• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 7)

امیر خسرو کے مزار کی جالیوں سے جو رنگ برنگے دھاگے بندھے تھے، وہ صرف دھاگے ہی نہیںتھے،بلکہ ہزاروں خواہشیں، لاکھوں ارمان،دُعائیں اور آرزوئیں تھیں، جو ان دھاگوں کی گرہ میں بندھی جانے کب سےتکمیل کی منتظر تھیں۔ہم نے ایک دھاگا کھولا اور سوچا کہ شاید جس نے یہ دھاگا باندھا ہوگا، اُس کی نظریں اپنے محبوب کی نظرِ التفات کی منتظر ہوںگی یا کسی بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے باندھا ہو،شاید کسی نوجوان نے نوکری کے حصول یا امتحان میں کام یابی کے لیے باندھا ہو۔ 

خیر، ہم نے دستِ دُعا بلند کیے اور اُس کے لیے، جس نے دھاگا باندھا تھا ، دل کی گہرائیوں سے دُعا کی کہ اس کی خواہش ضرور پوری ہو جائے اور وہ دھاگا اپنی جیب میں رکھ لیا کہ جب بھی ہماری نظر اس پر پڑے گی،تودھاگا باندھنے والے کے لیے دُعا کیا کریں گے۔پھر اُن سب دھاگوں کو ایک بار پھر دیکھا اور سوچا کہ مزار کی جالیوں سے بندھے دھاگے اگر خواہشیں، تمنّائیں پوری کرسکتے،تو زندگی کی ساری دَوڑ دھوپ، تگ و دو بےکار ہی رہ جاتی۔

خسرو کی لحد کے پائنتی پر کھڑے ہو کرفاتحہ خوانی کے بعد ہم مزار کو ٹِکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ اتنے میں لوگوں کی ایک بھیڑ مزار کے اندراُمڈ آئی۔بھیڑ میں دھکّے کھاتے ہم کچھ اور دیر اس لحد کو تکتے رہے اور پھر باہر آگئے۔امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاکے مزار کے درمیان شامیانہ نصب تھا،جس کے نیچے محفلِ سماع جاری تھی۔ قوالوں کی پارٹی تالیاں پیٹتے ہوئے اور طبلے اور ہارمونیم کی لے پہ’’؎ آج رنگ ہے ری ماں، رنگ ہے ری ‘‘گا رہی تھیں۔

بچپن کے دن تھے، ٹی وی پہ ناہید خانم کی کھنکتی ہوئی آواز میںایک گیت گونجتا تھا۔ اس خُوب رُو،خوش گلو کی آواز میں گیت ’’چھاپ تلک سب چھین لی رے ،مو سے نیناں ملائی کے‘‘، جس کےمعنی تو اُس وقت سمجھ نہیں آتے تھے،مگر الفاظ کی تاثیر اُس وقت بھی روح میں اُتر کر وجد کی سی کیفیت طاری کر دیتی تھی۔امیر خسرو کا یہ کلام آٹھ سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی زندہ اور اُسی طرح تر و تازہ ہے۔ ہم نے خسرو کے مزار کے سنگِ مَرمَر کے محرابی دَر میں کھڑے ہو کے الودعی نظروں سے چادروں میں لپٹی لحد کو دیکھا، تو دماغ میں خسرو کے گیت کے الفاظ گونجنے لگے۔ سچ کہیں تو ایک وجد کی سی کیفیت میں ہم ایک بار پھر حضرت نظام الدّین اولیاکے مزار کی طرف چل پڑے، جہاں لوگوں کا ایک جمِ غفیر درگاہ پہ حاضری کے لیے پہنچا ہوا تھا۔ دن کو بھی ہم درگاہ پہ گئے اور رات کو بھی۔واقعی سلسلۂ عشق و شوق کو دن رات سے کچھ لینا دینا نہیںہوتا۔ خلقت ہے کہ دن اور رات کی تخصیص کے بغیر دلی کے اس سلطان کی طرف کھنچی چلی آتی ہے۔

مزار کے بغل میں بادشاہ علاؤالدّین خلجی کی سنگ ِسُرخ سے بنوائی مسجد نظر آئی۔ اس مسجد کے تین گنبد تھے۔پوچھنے پر پتا چلا کہ علاؤ الدّین نے ایک گنبد والی یہ عمارت حضرت نظام الدّین اولیاکی زندگی میں ان کے مزار کے لیے وقف کرکے اسی نظریے سے تعمیر کروائی تھی، لیکن جب حضرت نظام الدّین اولیا کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے کہا ’’مَیں کُھلے آسمان تلے دفن ہونا پسند کروں گا۔‘‘ جہاں اب مزار کی عمارت ہے، پہلے یہاں پہ ایک تالاب تھا۔ جب سلطان المشائخ نے داعیِ اجل کو لبّیک کہا تو اس تالاب کو مٹّی سے بھر کر اس جگہ انہیں دفن کردیا گیا۔ 

درگاہ، حضرت نظام الدّین اولیاؒ
درگاہ، حضرت نظام الدّین اولیاؒ

کئی سو سال تک یہ قبر گنبدِ نیلوفری کے نیچے بغیر کسی مقبرے یا مزار کے لوگوں کی عقیدت کا مرکز و محوررہی،پھر مغل بادشاہ جلال الدّین اکبر نے مزار کی موجودہ عمارت تعمیر کروائی۔پہلے یہ کُھلی چھت کا مقبرہ تھا،گنبد بعد میں تعمیر کروایا گیا۔ علاؤ الدّین خلجی نے جو عمارت مقبرے کے لیے تعمیر کروائی تھی، اس کے بیٹے نے اس کے ساتھ دو مزید گنبد بنوا کے اسے مسجد بنا دیا۔اورآج آٹھ سو سال گزر نے کے باوجود بھی یہ مسجد اُسی شان و شوکت،آن بان اورشان کے ساتھ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی گواہی دیتی ہے، جیسی اس دَور میں تھی۔

حضرت نظام الدّین اولیا بدایوں میں پیدا ہوئے، اُن کے آبا ؤاجداد کا تعلق بخارا سے تھا۔ جب چنگیز خان کی شمشیر ہلاکت خیز بخارا و سمرقند میں کُشتوں کے پشتے لگا رہی تھی، تو اس قیامت خیز شورش کے زمانے میں ان کے اجداد ہجرت کرکے لاہور میں آباد ہوگئے۔حضرت نظام الدّین اولیا کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے سر زمینِ ہند میں تصوّف کا بُوٹا لگایا،اسے اپنے خون پسینے سے سینچا اور اس کی آب یاری کی۔ ان کی ان تھک محنت اور جدّو جہد سے لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ تصوّف کے سلسلۂ چشتیہ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔حضرت نظام الدّین اولیا نے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور تصوّف کا پیام عام کرنے میں وقف کردی اور اپنے کام سے اس حد درجہ اِخلاص برتا کہ ذاتی زندگی کو اس پہ قربان کردیا، یہاں تک کہ شادی بھی نہیں کی۔ 

یہی وجہ ہے کہ ان کی درگاہ کے تمام سجّادہ نشین،ان کی بہن کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت نظام الدّین اولیانے لگ بھگ نوّے برس کی طویل عُمر پائی،اس دوران یکے بعد دیگرے سات بادشاہ دہلی کے تخت پہ جلوہ افروز ہوئے،جن میں غیاث الدّین بلبن، معزالدّین ،جلال الدّین خلجی، علاؤالدّین خلجی،قطب الدّین مبارک شاہ خلجی،خسرو خان اور غیاث الدّین تغلق شامل ہیں۔ مگر یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر و توجّہ ہے کہ دہلی کے تختِ شاہی پر چاہے کوئی بھی بیٹھا ہو، مگر لوگوں کے دلوں پہ ہمیشہ حکومت سلطان المشائخ حضرت نظام الدّین اولیاہی کی رہی۔ان کی خاص بات یہ تھی کہ بادشاہوں کی قربت اور رفاقت سے ہمیشہ ہی دُور بھاگتے تھے۔

یقین جانیں کہ ہم نے جب جب درگاہ پہ حاضری دی، تو دل کی کیفیات کچھ عجیب ہی سی تھیں۔دل میں اس ہستی کے لیے خودبخود عقیدت کے جذبات اُمڈ آتے تھے، جس نے ہمیشہ گرتے ہوؤں کو تھاما،مظلوموں کا ساتھ دیا اورتخت و تاجِ شاہی کو جوتے کی نوک پہ رکھا۔ درگاہ کے سجادہ نشین، دیوان طاہر نظامی ،جو ہمارے ساتھی فیض رسول کو جانتے تھے،جب ان کی نظر فیض پر پڑی تو کمال محبّت اور اپنائیت سے ملے، پھر جب ہم سے تعارف ہوا، تب بھی ایسی محبّت و شفقت کا برتاؤ کیا، جیسے پرانے ملنے والے ہوں۔ ہمیں اپنی معیت میں حضرت نظام الدّین اولیا کی باؤلی کی زیارت کروانے لے گئے۔ یہ باؤلی یا تالاب درگاہ کے قریب ہی ہے،جسے دیکھنے کی ہماری بڑی خواہش تھی کہ اس کا ذکر خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ’’سیرِ دہلی‘‘ میں بھی کیا ہے۔

علاؤ الدّین خلجی مسجد
علاؤ الدّین خلجی مسجد

طاہر نظامی نے بتایا کہ جب اس باؤلی کی کُھدائی و تعمیر جاری تھی، تو اسی وقت بادشاہ غیاث الدّین تغلق اپنا محل بھی تعمیر کروا رہا تھا۔ چوں کہ بادشاہ سلطان جی سے عداوت رکھتا تھا،اس لیے اس نے دہلی کے سارے مزدور محل کی تعمیر میں لگا دیئے تا کہ کوئی بھی مزدور باؤلی کی تعمیر میں حصّہ نہ لے سکے۔اس طرح مزدور جبراً سارا دن محل کی تعمیر میں حصّہ لیتے اور رات کو چراغوں کی روشنی میں بے انتہا محبت و عقیدت کے ساتھ باؤلی کی کھدائی میں لگ جاتے۔ جب ایک دن بادشاہ، محل کا کام دیکھنے گیا،تو دیکھا کہ سارے مزدور سو رہے ہیں۔

یہ دیکھ کر اسے بڑا غصّہ آیا اور اس نے اس غفلت کی وجہ دریافت کی کہ محل کا کام سُست روی کا شکار کیوں ہے، تو اسے بتایا گیا کہ ’’یہ لوگ ساری رات چراغوں کی روشنی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی باؤلی کی کھدائی میں لگے رہتے ہیں اور دن کے وقت سستی سے کام کرتے، تو کبھی سو جاتے ہیں۔‘‘یہ سُن کر بادشاہ طیش میں آگیا اور اس نے حکم جاری کیا کہ نظام الدین اولیا کے چراغوں کے لیے کوئی بھی دکان دار تیل نہیں دے گا،جب یہ حکم جاری ہوا تو سلطان المشائخ نے کہا، باؤلی کے چراغوں میں تیل کی جگہ پانی ڈالا جائےاور اللہ نے اپنے برگزیدہ بندے کی بات کا مان ایسا رکھا کہ وہ چراغ پانی ہی سے جل اُٹھے۔ ہوسکتا ہے کہ اس حکایت میں خوش بیانی سے کام لیا گیا ہو، مگر بقول علاّمہ اقبال؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ …غالب و کار آفریں ،کار کُشا، کارساز۔ تو جب اللہ والے پکارتے ہیں،تو خالق بھی وہ عرضی کبھی رَد نہیں کرتا۔ 

چشمِ فلک اور دیدۂ خلقت نے بے شمار ایسے واقعات دیکھے ہیں، جنہیں اگر دماغ کی کسوٹی پہ پرکھنے کی کوشش کریں، تو شاید وہ اس پر پورے نہ اُتر سکیں،مگر اللہ کے قبضۂ قدرت میں کیا ہے،جو ممکن نہیں۔ وہ اپنے برگزیدہ بندوں کی ضرور سنتا ہے۔خیر، باؤلی کی زیارت کے بعد ہم طاہر نظامی کے حجرے میں ان کے پاس کچھ دیر تک بیٹھے رہے۔ رات کی سیاہ زلفیں دہلی شہر کے شانوں پہ بکھر چُکی تھیں۔طاہر نظامی، اُردو کے صاحبِ طرز نثر نگار، خواجہ حسن نظامی کے پوتےاور جناح اسپتال، لاہور میں ہماری ایک کولیگ،ڈاکٹر زارا نظامی کی امّی کے کزن بھی ہیں۔

طاہر نظامی نے نہایت خلوص اور محبت سے باؤلی کی زیارت کے بعد حضرت سلطان جی کے مزار کی زیارت کروائی اور فاتحہ خوانی کی۔ پھر مزار سے اتار کے ایک چادر، کچھ نیاز، مزار کی کچھ اگربتیاں، لوبان اور پھول تحفتاً ہمیں دےدیئے۔ یہ تحفے پاکر یوں لگا، جیسے انہوں نے دنیا کے منہگے ترین تحائف ہماری جھولی میں ڈال دیئے ہوں۔پھر ٹھنڈے مشروب سے اپنے حجرے میں خاطر تواضع کی، لنگر سے بریانی کے خوان منگوائے اور ہمارے سامنے رکھ دیئے، جنہیں دیکھتے ہی بھوک چمک اُٹھی کہ ہم صبح کا ناشتا کرکے نکلے تھے اور اب شام بھی ڈھل چُکی تھی۔ 

بریانی بے حد لذیذ تھی، تو خُوب سیر ہو کے کھائی اور لنگر کے تبرّک سے پیٹ کی آگ بجھائی۔اتنے میں مؤذن نے اذان کی صدا دی، تو ہم نے ’’علاؤالدّین خلجی مسجد‘‘ میں نمازِ عشاء باجماعت ادا کی۔ اس مسجد کے گنبدوں میں گونجتی قرات کی آواز آٹھ سو سال کے تسلسل کی گواہی دے رہی تھی۔کیسی عجیب بات ہے ناں کہ ایک اللہ والے نے اپنی سعی و کوشش سےجو چراغ جلایا تھا،وہ آج تک ضوفشاں ہے،بادِ مخالف کا کوئی بھی جھونکا اُسے بجھا نہیں سکا۔ دہلی میں قیام کے دوران پھر ایک دن دوپہر کے وقت درگاہ پہ حاضر ہوئے،تو حضرت سلطان المشائخ اور حضرت امیر خسرو کے مزارات کے درمیان بائیں ہاتھ کی طرف مسجد کے قریب ہی ایک سنگِ مرمر کی جالیوں کے مقبرے پر نظر پڑی، پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ مقبرہ شاہ جہاں کی لاڈلی بیٹی، جہاں آرا بیگم کا تھا۔

جس کے حکم پہ چاندنی چوک کا مشہور بازار ’’شاہ جہاں آباد‘‘ دہلی میں لال قلعے کے سامنے تعمیر ہوا تھا۔یورپی سیاح فرانسس برنئیر نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ ’’جہاں آرا کے حُسن کے چرچے دُور دُور تک تھے،اس دور میں شہزادیوں کی خاندان سے باہر شادیوں پہ پابندی تھی تاکہ کوئی غیر خاندان کا فرد شاہی خاندان میں شادی کر کے تاج و تخت کا وارث نہ بن بیٹھے۔لیکن جہاں آرا بیگم کو ایک عام شخص سے محبّت ہوگئی، تو بادشاہ شاہ جہاں نے اس شخص کو اُبلتے، کھولتے پانی کی دیگ میں بند کر کے جلا دیا تھا۔‘‘واقعی شہنشاہ کس قدر پتّھر دل ہوتے تھے کہ تخت و تاج بچانے ، اُسے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیےاپنی اولاد کی خوشی تک کا پاس نہیں رکھتے تھے۔یہ خونچکاں داستانیں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ 

خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ ’’جہاں آرا بیگم، حضرت نظام الدّین اولیا سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس درگاہ کے احاطے میں دفن ہونے کے لیے اُس زمانے میں تین کروڑ روپے عطیہ کرنے کا وعدہ کیاتھا۔‘‘یاد رہے، درگاہ نظام الدّین کے اندر جہاں آرا کے مقبرے کی اس جگہ کے حصول کے لیے بادشاہ اورنگزیب عالم گیر نے ایک کروڑ روپے عطیہ کیے تھے۔جہاں آرا بیگم کے مقبرےکے بغل میں بادشاہ محمّد شاہ رنگیلا اور اس کی بیگم کی قبریں بھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بادشاہ محمّد شاہ رنگیلا بھی حضرت نظام الدین اولیاء سے بہت عقیدت رکھتا تھا، اس کا یہ عقیدہ تھا کہ اُسے بادشاہت حضرت نظام الدّین اولیا کی نظرِ کرم سے ملی ہے، وہ درگاہ کے خرچ کے لیے روزانہ پانچ ہزار روپے عطیہ کرتا تھا۔ درگاہ کے احاطے میں اکبر شاہ ثانی کے بیٹے،بہادر شاہ ظفر کے بھائی، مرزا جہانگیر اور مرزا بابر کی بھی قبریں تھیں۔

کون جانتا ہے کہ اپنے دَور کے عالی شان، جلیل القدر بادشاہ اس درگاہ میں گُم نامی کی نیند سورہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے ناں کہ ایک ہی جگہ، ایک ہی احاطہ، مگر اللہ والوں کی قبروں پہ دن رات رونق رہتی، فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جب کہ شاہی خاندان کے افراد کی قبروں پہ کوئی بھولا بھٹکا ہی آکر فاتحہ خوانی کرتا ہے۔ یہی زندگی ہے، یہی دنیا ہے، اللہ والے، اللہ کی اطاعت کرنے والے مر کر بھی امر رہتے ہیں، جب کہ باقی سب مٹّی میں مل کےمٹّی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح امیر خسرو کے مزار کے قریب مشہور مؤرخ اور تاریخی کتاب ’’فیروز شاہی‘‘ کے مولف ضیاالدّین برنی بھی مدفون ہیں،جب کہ کئی نادر روزگار ہستیاں بھی اسی درگاہ شریف میں دفن ہیں۔ (جاری ہے)