• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک، بھارت تعلقات: متحدہ عرب امارات کا ممکنہ کردار

پاک، بھارت تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کی باتیں ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔وزیرِ اعظم، شہباز شریف جنوری کے وسط میں متحدہ عرب امارات کے دَورے پر گئے،تو وہاں ایک عرب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاک، بھارت تعلقات اور اُس میں متحدہ عرب امارت کے ممکنہ کردار پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’مَیں نے امارات کے صدر شیخ محمّد بن زید النہیان سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں، کیوں کہ یو اے ای نہ صرف پاکستان کا دوست ہے بلکہ اُس کے بھارت سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔‘‘اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ اِس قسم کی بات چیت کے اشارے یا خواہش کا اظہار سامنے آیا ہو۔

ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے،جس میں بیک ڈور ڈپلومیسی سے لے کر سربراہانِ حکومت کی ملاقاتیں تک شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے سربراہ ایک دوسرے کے ہاں جاکر بھی بات چیت کرتے رہے، لیکن اِسے حالات کی ستم ظریفی کہیں، تلخی اور کشیدگی کی انتہا قرار دیں یا دونوں ممالک کے عوام کی بدقسمتی کہ جب بھی کوئی بریک تھرو نظر آنے لگتا، کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا کہ بات چیت وہیں کی وہیں ٹھپ ہو کر رہ جاتی اور تمام کوششیں، اُمیدیں خاک میں مل جاتیں۔پھر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی، جس سے کشیدگی، دشمنی کی حد تک جا پہنچتی اور یوں لگتا کہ دوستی تو دُور کی بات، دونوں ممالک میں معمول کے تعلقات بھی ممکن نہیں۔ جو کوئی تعلقات معمول پر لانے کی بات کرتا، اُسے غدّاری کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا جاتا۔

دراصل قومی رہنماؤں نے خود کو ایک ایسے منفی بیانیے کا اسیر کر لیا ہے کہ اُن کی پاک،بھارت تعلقات سے متعلق کوئی بھی مثبت بات، اُن کے سیاسی کیریئر کو دائو پر لگا دیتی ہے۔عوامی جذبات کو کچھ اِس طرح جوش دیا گیا کہ وہ ہر وقت اُبال کی کیفیت میں رہتے ہیں۔کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان اصل اور حقیقی تنازعے کا سبب ہے اور اس پر بات چیت کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں، اِسی لیے انٹرویو نشر ہونے کے اگلے ہی روز شہباز شریف کے بیان کی وضاحت جاری کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ ویسے حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت اور عوام کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ اِن پڑوسیوں کے تعلقات معمول پر لائے بغیر خطّے میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں خوش حالی آسکتی ہے۔

وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ مَیں نریندر مودی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آئیں مِل بیٹھیں اور کشمیر جیسے سُلگتے مسئلے پر سنجیدہ بات چیت کریں۔‘‘اِس کے جواب میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ’’ اِس طرح کی بات چیت کے لیے امن کا ماحول ہونا چاہیے۔‘‘شاید ترجمان نے یہ بیان ماضی کے بعض واقعات کے پس منظر میں دیا، کیوں کہ حالیہ برسوں میں تو دونوں ممالک کے درمیان حالات نسبتاً پُرامن ہیں۔گزشتہ برس ایل او سی پر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ایک باہمی میکنزم کے ذریعے دونوں میں اعلیٰ سطح پر رابطہ رہتا ہے۔ 

صحافی و کالم نگار، جاوید چوہدری نے انکشاف کیا تھا کہ جنرل باجوہ کی بیک ڈور ڈپلومیسی سے بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وزیرِ اعظم مودی، بلوچستان میں ایک مندر یاترا پر بھی آمادہ ہوگئے تھے اور وہ اسلام آباد میں وزیرِ اعظم، عمران خان سے بھی ملاقات کرتے،جس کے دَوران دونوں رہنما تعلقات معمول پر لانے پر رضامندی کا اظہار کرتے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہوجاتی اور کشمیر پر بھی بات چیت کا آغاز ہوجاتا، مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔یہ تو طے ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور اِس طرح کی باتیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ کسی تیسرے فریق کو ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جب عمران خان امریکا گئے تھے، تو صدر، ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا تھا،جس پر اُنھوں نے کہا کہ وہ پاک، بھارت تعلقات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، اگر دونوں فریق آمادہ ہوں۔یاد رہے، جب پلواما واقعے پر کشیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور معاملہ جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا، تو صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ’’ آج شام تک حالات بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے۔‘‘وہ اُس وقت ویت نام میں شمالی کوریا کے سربراہ سے دوسرے دَور کی بات چیت کے لیے گئے ہوئے تھے اور انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں پاک،بھارت تعلقات پر اظہارِ خیال کیا تھا۔

اُسی شام قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے بھارتی ہوا باز، ابھینندن کی واپسی کا اعلان کیا، جس کا طیارہ پاکستان نے سرحد پر مار گرایا تھا اور پائلٹ گرفتار ہوا تھا۔ایک موقعے پر عمران خان نے کہا تھا کہ ٹرمپ مسئلۂ کشمیر حل کروا سکتے ہیں۔اِسی طرح بھارتی انتخابات کے موقعے پر اُنھوں نے کہا کہ’’ اگر بی جے پی جیت گئی، تو بھارت سے بات کرنا آسان ہوگا۔‘‘، لیکن بعد میں وہ مودی کو ہٹلر کہتے رہے، ایسے میں بات چیت کیسے ممکن تھی۔سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ عرب امارت اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرسکے۔یہ جاننے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اِن دونوں ممالک کے اِس عرب مُلک میں کیا اسٹیکس ہیں اور مفادات کی نوعیت کیا ہے۔یو اے ای کی آبادی93 لاکھ ہے، جب کہ وہاں 13 لاکھ پاکستانی اور 35 لاکھ بھارتی شہری بھی مقیم ہیں۔

متحدہ عرب امارات، بھارت کا تیسرا بڑا تجارتی حلیف ہے۔گزشتہ سال دونوں کی باہمی تجارت کا تخمینہ93 ارب ڈالرز لگایا گیا۔بھارت وہاں سے بنیادی طور پر پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے، جب کہ اُس نے بھارت میں85 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت انجینئرنگ کا سامان، قیمتی دھاتیں، زیورات، سبزیاں، پھل، چائے کی پتّی اور گوشت وغیرہ اس عرب ریاست کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارت کی باہمی تجارت دس ارب ڈالرز ہے۔ پاکستان بھی پیٹرولیم مصنوعات وہاں سے درآمد کرتا ہے، جب کہ سونا، گوشت اور چاول وغیرہ برآمد کرتا ہے۔پاکستان اور یو اے ای میں انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور جب بھی اسلام آباد کو کسی بحران کا سامنا ہوا، وہ مدد میں پیش پیش رہا۔ حالیہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بھی اُس نے تین ارب ڈالرز فراہم کیے۔ 

نئی دہلی کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ پاک،بھارت تعلقات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کرے گا، اِسی لیے اُس نے ٹرمپ کی ثالثی کی خواہش بھی فوراً ہی مسترد کردی تھی، اس کے باوجود کہ دونوں میں گہرے قریبی تعلقات ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پلواما واقعے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے میں یو اے ای کا کردار رہا۔ دونوں پڑوسی ممالک کے حکّام کی ایک خفیہ میٹنگ دبئی میں ہوئی، جس کی تصدیق متحدہ عرب امارات کے سفیر نے بھی کی۔

یاد رہے، جب اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس دبئی میں ہوا، تو متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیرِ خارجہ، سشما سوراج کو خصوصی دعوت پر وہاں مدعو کیا، جس پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے خاصی غیر سفارتی زبان میں اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا۔جانے کیوں ہمارے سیاسی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مُلک کو اُن کی خواہش کے مطابق چلنا چاہیے، اِسے وہ پاکستانی عوام کے سامنے اپنی جارحانہ ڈپلومیسی اور کام یابی بتاتے ہیں، حالاں کہ عوامی جذبات کا یوں غلط فائدہ اُٹھانا حال اور مستقبل دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ہر مُلک کا حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق چلے، ہم تو صرف اُسے سمجھا ہی سکتے ہیں۔ لڑاکا خواتین کی طرح طعنے دینا سفارتی دنیا میں نقصان کا باعث ہوتا ہے اور ہم نے ایسے نقصانات بار بار اُٹھائے ہیں۔خاص طور پر جب آپ چند دنوں بعد ہی یوٹرن لینے پر مجبور ہوں، یعنی اپنی غلطی مان لیں۔

اِس امر میں کوئی دو آراء نہیں ہوسکتیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اصل کشیدگی کی وجہ کشمیر کا معاملہ ہے۔اس پر جنگیں بھی ہوئیں اور شدید قسم کی تلخیاں بھی۔بھارت الزام لگاتا ہے کہ پاکستان وہاں دخل اندازی کرتا ہے، جب کہ پاکستان کا جواب ہوتا ہے کہ بھارت اس کا ثبوت پیش کرے۔ بھارت کی جانب سے دوسال قبل کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کے آرٹیکل 36 کی منسوخی اور کشمیر کی تین حصّوں میں تقسیم نے مزید پیچیدگی پیدا کردی،اِسی لیے پاکستان کا کہنا ہے کہ کسی بھی نوعیت کے مذاکرات سے پہلے یہ سارے اقدامات واپس لینے ضروری ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تنازعۂ کشمیر کے تین فریق ہیں۔

پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام۔ جب تک یہ تینوں ایک پیج پر نہیں ہوں گے، اُس وقت تک کسی جامع اور پائے دار حل کی تلاش ممکن نہیں، تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ کشمیریوں کو آزادی کی جنگ خود ہی لڑنی ہے، کیوں کہ جس طرح اُن کی بات دنیا کو متاثر کرتی ہے، کسی اور کی بات میں وہ اثر نہیں ہوسکتا۔ ویت نام اور فلسطین اس کی بہترین مثال ہیں۔ نہتّے شہریوں پر بھارت کے مظالم اور قبضے کو دنیا کے سامنے کشمیریوں سے بہتر کوئی اور پیش نہیں کرسکتا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں خواہ کسی کی بھی حکومت ہو، اُس نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی مکمل اور کُھل کر حمایت کی ہے۔

نیز، پاکستانی عوام نے بھی کشمیریوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔اِس پورے معاملے کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ خطّے کی ترقّی کا انحصار اِن دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری ہی پر ہے، لیکن یہ بھی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ پاکستان اِس وقت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ایسے میں وہ تنازعات میں اُلجھنے کا متحمّل نہیں ہو سکتا۔اِسے دنیا سے بہتر تعلقات اور تجارتی روابط کی ضرورت ہے۔چاہے کوئی کیسی ہی سوچ رکھتا ہو، وہ اِس امر سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ قومی اقتصادی مضبوطی وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔

اگر عوام یہ بات نہیں سمجھتے یا وہ اب بھی ماضی قصّے کہانیوں میں غرق ہیں، تو اُنھیں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قومی تقاضے کیا ہیں۔یہ کام چینی لیڈرز نے کیا، اس سے قبل جاپانی اور جرمن رہنما بھی دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد ایسا ہی کر چُکے ہیں۔ جو قوم کا درد رکھتے ہوں اور جن میں حوصلہ ہو، وہ ایسے کام کر ہی گزرتے ہیں۔ پاکستان کی تمام جماعتیں جہاں تنازعۂ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرتی ہیں، وہیں اِس امر پر بھی متفّق ہیں کہ برّصغیر کے کروڑوں عوام کی خوش حالی صرف اِس لیے حقیقی رُوپ اختیار نہیں کر پاتی کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس کی راہ میں حائل ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ تعلقات میں بہتری کی شروعات کہاں سے کی جائے۔پرویز مشرف دَور کے کمپوذٹ ڈائیلاگ میں کوشش کی گئی کہ عوام کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور اِس سلسلے میں دونوں جانب سے اہم سیاست دانوں، دانش وَروں اور اداکاروں کو ایک دوسرے کے مُلک میں مدعو کیا گیا۔وزیرِ خارجہ خورشید قصوری، جو اِس عمل کی نگرانی کر رہے تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ ایک عبوری حل پر پیش رفت ہوگئی تھی، لیکن مشرف حکومت جانے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔‘‘نواز شریف نے2013 ء کے بعد مودی سے کئی ملاقاتیں کیں، جس سے لگا کہ برف پگھلنے والی ہے، لیکن معاملہ اچانک ٹھپ ہوگیا۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر قوم اور مُلک کو اپنی مرضی سے حکم ران منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، خواہ کسی دوسرے مُلک میں اُسے کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کیا جاتا ہو۔اگر اُس مُلک سے بات کرنی ہے، تو پھر اُنہی حکم رانوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔اندرا گاندھی بھارت کی وزیرِ اعظم تھیں اور اُنہی کی پُشت پناہی اور فوجی یلغار سے پاکستان دولخت ہوا،لیکن جب بات چیت کا وقت آیا، تو مُلک کے مقبول ترین لیڈر، ذوالفقار علی بھٹّو، جو اُس وقت پاکستان کے سربراہ تھے، بھارتی شہر شملہ گئے اور اُسی اندرا گاندھی سے معاہدہ کر کے آئے۔آج کہا جاتا ہے کہ یہ بھٹّو کی بہت بڑی کام یابی تھی، لیکن اگر وہ بات ہی نہ کرتے، تو کام یاب کیسے ہوتے۔

کورونا وبا کے بعد دنیا کے حالات بہت بدل چُکے ہیں۔ پھر یوکرین جنگ نے بھی عالمی بدحالی میں اضافہ کیا ہے۔ بہت سے ممالک اِن دنوں عدم استحکام کا شکار ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہاں ہائبرڈ نظام، نت نئے سیاسی تجربات، غلط اقتصادی فیصلوں اور بیڈ گورنینس نے مُلک کا ستیاناس کر دیا ہے۔ ماہرین اور بہت سے سیاست دان اِس امر پر متفّق ہیں کہ اگر کوئی چیز پاک، بھارت تعلقات کی بنیاد بن سکتی ہے، تو وہ اقتصادی خوش حالی کی خواہش اور عزم ہے، جو دونوں ممالک کی حکومتوں ہی نہیں،عوام کو بھی کرنا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے؟بالکل ہے۔

چین نے اپنی آزادی کے بعد جو واحد جنگ لڑی، وہ بھارت سے تھی اور وہ اُس میں فتح یاب بھی ہوا۔اس جنگ کے بعد’’چینی ہندی، بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ دشمنی میں بدل گیا، لیکن جب1979 ء کے بعد چین نے یہ طے کیا کہ وہ اقتصادی ترقّی اور مُلکی خوش حالی کو ہر امر پر ترجیح دے گا، تو پھر یہ دشمنی، دوستی میں بدلنے لگی۔ یہ نہیں کہ بھارت اور چین مثالی دوست بن چُکے ہیں، بلکہ ہمالائی سرحد آج بھی اُن کے لیے کشیدگی کا باعث ہے، جب کہ امریکا سے بھارت کے قریبی تعلقات بھی معاملات میں پیچیدگی پیدا کردیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے عوام اور قیادت نے اِن کشیدگیوں میں بھی ایک درمیانی راہ نکالی ہے اور وہ ہے، اقتصادی تعلقات کا فروغ۔

صدر شی جن پنگ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ’’ دنیا اِتنی بڑی ہے کہ چین اور بھارت دونوں ہی اس میں رہ کر اپنے اپنے مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘حال ہی میں جب یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بلندی کی طرف جانے لگیں، تو چین اور بھارت وہ پہلے مُلک تھے، جنہوں نے یک ساں پالیسی اختیار کرتے ہوئے روس سے تیس فی صد کم قیمت پر تیل خریدا، اس کے باوجود کہ امریکا اور مغربی ممالک نے روس کی برآمدات پر سخت پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔

یہ ریکارڈ پر ہے کہ چینی قیادت نے پاکستان کو ہمیشہ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دیا ہے۔کون سا خطّہ یا مُلک ایسا ہوگا، جہاں تنازعات اور تلخیاں نہیں ، لیکن اقتصای چیلنجز اِتنے شدید ہوچُکے ہیں کہ اب تنازعات کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔کون کہتا ہے کہ بھارت سے بنیادی تنازعات حل نہ کیے جائیں، مگر ایسا تب ہی ہوگا، جب مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔

تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تنازعات ہی میں اُلجھے رہنے کی بجائے وہ راہ تلاش کی جائے، جس سے پاکستان کو معاشی فائدہ ہوسکے۔ آخر ریاستوں کا بنیادی فرض اِس کے علاوہ اور کیا ہے کہ وہ اپنے عوام کو بہتر معیارِ زندگی دیں اور اگر اِس مقصد کے لیے اُنہیں کوئی مشکل راستہ نکالنا پڑے، تو اُس میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت یہی ہے کہ صرف معاشی طور پر مضبوط پاکستان ہی فیصلہ کُن نتائج حاصل کرسکتا ہے، اپنے لیے بھی اور خود پر انحصار کرنے والوں کے لیے بھی۔