندوستانی سیاست دان یا سیاسی جماعت نے اُسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

صوبائی حکومتوں کو آئین میں خود مختاری ملی، مگر سول انتظامیہ کو اُن کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔ لازم قرار پایا کہ ہر صوبائی حکومت ایک پبلک سروس کمیشن قائم کرے گی۔ صوبائی کمیشن کے اراکین کی سلیکشن کا طریقۂ کار، شرائط ملازمت اور دائرہ اختیار ہندوستان کے آئین کا حصہ بنے۔ ملازمین کی بھرتی، ترقی، تنزلی اور اُن کے خلاف تادیبی کارروائی کے اختیارات، آئینی ضابطوں کے تحت، صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار سے باہر کردیے گئے۔

برطانیہ نے ہندوستان پر طویل حکومت کے دوران انڈین افواج اور انگلش لا پر اُستوار عدالتی نظام قائم کیا۔ اِن اداروں کو بھی آئین میں تحفظ دیا گیا۔ سردار پٹیل آئین نافذ ہونے کے چند ماہ بعد، دسمبر 1950ء میں فوت ہو گئے۔ ہمارے ملک کے چند دانشور، شاید اُنہیں برطانوی حکومت کی باقیات قائم رکھنے اور مزید مضبوط کرنے پر غیر ملکی آقائوں کا ذہنی غلام کہیں ،مگر اِس کانگریسی لیڈر کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی بہت عزت دی۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے چند سال پیشتر، اِس کانگریسی رہنما کا 597 فٹ اُونچا مجسمہ تیار کروایا۔ 420 ملین ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا یہ مجسمہ دُنیا کے کسی ملک میں کسی لیڈر کے مجسمے سے اُونچا ہے۔ آزادی ملنے سے پیشتر، 21 اپریل، 1947ء کو دہلی میں سردار پٹیل نے آئی سی ایس افسران سے خطاب کیا۔ اِس موقع کی یاد میں،ہر سال یہ دن سول سروس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک کے کونے کونے سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سرکاری ملازمین کو دعوت دی جاتی ہے۔ افسران اپنے ضلع، علاقے، محکموں، وزارتوں اور صوبوں میں اپنی کارکردگی کے اچھے نتائج کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ایک دُوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کی ترغیب ملتی ہے اور ملکی ترقی میں سول انتظامیہ کے اہم کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو افسران اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُنہیں سرکاری طور پر ایوارڈ اور انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔

قارئین نے شاید کچھ دانشوروں کی تحریروں میں پڑھا ہو گا کہ اگر انگریز کا بنایا ہوا سول انتظامیہ کا نظام اتنا مفید تھا تو ہمیں برطانیہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کیوں نظر نہیں آتے۔ اِس اعتراض کا جواب، صاحب فہم قارئین کو ہندوستان کے گزشتہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی تقریر میں ملے گا۔ اُنہوں نے 2005ء کے دوران انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے پروبیشنرز سے خطاب کیا، جس کا خلاصہ تھا کہ آپ ٹریننگ کے بعد، دور دراز علاقوں میں تعینات ہوں گے جہاں مختلف گروہوں اور قوموں میں ، مخصوص مفادات کی خاطر، طاقتور طبقے ، بے سہارا شہریوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستان کے سیاسی ادارے اتنے غیر جانبدار نہیں کہ عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ ایک غیر جانبدار انتظامیہ کا حصہ ہونے پر حکومت آپ سے توقع رکھتی ہے کہ آپ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔پاکستان بننے کے بعد ہماری سیاسی قیادت نے بھی 1947ء کے عبوری آئین اور 1956ء کے پہلے آئین میں انگریز کی انتظامی وراثت کو مکمل طور پر اپنا لیا۔ ایوبی حکومت سے انتظامیہ کی مسماری کا عمل شروع ہوا جو یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںبھی جاری رہا۔ ہمیں بحیثیت قوم 1973ء کے آئین پر اِسلئے فخر ہے کہ اُس نے پاکستانی وحدت کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اِس کارنامے پر قوم ذوالفقار علی بھٹو اور دُوسرے سیاست دانوں کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔ البتہ اِس آئین میں سول انتظامیہ کے حوالے سے جو تبدیلیاں کی گئیں، اُن کے منفی اثرات، اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔ آئندہ تحریروں میں سول انتظامیہ کے زوال کا ذکر جاری رہے گا۔ مجھے اِس موقع پر جون ایلیا کا ایک شعر یاد آ رہا ہے، ’’میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس..... خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘

تازہ ترین