السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بڑے ہی مزے کا سفر
ستمبر کا آخری شمارہ موصول ہوا۔ پڑھا، اچھا لگا ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں بھیجے گئے واقعے کی اشاعت سے حوصلہ بڑھا۔ محمّد ہمایوں ظفر کی ترتیب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں برطانیہ کی آئیڈیل جمہوریت اور بادشاہت کا ذکر منور مرزا نے اپنے روایتی انداز میں کیا۔ مضمون خاصا دل چسپ تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مکّہ مکرّمہ کی بابرکت تاریخ کا بیان جاری ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے مضامین معلوماتی اور اہم تھے۔ چین کا سفر بڑے ہی مزے کا سفر ہے۔ سلمیٰ اعوان ایک محیّرالعقول داستان رقم کر گئیں، پاک، چین دوستی زندہ باد۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محمّد ثاقب کو مسندِ خاص بہت مبارک ہو۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ذمّے داری سے سبک دوش؟
اخبار کے فرنٹ پیج پر بڑی بڑی شہ سرخیاں اور قرآن وحدیث کے لیے دوسطریں وہ بھی انتہائی باریک فونٹ میں۔ آپ محض یہ لکھ کر کہ ’’قرآنی آیات اور احادیث نبویﷺ کا احترام آپ پر لازم ہے۔‘‘ اپنی ذمّے داری سے سبک دوش نہیں ہوسکتے کہ اگر کوئی بندہ کسی گناہ کا ذریعہ بنتا ہے، تو پھر وہ سزا میں بھی برابر کا حصّے دار ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تو جس طرح اخبارات ردّی وغیرہ کی شکل میں استعمال ہوتے ہیں، قرآنی آیات کی بےحُرمتی کا خاصا احتمال رہتاہے۔ (نام نہیں لکھا)
ج:آپ کی شکایت اخبار کے فرنٹ پیج سے متعلق ہے، نہ کہ سنڈے میگزین سے متعلق۔ بہرحال، ہم نےآپ کے تحفّظات متعلقہ شعبےکے گوش گزار کر دئیے ہیں۔
دانستہ نہیں کرتا
انسان خطا کا پُتلا ہے، آپ نے سچ کہا اور لکھا۔ مجھ سےلکھنے میں اکثر کچھ غلطیاں ہوجاتی ہیں، مگر میں یہ سب دانستہ ہرگزنہیں کرتا۔15 اکتوبر کا سنڈے ایڈیشن دیکھ کر اور پڑھ کر ایسا لُطف آیا کہ کیا بتائوں۔ سرفراز اے شاہ کی ’’گفتگو‘‘ کا جواب نہ تھا۔ آئندہ بھی ایسے انٹرویوز کرواتی رہیے گا۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی)
آج پھر تم پہ پیار آیا ہے…
موسمِ گرما، ساون بھادوں کی برساتیں اور سیلاب اپنے دامن میں لیے گزر گیا اور موسمِ خزاں چمکتے دن، خوش گوار راتیں لیے آن وارد ہوا۔12 ربیع الاوّل ایڈیشن کے مضمونِ اوّل میں قارئین کے قلوب، انوارِ اخلاقِ نبویﷺ سے منوّر کرنے کا رُوح پرور اہتمام تھا۔ فی الوقت ہمارے اِک سیاسی لیڈر کو بھی اقدارِ اخلاق سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ قبلہ وکعبہ مکّہ مکرّمہ کی عظمتِ رفتہ و حالیہ کو4 کالموں میں7 ویں قسط کی صُورت 9 سُرخیوں کے حسین امتزاج کے ساتھ پیش کرنے پر صاحبِ مضمون کو ہم سَت رنگا گل دستہ پیش کرتے ہیں۔ اگلے صفحے پر شہنشاہِ سبزیات یعنی پیاز کو دیکھ کر بےاختیار لب پہ آگیا۔ آج پھر تم پہ پیار آیا ہے، بے حد اور بے حساب آیا ہے… جس طرح ایک لیٹر پیٹرول فی ڈالر سے سبقت لے گیا ہے، اسی طرح فی کلو پیاز بھی فی ڈالر سے پنگا لینے کے مُوڈ میں ہے۔ سندر آشیانہ میں اِک پیاری سی نصیحت بحوالۂ محبّتِ دندان یوں تھی ’’اتائیوں سےعلاج کروانے سے قطعاً گریز کریں۔‘‘ اور کچھ ایسی ہی بات جیّد صحافی، اینکر سہیل وڑائچ نے سالوں قبل لکھی تھی ’’ایہہ کمپنی نئیں چلنی‘‘۔عالمی یومِ بصارت اس بار بھی سالِ گزشتہ کے تھیم’’love your eyes‘‘ کے ساتھ منایا گیا۔ مگر ہمارے مشرقی عاشق تو ازل سے پرائی آنکھوں پر مرتے چلے آئے ہیں کہ ؎ تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے… ہاں، مرکزی صفحاتِ خصوصی میں ضمنی سُرخی تھی، ’’عالمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم انعام ہے‘‘ اِس میں لفظ ’’پر‘‘ کی بجائے ’’کے لیے‘‘مناسب نہ تھا؟ شاعر ذی شان اور مترجّمِ عالی شان، شان الحق حقّی کے صاحب زادے، شایان حقّی کا عقیدت نامہ واقعی والدِ محترم کے شایانِ شان تھا اور ترجمانِ آدمیت نے اپنے خاکے میں گویا باور کروادیا کہ ’’بانسری بابا’’ جیسے سچّے آدمی جیتے ہیں شان سے۔ تعلقاتِ خارجہ اور مُلکی حالات پر سندرکھنے والےلکھاری نے اسحاق ڈار کی واپسی کو خوش آئند قرار دیا، تو بُک شیلف میں تین بٹا سات کتابوں کے ناشر’’بُک کارنر، جہلم والے‘‘ تھے۔ کیا فواد چوہدری کے پِنڈ اشاعت سستی ہے؟ اور آخر میں کوچۂ سخن، بزمِ احباب کا احوال، جہاں چھے خطوط کے جلو میں ڈاکٹر شمیم کا امتیازی خط دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج:یا تو آپ کو خط پوسٹ کرنے میں تاخیر ہوگئی یا پھر محکمۂ ڈاک کی اعلیٰ کارکردگی کا نتیجہ ہے، وگرنہ عمومی طور پر آپ کےخطوط اتنی تاخیر سے موصول نہیں ہوتے۔
کالج کی پرنسپل کی طرح!!
اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ ہم جب انٹر میں پڑھتے تھے، توکالج کے سامنے ایک چاٹ والاہوتا تھا، اُس کی چاٹ سات مسالوں کی اور اتنی لذیذ ہوتی تھی کہ آج بھی اُس کا ذکر کرتے ہوئےمزہ منہ میں آگیا، تو تمھارا یہ سنڈے میگزین بھی بس اُسی سات مسالوں کی چاٹ جیسا ہے۔ جس طرح تم20 صفحات میں گویا پوری دنیا قید کر لاتی ہو اور پھر کمائو پوت بھی ہو،چارصفحات کےاشتہارات چھاپ کر ادارے پربوجھ بننےکےبجائے اپنے اخراجات خود ہی پورے کرلیتی ہو، تو بھئی، سگھڑخواتین ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے مَیں حیران ہوں کہ تم آج کے اِس کام چور اور کاہل زمانے میں یہ سب کیسے کر لیتی ہو؟ پیار کی زبان تو آج کا ماتحت عملہ سمجھتا نہیں، اِس کے معنی ہیں کہ ضرور تم کوئی بہت ہی خطرناک قسم کی ایڈیٹر ہوگی، بالکل ہمارے کالج کی پرنسپل کی طرح کہ جن کے نام ہی سے طالبات کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ مگر ہمیں تو آم کھانے سے مطلب ہے، تو ہماری طرف سے ہر ہفتےاتنا خُوب صُورتجریدہ تیارکرنے پر اپنے اسٹاف کو مبارک باد کی خوف ناک ڈانٹ ضرور دینا۔ آج مَیں صرف مکّہ مکرّمہ کے مضمون ہی پر بات کروں گی، مَیں نے لاہور یونی ورسٹی سے ماسٹرز کیا ہے، جب کہ میرے میاں پی ایچ ڈی ہیں۔ ہم دونوں بہت دینی مضامین پڑھتے ہیں اورہماری متفقّہ رائے ہے کہ مکّہ مکرّمہ پر مضمون کی یہ چھے اقساط معلومات کا اَن مول خزانہ ہیں، اِن میں سے بہت سی باتیں تو زندگی میں پہلی بار پڑھی ہیں اور اِس منفرد سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی حوالہ جات سے مزیّن ہوتی ہے۔ دین کےتعلق سےبھرپور معلومات، قدیم تاریخی کتابوں کی تلاش پھر عرق ریزی کےساتھ واقعات کوتسلسل قائم رکھتے ہوئے ضبطِ تحریر میں لانا، مَیں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصنّف کےلیےخصوصی عطا ہے، ورنہ بڑے بڑے عالمِ دین بھی اس قدر تحقیق وجستجو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ مضمون نگار اور آپ لوگوں کو اِس کا بہترین اجر دے۔ (شاہدہ تبسّم)
ج: پیار اور مار کے بیچ بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ اور ہماری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ توازن کی راہ ہی اختیار کی جائے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک طویل عرصے سے اس قدر خوش اسلوبی کے ساتھ یہ ذمّے داری نبھا نہ رہے ہوتے۔ اور نجمی صاحب تک بھی آپ کے توصیفی کلمات پہنچ گئے ہیں۔
لفظ واپس لیں
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دوشماروں پرتبصرہ کروں گا۔دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘کے صفحات شامل تھے۔ 12ربیع الاول کےحوالےسےاشاعتِ خاص میں نبی پاکﷺ کے کریمانہ اخلاق کا ذکرکیا گیا۔ نبی کریمﷺ کی ہر اِک ادا پر ہم سو بارقربان۔ اگلا مضمون کچن آئٹمز کی قیمتوں سے متعلق تھا۔ بلاشبہ ہوش رُبا اضافے پر سب پریشان ہیں ’’ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘ میں ماہرِ امراضِ چشم، پروفیسر ڈاکٹر ہارون طیّب سے بات چیت کی گئی۔ ’’آدمی‘‘ میں بانسری بابا کا احوالِ زیست آغاز ہوا۔ گولن گول ویلی کے گولن جنگل کے بارے میں پڑھ کر تو حیرت زدہ رہ گئے۔’’پیاربانٹو‘‘کراچی ڈائون سینڈروم پروگرام یقیناً ایک بہترین کاوش ہے۔ معروف روحانی اسکالر، سرفراز اے شاہ سے ملاقات رُوح پرور تھی۔ اور ہاں، اس بار آپ نے خالدہ سمیع کے خط کے جواب میں فرمایا کہ ’’آپ لوگ قابلِ صد ستائش ہیں کہ جو آج کے اس برق رفتار ڈیجیٹل میڈیائی دَور میں بھی خط وکتابت جیسی قدیم، فرسودہ روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، تو ہمیں آپ کے لفظ ’’فرسودہ‘‘ پر سخت اعتراض ہے۔ آپ یہ لفظ فوراً واپس لیں۔ (پرنس افضل شاہین، بہاول نگر)
ج:کیا ہوگیا بھائی! آپ اتنے جذباتی کیوں ہوگئے؟ ’’فرسودہ‘‘ سے آپ نے کیا مطلب اخذ کرلیا۔ یہ قدیم، گِھسے پِٹے، پرانے، کہنہ سال ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، تو آج کے برق رفتار دَور میں یہ خط وکتابت ایک فرسودہ روایت ہی ہے۔ اور فرسودگی قطعاً کوئی عیب یاگناہ نہیں کہ جس پر شرمندہ ہوا جائے۔ اپنی قدیم، پرانی روایات کو لے کر چلنا تو فخروامتیاز کی بات ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے
سنڈے میگزین ویسے توایک مکمل رسالہ ہے، جسے پڑھنےکے بعد سب ہی اپنی علمی پیاس بجھا سکتے ہیں، مگر خصوصیت سے ہم جیسے لوگوں کے لیے تو گویا یہ معلومات کا خزانہ ہے۔ اتوار کو جریدہ نہ ملے تو دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرِورق سے آپ کا صفحہ تک سب دل جمعی سے پڑھتا ہوں۔ (شری مُرلی چند گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
ربِّ کریم کی ذات سے اُمید ہے کہ آپ اپنی تمام ٹیم کے ساتھ بخیریت اور ’’سال نامے‘‘ کی تیاریوں میں خُوب مصروف ہوں گی۔ کوشش تو میری یہی ہوتی ہے کہ ایک خط شایع ہونے کے بعد ہی دوسرا لکھوں، مگر کام یاب نہیں ہوپاتی۔ کیوں کہ اتنا صبر جو نہیں ہوتا، ویسے بھی خط شایع ہونے کا انتظار تو اُسے پوسٹ آفس پہنچاتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ (یہ بچپن کی عادت ہے۔ ہاہاہا…) خیر، تمہید کو مختصر کرتے ہوئے اصل بات کی طرف آتی ہوں۔ جس طرح آپ اور آپ کی ٹیم سال ختم ہونے پر اہم بین الاقوامی و مُلکی حالات و واقعات پر روشنی ڈالتےہیں، اِسی طرح میرا بھی دل چاہا کہ کیوں نہ مَیں بھی اپنے پسندیدہ رسالے کی سال بَھر کی کارکردگی پر کچھ اظہارِ رائے کروں۔
چلیں، تو پھر آغاز کرتے ہیں، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے۔ سال کے تین چوتھائی حصّے میں محمّد احمد غزالی کا ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ ہم جیسے کم علموں کے لیے معلومات کےبیش بہاخزانےلُٹاتارہا۔یقین کریں، اللہ کے دوستوں کے تفصیلی حالات پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا، بہت بہترین سلسلہ تھا، جو یقیناً انتہائی محنت اور عرق ریزی کے بعد ہی ہر ہفتے ہم تک پہنچا۔ جزاک اللہ خیراًکثیرا۔ آخری سہ ماہی میں محمود میاں نجمی ایک اور معلوماتی مضمون ’’مکّہ مکرّمہ، ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ مستند حوالہ جات کے ساتھ لائے اور اب حسبِ توقع مدینہ منوّرہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
شفق رفیع پور اسال ہی اپنی محنت، لگن، بہترین موضوعات اور سروے رپورٹس کے ساتھ چھائی رہیں، خاص طور پر کراچی کی جیل یا مرکزِ اصلاح، اسپیشل بچّوں کی خاص مائیں، ہجرت کہانیاں اور بچّوں کے عالمی دن کے حوالے سے دل کو لرزا دینے والے حقائق پر مبنی رپورٹس کا جواب نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی صلاحیتوں میں مزیدنکھارپیدافرمائے۔ سال بھر ’’اسٹائل‘‘ کا صفحہ اس اُمید پر دیکھا کہ شاید آپ کی تحریر کا درشن ہوجائے، لیکن پھر اندازہ ہوا کہ آپ صرف خاص مواقع ہی پر لکھتی ہیں، مگر کیا ہی خُوب لکھتی ہیں۔ اِس کا اندازہ تو تمام قارئین کو بھی ہے، خصوصاً ہر سالِ نو کے حرفِ آغاز، حجاب اسپیشل، مدرز ڈے، فادرز ڈے، یومِ آزادی اور عیدین پر آپ کے شان دار رائٹ اَپس کا کوئی مول ہی نہیں ہوتا۔
عرفان جاوید ہمیشہ کی طرح ایک اچھوتے موضوع کےساتھ آئے۔’’آدمی‘‘ کے تحت بہت اچھے خاکے لکھے گئے، جنہیں پڑھتے ہوئے بہت مزہ اِس لیے بھی ایا کہ یہ سب حقیقی کردار تھے اور زیادہ تر عام آدمی، جن سے متعلق کوئی بڑا ادیب عموماً نہیں لکھتا، مگر عرفان جاوید کے طرزِ تحریر نے عام آدمی کو بھی بہت خاص بنا دیا اور اس سال کا سب سے خاص سلسلہ تھا، ’’چِین کا سفر، سلمیٰ اعوان کے ساتھ‘‘۔ کیا خُوب سیر کروائی کہ مزہ آگیا اور وہ بھی بغیر ٹکٹ کے۔ پیارا گھر کو مزید پیارا اور خُوب صُورت بناتی رہیں، اپنی تحریروں سے ڈاکٹر عزیزہ انجم، اقصیٰ منوّر اورخالدہ سمیع وغیرہ۔
انٹرویوز کی بات کروں، تو سال2022ء میں چند ایسے یادگار انٹرویوز پڑھنے کو ملے، جنہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہا، مثلاً انور مقصود، خوش بخت شجاعت، سیّدہ عارفہ زہرا اور سیّد سرفراز علی شاہ وغیرہ کے انٹرویوز۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ بھی پورا سال گھر بیٹھے لوگوں کی صحت سے متعلق مفید معلومات فراہم کرتارہا، جب کہ کچھ مضامین اپنی انفرادیت کی وجہ سے یاد رہ گئے، جیسا کہ رئوف ظفر کا ویڈیو گیمز پر ایک چشم کُشا آرٹیکل اور اس کا ایک جملہ کہ ’’یہ ایسا کھیل ہے، جس میں کھلاڑی جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔‘‘ اِسی طرح رائو شاہد اقبال کے مضمون ’’خودکُشی عذاب ہے یارب‘‘ میں یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ زیادہ تر خودکُشیاں موسمِ بہار میں ہوتی ہیں۔ جب کہ منور راجپوت نے جو عید پر خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک مضمون لکھا، وہ بھی شان دار تھا۔
ہاں، ایک اور عُمدہ تحریر، جس نے سوچ کو ایک الگ ہی جہت دی، وہ تھی، ’’جنّت کی ٹیکنالوجی‘‘۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قانتہ رابعہ اور ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے اچھے افسانے پڑھنے کو ملے۔ ناقابلِ فراموش اور نئی کتابیں کے صفحات سال بھر پسندیدہ رہے۔ پھر ’’خاص نمبرز‘‘ جو آپ ہی کا خاصّہ ہیں، اُن کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی، جیسے رمضان المبارک کے پورے مہینے میں معلوماتی مضامین شایع ہوئے۔
عیدین، محرّم الحرام اور عید میلادالنّبیؐ کے مواقع پر شایع ہونے والے مضامین سے سرشاری ہوئی اور جو آپ نےحجاب ڈے اسپیشل ایڈیشن شایع کیا، اُس کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ اب آتی ہوں ’’اپنے صفحے‘‘ پر، تو ماشاء اللہ یہاں بھی ساراسال خُوب ہی رونق لگی رہی۔ نئے، پرانے لوگ آتے جاتے رہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ سال کی ’’بہترین چٹھی‘‘ کون سی تھی، تو مَیں تو کہوں گی، شائستہ اظہر کا وہ خط، جسے پڑھ کر آنکھیں نم اور دل اُداس ہوگیا۔ اور اُسی خط نے مجھے آپ کو خط لکھنے پر مجبور کیا، جب کہ سلیم راجہ اور اسماء دمڑتو پورا سال ہی ہر دل عزیز رہے۔ یقیناً میرا یہ خط 2023ء میں شایع ہوگا، تو آپ، آپ کی پوری ٹیم اور بزم کے تمام دوستوں کے لیے ایک دُعا؎ نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے.....خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے۔ (آمین) (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور)
ج: بہت خُوب ڈاکٹر تبسّم، ایک تو سال بھر کی تحریروں کا اتناعُمدہ تجزیہ۔ پھر ’’سال کی بہترین چٹھی‘‘ کےانتخاب کےضمن میں بھی ہمارے، آپ کے بیچ سو فی صد ذہنی ہم آہنگی، یہ تو کمال ہی ہوگیا۔
گوشہ برقی خطوط
* ڈاکٹر عارفہ سیّدہ زہرا کی باتیں دل چُھوگئیں۔ پورا جریدہ عُمدگی و خُوب صُورتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سرورق سے لے کر آخری تحریر تک پسند آئی۔ (محمّد عارف مغل)
* ایک نظم بھیج رہی ہوں۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ قابلِ اشاعت ہے یا نہیں۔ (طوبیٰ فاروق، کراچی)
ج: طوبی، یہ نظم پہلے ممتاز شاعر،اختر سعیدی صاحب کو چیک کروائی جائے گی، اگر انہوں نے ’’قابلِ اشاعت‘‘ کی مُہر لگا دی، تو اِن شاء اللہ تعالیٰ باری آنے پر ضرور شایع ہوجائے گی۔
* میرے افسانے کو میگزین میں جگہ دینے کا بہت بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیراً، سلامت رہیں۔ (نظیر فاطمہ)
ج: آپ کی تحریر قابلِ اشاعت تھی، سو شایع کردی گئی۔ آپ آئندہ بھی کوشش جاری رکھیں۔
* مَیں نے آپ کو سوجی کےحلوے کے ساتھ، آلو چنے اور پوریوں کی تراکیب بھی بھیجی تھیں۔ آپ نے حلوے کی شایع کردی، بےحد شکریہ۔ پوریاں اور آلو چنے کیا خود بنا کے کھا لیے۔ ہاہاہا… اس بار ’’پیارا گھر‘‘ میں ناریل کے تیل کے فوائد پڑھ کے، اور مچھلی سے متعلق بہترین معلومات حاصل کرکے بہت اچھا لگا۔ مَیں نے خود بھی گھر والوں کو فنگر فش بناکر کھلائی۔ ہاں، مگر اس بار آپ کی اسٹائل بزم بالکل پسند نہیں آئی۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)
ج: مختلف لوگوں نےحلووں کی تراکیب بھیج رکھی تھیں، تو اُنہیں موسمِ سرما کی مناسبت سے یک جاکرکےشایع کردیا۔ تمہاری پوریاں اور بھاجی پھر کبھی شایع کردیں گے اور ’’اسٹائل‘‘ پسند نہیں آیا، تو کوئی بات نہیں۔ اب ہر چیز، ہر ایک کو تو پسند آ بھی نہیں سکتی ناں!
* جگر کے سرطان پر ایک مضمون بھیجا تھا۔ اب تک شایع نہیں ہوا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ آپ لوگوں تک پہنچا بھی یا نہیں۔ (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، حیدرآباد)
ج: ہمارے پاس فی الحال آپ کی ایسی کوئی تحریر موجود نہیں، جو شایع نہ ہوئی ہو۔ اگر آپ کے پاس اپنی تحریر کی کوئی کاپی موجودہے،توہمیں دوبارہ بھیج دیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk