• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 8)

عشاء کے بعد بستی نظام الدّین سے نکلے اور ٹیکسی راج پاٹھ کے علاقے میں پہنچ گئی، اب اس علاقے کو راج پاٹھ کہتے ہیں، برطانوی دَورِحکومت میں یہ علاقہ ’’کِنگز وے‘‘ کہلاتا تھا۔ راج پاٹھ ہی میں ’’انڈیا گیٹ وار میموریل‘‘، ’’راشٹر پتی بھوَن (ایوانِ صدر)‘‘ ،’’انڈین پارلیمنٹ‘‘ اور ’’سینٹرل سیکرٹریٹ‘‘ ہیں۔ اورنگزیب روڈ کو اب جمہوریہ ٔہند کے سابق راشٹر پتی (صدر) اے پی جے ابوالکلام کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے، مگر لوگوں کی یادداشت کا کیا کریں کہ نئے ناموں سے زبان اور سماعتوں کو مانوس ہوتے دیر لگتی ہے، تو آج بھی بھارتی عوام اس روڈ کو ’’اورنگجیب روڈ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اورنگزیب عالم گیر جیسا بادشاہ ہندوستان میں دوبارہ کبھی نہیں آیا۔ 

حضرت مجدّد الف ثانی نے اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی کی ڈَٹ کے مخالفت کی تھی اور اکبر کے سیکولر نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے احیائے دین کی تحریک برپا کی تھی۔ اورنگزیب عالم گیر، حضرت مجدّد الف ثانی سے عقیدت رکھتا تھا اور یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اُن کی آل اولاد میں سے خواجہ معصوم کا مرید ہو گیا تھا۔ چوں کہ مجدّد الف ثانی سختی سے اسلامی اقدار کی ترویج و اشاعت کے حق میں تھے اور اورنگزیب بھی اس فکر سے متاثر تھا، تو ہندوؤں کے خیالات اورنگزیب عالم گیر سے متعلق خاصے منفی ہیں۔ اس نے اپنی غیر مسلم رعایا پہ حفاظت کے لیے جزیہ ٹیکس بھی عائد کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت بھی اس سے کدورت رکھتی ہے۔

ٹیکسی راشٹر پتی بھوَن کی عمارت کے سامنے جا رُکی، جو ایک سیر گاہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ اونچے ستونوں والی، بدھ اسٹوپا سے ملتے جُلتے گنبد کی حامل اس عمارت کے معمار سر ایڈون لیوٹن تھے اور اس کی تعمیر کا آغاز 1912 ء میں ہوا تھا۔ اُس زمانے میں یہ بطور وائس رائے ہاؤس تعمیر کی گئی تھی، جہاں کبھی کشورِ ہند کا برطانوی لاٹ صاحب غرور و تکبّر اور طنطنے کے ساتھ بیٹھتا تھا، آج وہی گھر ایک قبائلی عورت(بھارتی صدر، درو پدی مرمو) کی قیام گاہ ہے۔ 1911 ء میں کنگ جارج پنجم نےدہلی دربارمنعقد کیا اور دار الحکومت کلکتہ(موجودہ کولکتہ)سےدہلی منتقل کرنےکا اعلان کیا۔ 

یوں 1912 ء میں دہلی ایک بار پھر ہندوستان کی راج دھانی بن گیا، کیوں کہ کلکتہ ان دنوں تقسیمِ بنگال کے نتیجے میں ہنگاموں کی زَد پہ تھا۔ دہلی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہےکہ جس کسی نے بھی اس راج دھانی میں کسی نئے شہر کی بنیاد ڈالی، وہ برباد ہو گیا۔ مہابھارت کے دَور کے پانڈو ہوں، پِرِتھوی راج چوہان، فیروز شاہ تغلق ہو یا شہاب الدّین شاہ جہاں،جس جس نے دہلی میں نیا شہر آباد کیا، اس نے اپنے ہاتھ سے اپنے زوال کی بنیاد رکھی۔ سر ایڈون لیوٹن نے جب نیو دہلی کا شہر مکمل کیا، تو ہندوستان میں برطانوی راج کی عمارت بھی منہدم ہونا شروع ہو گئی۔ وقت گُھن کی طرح تاجِ برطانیہ کا عروج چاٹ گیا اور برّصغیر کی زمین پہ دو آزاد ممالک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے۔

راشتر پتی بھوَن رات میں بند ہو جاتا ہے، تو اُس کے دروازے پہ کھڑے ہو کے ہم دیر تک یہ پُرشکوہ عمارت دیکھتے رہے۔ پھر ٹیکسی میں جا بیٹھے اور ٹیکسی نئی دہلی سے پرانی دہلی شاہ جہاں آباد کی طرف چل پڑی۔ راستےمیں بہادر شاہ ظفر روڈ پہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد میڈیکل کالج‘‘ کی عمارت پہ نظر پڑی، جس سے کچھ فاصلے پہ لوک نائک ٹیچنگ اسپتال ہے،جو کسی زمانے میں ارون اسپتال کہلاتا تھا۔ انگریزوں نے وائس رائے ہند لارڈ ارون کے نام پہ یہ اسپتال قائم کیا تھا۔ لارڈ ارون1926 ء سے1931 ء تک وائس رائے ہند رہا اور اُسی کے دَور میں نیو دہلی کے نئے شہر کا افتتاح بھی ہوا، جسے نیو دہلی کے آرکیٹکٹ سر ایڈون لیوٹن کے نام پہ لیوٹن کی دہلی بھی کہتے ہیں۔ 

بعد میں ارون اسپتال کو کانگریسی رہنما جے پرکاش لوک نائک کے نام پہ لوک نائک اسپتال کردیا گیا۔ جے پرکاش لوک نائک نے ایمرجینسی کے دوران اندرا گاندھی کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی۔ بہادر شاہ ظفر روڈ سےگزرتے ہوئے پرانی دلّی کے دہلی دروازے پر پہنچے، یہاں سے دریا گنج روڈ کا آغاز ہوتا ہے، اسی روڈ پہ کہیں عمارتوں کے جنگل میں سر سیّد احمد خان کی حویلی بھی ہے۔ دریا گنج سے ہوتے ہوئے برج موہن چوک سے گزرے پھر گاڑی لال قلعے کی پارکنگ میں جا رُکی۔ پارکنگ کے سامنے ہی مغلی ٔدَور کی چھوٹی سے مسجد ہے، جسے ’’سنہری مسجد‘‘ کہتے ہیں۔ 

کریم ہوٹل
کریم ہوٹل 

شاہ جہاں آباد شہر کی روشنیاں جل اُٹھی تھیں۔ ان روشنیوں میں اس سنہری مسجد کے گنبد کسی ہلکے سے ہیولے کی طرح نظر آئے۔ برقی قمقموں کے جگنو قلعۂ معلی کی سنگی فصیل پہ بھی جگمگا رہے تھے۔ ان روشنیوں میں لال قلعہ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح سجا، سنورا لگ رہا تھا۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب قلعہ معلی کے اقتدار کے سامنے پورا ہندوستان کابل تک سرنگوں تھا اور ایک وہ دَور بھی آیا کہ خاندانِ تیموریہ کاکشورِ ہند پہ حاکم آخری چشم و چراغ سراج الدّین محمّدبہادر شاہ ظفر دہلی کے انگریز ریزیڈنٹ سے وظیفہ پانے پہ مجبور تھا۔ پھر چشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ وہی تاج دار اسی قلعے سے انتہائی یاس کے عالم میں رخصت ہوا اور اس کے ساتھ ہی مغل اقتدار نے بھی لال قلعے کی فصیلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا اور ہندوستان پر مسلمانوں کی لگ بھگ ایک ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔

لال قلعہ بھی اُس وقت تک بند ہوچُکا تھا،سو ہم لوگ ٹیکسی سے اتر کر آٹو رکشےمیں سوار ہو کر جامع مسجد،دہلی کی طرف چل پڑے، کیوں کہ ٹیکسی والے نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’جامع مسجد کے بازار میں رَش کی وجہ سے گاڑی وہاں تک لے جانا ممکن نہیں۔‘‘لال قلعے کی پارکنگ کے بالکل قریب ہی سڑک کی دوسری طرف ایک باغ نظر آیا،جسے ’’پردہ باغ‘‘ کہتے ہیں۔ اس باغ کا ذکر خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ’’سیرِ دہلی‘‘ میں بھی کیا ہے کہ پردہ دار عورتیں یہاں شام میں سیر کیے لیے آتی تھیں، تو اس لیے باغ کا نام پردہ باغ پڑگیا۔دریا گنج سے آگے جائیں، تو دائیں ہاتھ بہت بڑا پارک ہے، جسے ’’نیتا جی سبھاش چندر بوس پارک‘‘ کہتے ہیں۔ 

یہ بھی انگریزوں کے زمانے کا پارک ہے، جو اس زمانے میں ’’ایڈورڈ پارک‘‘ کہلاتا تھا۔ اُسی روڈ پر بائیں ہاتھ پر’’کاستروبا گاندھی اسپتال‘‘ آگیا۔ کاستروبا گاندھی، مہاتما گاندھی کی بیوی تھیں، انگریزوں کے زمانے میں یہ ’’وکٹوریا زنانہ اسپتال‘‘ کہلاتا تھا۔ ویسے ایک بات تو ہے کہ ہمارے ہم سائے نام تبدیل کرنے میں ہم سے دو ہاتھ آگے ہی ہیں۔ اس سڑک پہ بے انتہا رَش تھا۔ یہاں کے رکشے والوں کی عادات و اطوار، طرزِ تکلّم و گفتار ہُو بہو لاہور کے رکشے والوں کی طرح تھا۔ خیر، ہم جامع مسجد کے گیٹ نمبر ایک ’’بابِ عبداللہ‘‘ پہ رکشے سے بمشکل اُترے اور کرایہ دینے کے بعد ’’مٹیا محل بازار‘‘ کی بِھیڑ میں گُم ہوگئے۔ ہم دلّی کے کُوچوں میں تھے، جن سے متعلق میرؔ صاحب کہہ گئےکہ ’’اوراقِ مصوّر‘‘ ہیں۔ مٹیا محل بازار کوپرانی دلّی، شاہ جہاں آباد کی فوڈ اسٹریٹ کہہ لیں۔ دونوں طرف کھانوں کے ہوٹل، مٹھائی کی دُکانیں اور چائے کے کھوکھے تھے۔ مخلوقِ خدا ہجوم کی صُورت اس بازار میں پِھرتی تھی۔ 

رات کے اس پہر بھی ہوٹلوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جب پوچھا کہ’’بہترین کھانا کہاں ملے گا؟‘‘تو جواب ملا ’’مٹیا محل میں آغا کریم کے ہوٹل چلے جائیں۔‘‘ کافی تلاش بسیار کے بعد ایک پتلی سی گلی میں کسی پوشیدہ راز کی طرح چُھپا ہوا ہوٹل ملا اور تھوڑے انتظار کے بعد بیٹھنے کی جگہ بھی مل ہی گئی۔ ’’قریباً سو سال سے اوپر ہو چُکے ہیں اِسے بنے ہوئے۔‘‘ ہلکے سبز رنگ کی شرٹ اور جالی والی پتلون پہنے ریسٹورنٹ کے ایک بیرے نے بتایا۔ہم نے قورما، دال ماش اور نہاری کا آرڈر دیا، ساتھ سلاد طلب کی، تو ایک کشتی میں کٹی ہوئی پیاز آگئی۔ 

رائتے کا پوچھا، تو دو قابوں میں پودینے کی پتلی سی ہری چٹنی لاکے رکھ دی اور کہہ دیا کہ ’’ہمارے یہاں رائتے اور سلاد کے نام پہ یہی کچھ دست یاب ہے۔‘‘ چٹنی میں نمک اتنا تیز تھا کہ ایک چمچ چکھتے ہی زبان، کانِ نمک بن گئی۔ خیر، سالن کی پلیٹیں آن پہنچیں،ساتھ خمیری نان نُما تندوری روٹیاں بھی تھیں۔ درگاہ نظام الدّین کے لنگر کی بریانی کب کی ہضم ہو چُکی تھی،تو بھوک کی اس چمک کے سامنے بیروں کی نوابی، سلاد اور رائتے کی تلخی کے باوجود کھانا دعوتِ شیراز ہی لگا۔ پھر ریسٹورنٹ کا بِل دیا، کاؤنٹر پہ رکھی سونف اور مِصری کھائی اور باہر کا رُخ کیا۔ اب چائے کی طلب نے زور پکڑا۔ ’’چائے کہاں سے پی جائے؟‘‘ ہم نے اپنے ساتھی قادر گُل سے پوچھا۔ قادر نے کہا،’’باہر نکل کے کسی سے پوچھتے ہیں کہ اچھی سی چائے کہاں سے ملے گی۔‘‘

چائے کی تلاش میں ہم لوگ مٹیا محل بازار کی بھیڑ کا حصّہ بن گئے، کہیں اگر عُمرِ رفتہ کی کتاب میں سےبچپن کا باب کھولیں، تو وہ راتیں جھانکنے لگتی ہیں، جب ابّا جی چارپائی پہ تکیوں سے ٹیک لگائے، رات رات بَھر کتابوں کی ورق گردانی کرتے رہتے تھے۔ بتّی چلی جاتی، تو دیا سلائی رگڑ کے لالٹین یا لیمپ روشن کر لیتےاور پھر لالٹین کی پھڑپھڑاتی روشنی کتابوں کے صفحوں پہ رقص کرتی اور ابّاجی کتابوں کے ورق الٹتے چلے جاتے۔ ابّا کی کتابیں چارپائی کے پاس میز پہ دھری ہوتیں، تو ہم بھی اُن میں سے ایک آدھ کتاب اچک لیتے اور اس کے صفحوں میں گم ہوجاتے۔ ایک مرتبہ، بہت بوسیدہ سی کتاب ہاتھ لگی، جسے پڑھ کر دل میں ٹیسیں سی اُٹھتی تھیں، ایک ایک صفحہ درد کی داستانیں سُناتا تھا۔ 

راشٹر پتی بھوَن (ایوانِ صدر)
راشٹر پتی بھوَن (ایوانِ صدر) 

کتاب کا نام ’’بیگمات کے آنسو‘‘ تھا اور مصنّف خواجہ حسن نظامی تھے، اسی دلّی کے رہنے والے۔ بیگمات کے آنسو میں انہوں نے غدر کے بعد مغلیہ خاندان کے شہزادوں پہ گزرنے والے کڑے وقت کی درد و الم سے بھرپور کہانیاں تحریر کی ہیں،بعد میں وہ کتاب کہیں گُم ہو گئی، بالکل اُسی طرح، جیسے بچپن کے سنہرے دن وقت کی دیوی کےچُھومنتر سے کہیں ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہوجاتے ہیں۔ اُسی کتاب کی پہلی کہانی ’’بھکاری شہزادے‘‘ کی کہانی تھی، جس میں ہم نے پہلی دفعہ دلّی کا ذکر سنا اور مٹیا محل بازار کے نام سے شناسا ہوئے۔ تو بچپن، جو ماضی کے دھندلکوں میں کہیں گُم ہو چُکا تھا، آج مٹیا محل بازار میں پھر سے ذہن کے دریچوں سے جھانکنے سا لگا۔ 

خواجہ حسن نظامی اس کہانی میں بیان کرتے ہیں۔ ’’جامع مسجد، دہلی سے جو راستہ مٹیا محل اور چتلی قبر بازار سے ہوتا ہوا دہلی دروازے جاتا ہے۔ وہاں ایک محلّہ کلو خواص کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ جس محلّے سے رات کے اندھیرے میں ایک فقیر بھیک مانگنے کے لیے نکلتا ہے۔ بہت بلند اور دردناک آواز میں بھیک مانگتا ہے، دن کے وقت اسے کبھی بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔ یہ فقیر، شہزادہ قمر سلطان تھا، بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سگا نواسا۔ کسی نے پوچھا، مرزا! تم دن کو باہر کیوں نہیں آتے؟تو شہزادے نے جواب دیا،جن بازاروں میں میری اچھی صُورت اور شان دار سواری کی دھوم مچا کرتی تھی، اُن بازاروں میں یہ بُری صُورت اور یہ حالت لے کر دن کے وقت نکلتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘ 

جب کہانی کے آخر میں اس سے استفسار کیا جاتا ہے کہ ’’غدر سے پہلے اور بعد کیا گزری؟‘‘ تو قمر سلطان ٹھنڈی آہ بھر کے جواب دیتا ہے،’’کچھ نہ پوچھو، خواب دیکھ رہا تھا، آنکھ کُھل گئی، اب جاگ رہا ہوں اور وہ خواب پھر کبھی نظر نہیں آیا،نہ اُس کے نظر آنے کی امید ہے۔‘‘ یہ افسانہ ہم نے بار بار پڑھا تھا، تو مٹیا محل بازار کی اس گرم رات میں ہمیں ہر چاپ شہزادہ قمر سلطان کی چاپ لگتی تھی اور ہر آہٹ اس کی لاٹھی ٹیکنے کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ ہم دیدہ عبرت نگاہ سے ماضی کی اس دردناک تصویر کو اس پُر ہجوم گلی میں تصوّر ہی تصوّر میں دیکھتے رہے اور وقت کی نیرنگی پہ حیران ہوتے ہوئے، چتلی قبر بازار کی طرف چل دئیے۔

چتلی قبر بازار میں جب ایک دو لوگوں سے چائے کے متعلق دریافت کیا کہ کہاں سے اچھی ملے گی، تو سب نے کریم ہوٹل والی گلی کےسامنے حاجی چائے والے کی دُکان کا بتایا۔ اُلٹے قدموں واپس مٹیا محل بازار میں کریم ہوٹل کی گلی کے پاس پہنچے ۔ اس کے سامنے ہی چائے کی ایک چھوٹی سی دُکان تھی، جہاں ایک کڑاہی میں دودھ اُبل رہا تھا۔ چولھے پر چائے کا برتن رکھا تھا، جس میں طلائی اورخاکستری رنگوں کے امتزاج سے بننے والا ایک مشروب اُبل رہا تھا۔ اس چائے کی لپٹیں بازار تک آکر اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ چائے کے برتن کے پاس ہی ایک بڑے خوان میں نہایت ہی خُوش نُما شاہی ٹکڑا سجا ہوا تھا۔ 

ہم لوگوں نے اسپیشل دودھ پتی آرڈر کی، پندرہ منٹ میں چائے کے چھوٹے کپ، جن سے اُٹھتی بھاپ ہی رُوح کوسرشار کرنے کے لیےکافی تھی، ہماری میزپہ آپہنچے۔ کپ اتنے چھوٹے تھے کہ قادر گل نے، جو لڑکا چائے رکھ کر گیا تھا، اُسے تمام لوگوں کے لیے دو دو کپ اور دودھ پتّی لانے کو کہا۔ چائے پی کے وہاں سے پہاڑ گنج ہوٹل کے لیے آٹو رکشا پکڑا اور دلّی میں اپنے عارضی ٹھکانے کی طرف چل دیئے۔حاجی کی چائےکی لذّت لبوں پہ باقی تھی بلکہ سرشار کر رہی تھی، پھر اسی سرشاری کے عالم میں اپنے ہوٹل پہنچے اور بستر پر ڈھیر ہوگئے اور ڈھیر ہوتے ہی نیند نے یوں آجکڑا کہ دنیا و مافیہا کی کوئی خبر ہی نہ رہی۔ (جاری ہے)