• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 9)

عبداللہ بن اُبی بن سلول، رئیس المنافقین، اسلام اور پیغمبرِ اسلامؐ کا بدترین دشمن: قرآنِ کریم نے منافقین کی جو نشانیاں بیان کی ہیں، ان کے مطابق، منافق دھوکے باز، ناقابلِ بھروسا، جھوٹا، فسادی، دوغلا اور بزدل ہوتا ہے۔ حماقت اور بے وقوفی کی لایعنی باتیں کرکے معاشرے میں فساد پیدا کرتا ہے۔ منافقین اللہ تعالیٰ کی ذات کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ اپنے طرز عمل سے خود اپنی ذات کو دھوکادیتے ہیں۔ 

وہ اللہ ربّ العزت کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ ہاں، اللہ تعالیٰ انھیں دھوکے کی سزا ضروردے گا، جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت پر ایمان لائے، حالاں کہ وہ ایمان نہیں لائے، گویا اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ منافق، ایک انسان کو تو دھوکا دے سکتا ہے، مگر اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ بدقسمتی سے آج اُمّتِ مسلمہ کی غالب اکثریت منافقت کی اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہو کر اپنی شناخت کھوتی چلی جارہی ہے اور اس بیماری کے سدّباب کے لیے اُمّت کے ہر فرد کو اپنے محاسبے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔

نفاق کی ابتدا:نفاق سے مراد ہے ’’دل میں شرارت پوشیدہ رکھنا، مگر زبان سے خیرخواہ بننا‘‘ گویا دل میں کُفر ہونے کے باوجود زبان سے اسلام کا اعلان کرنا۔ مدینہ منورہ میں اسلام کا نور پھیلنے کے بعد وہاں کے منافقین نے نفاق کی ابتدا کی۔ نفاق کا ظہور اس بات کی دلیل تھا کہ اب مسلمان اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ مخالفین ان سے خوف کھانے اورڈرنے لگے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اصل میں یہ (منافقین) ڈرپوک لوگ ہیں۔‘‘ (سورۂ توبہ آیت۔ 56)۔منافقین سےمتعلق جتنی بھی آیات نازل ہوئیں، وہ سب کی سب مدنی ہیں، کیوں کہ مکّے میں تو نفاق کا امکان ہی نہیں تھا، بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہاں بہت سے ایسے لوگ تھے، جو صدقِ دل سے اسلام قبول کرچُکے تھے، مگر اُسے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ 

اسی طرح جو مشرک اور کافر تھے وہ بھی اپنے کُفر و شرک میں ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ مدینۂ منورہ ہجرت کے بعد ابتدائی دَور میں بھی نفاق کا وجود نہیں تھا، لیکن جب جنگِ بدر کے نتیجے میں اسلام کا رُعب قائم ہوا، تو منافقین سامنے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو دینِ اسلام کی شان و شوکت دیکھ کر مسلمان ہوئے، لیکن اُن کے دل کفر کی آماج گاہ تھے۔ (تاریخِ مدینۂ منورہ،59)۔

عبداللہ بن اُبی سے نرم رویّہ: ان منافقین کا سردار عبداللہ بن اُبی ابن سلول تھا۔ اس کی اسلام اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دُشمنی کی اصل وجہ یہ تھی کہ جنگِ بعاث کے خاتمے کے بعد اوس اور خزرج قبیلے کے لوگ اس شخص کو مدینے کی حکم رانی کا تاج پہنانے والے تھے، لیکن حضوراکرمؐ کی مدینۂ منورہ تشریف آوری سے اُس کی تمام اُمیدیں خاک میں مل گئیں۔ اُسے اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لاکر اُس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ 

عبداللہ بن اُبی بھاری بھرکم ڈیل ڈول کا لمبا چوڑا، تندرست، چالاک اور چرب زبان تھا۔ اس کا شمار یثرب کے قبیلے بنو خزرج کے رُؤساء میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں عبداللہ بن اُبی ملا۔ اُس نے آپؐ کی شان میں کچھ گستاخی کی۔ یہ بات بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عُبادہ کے علم میں آئی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس شخص کے ساتھ نرمی فرمایئے۔ آپؐ کی مدینۂ منورہ تشریف آوری سے پہلے ہم اس کے لیے تاجِ شاہی تیار کررہے تھے۔ اب یہ سمجھتا ہے کہ آپؐ نے اس سے بادشاہی چھین لی ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن،509/5 )۔

منافقینِ مدینہ سے مشرکینِ مکّہ کا رابطہ

مشرکینِ قریش کو یقین تھا کہ مدینے کے یہود اور اوس و خزرج کے جنگجو مکّہ کے ان باغیوں کو زیادہ دیر مدینے میں رہنے نہیں دیں گے۔ یا تو انہیں مکّہ واپسی پر مجبور کردیں گے، یا وہ وہیں مرکھپ جائیں گے۔ لیکن مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقیدالمثال استقبال، مہاجرین و انصار میں رشتۂ مواخات پھر یہود قبائل کے ساتھ میثاق و معاہدہ، مسلم نوجوانوں کی جنگی تربیت، مدینے کی سرحدوں پر دن رات نگرانی کا انتظام.....آنحضرتؐ کی جانب سے ان تمام اقدامات نے انھیں حیرت زدہ کر دیا تھا۔ 

اُن کے لیے یہ بات نہایت تعجب خیز تھی کہ عبدالمطلب کا پوتا، ابو طالب کا بھتیجا، عبداللہ کا بیٹا خاندانِ بنو ہاشم کا ایک دُرِّ یتیم، جس کی53سالہ زندگی کا ایک ایک لمحہ کُھلی کتاب کی طرح اہلِ قریش کے سامنے ہے، جو امانتوں کا محافظ، صداقتوں کا امین اور امن و سلامتی کا پیام بَر ہے۔ اپنوں کے ظلم و ستم، استہزاء و تحقیر کو صبر و تحمّل سے برداشت کرنے والا، ایذا رسانی، بغض و عناد کے تیر، جورو جفا کے پتھر، طعن و تشنیع کے انگارے، نفرت و عداوت کے شُعلے اور شقاوت و سنگ دلی کے نشتر کھاکر بھی دُعائیں دینے والا، مکّہ کے بازاروں میں اپنے دین کی دعوت دینے والا، قبیلہ بنوہاشم کا چشم وچراغ، ایک بڑی اسلامی ریاست کا حکم ران بن جائے گا۔ 

قریش کے لیے یہ کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہ تھا، پھر ان کی زیادہ تر تجارت کا دارومدار ملک شام اور اس کے اطراف کے شہروں پر تھا، جب کہ شام جانے والے قافلوں کا واحد محفوظ اور آسان راستہ مدینۂ منورہ کی سرحد سے ہوتے ہوئے گزرتا ہے۔ اس راستے پر مسلمانوں کا کنٹرول مکّے کی معاشی بدحالی کا باعث بنتا۔ چناں چہ ابوجہل نے تمام سرداروں کا اجلاس طلب کیا، جس میں طے پایا کہ مدینے کی اسلامی ریاست کو بزورِ شمشیر تباہ کردیا جائے۔ مدینے میں مشرکین کا واحد سہارا عبداللہ بن اُبی تھا، جس کی بادشاہت کے خواب کو مسلمانوں نے چکنا چُور کر دیا تھا۔ یہودیوں سے کوئی اُمید نہ تھی، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے۔ چناں چہ عبداللہ بن اُبی سے فوری طور پر رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

قریش کا نامہ و پیام، عبداللہ بن اُبی کے نام: مشرکین مکّہ نے عبداللہ بن اُبی کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ عبداللہ بن اُبی کا مدینے کے مشرکین اور خاص طور پر اس کے اپنے قبیلے بنو خزرج میں بڑا مقام تھا۔ مشرکین نے عبداللہ بن اُبی کو لکھا ’’تم لوگوں نے ہمارے ایک اہم شخص کو پناہ دے رکھی ہے۔تم لوگ اُن سے لڑکر انھیں اپنے علاقے سے باہر کردو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم پر حملہ کرکے تم سب کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کی حرمت کو پامال کردیں گے۔ اس پر فوری عمل کرکے ہمیں مطلع کرو۔‘‘ (سنن ابی دائود، حدیث۔3004 )۔

اور سازش ناکام ہوگئی: عبداللہ بن اُبی نے خط پڑھا تو جیسے اس کی مراد بَر آئی۔ اس نے فوری طور پر اپنے تمام ہم نوائوں کو جمع کرکے قریش کی دھمکی سے آگاہ کیا۔ مدینے کے لوگ، مکّہ کے جنگجوئوں سے بہت خوف بھی کھاتے تھے اور مرعوب بھی تھے، چناں چہ سب نے مدینہ میں موجود مسلمانوں سے جنگ کا فیصلہ کرلیا۔ ابھی عبداللہ بن اُبی ان لوگوں سے فرداً فرداً جنگ کے لیے عہد لے رہا تھا کہ اچانک دروازہ کُھلا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے۔ عبداللہ بن اُبی ہکّا بکّا رہ گیا۔ 

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اس خفیہ اجلاس کا علم ہوچکا تھا۔ آپؐ نے اہلِ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اے مدینے کے لوگو! اگر تم لوگ آج قریش کے دھوکے اور دھمکی میں آگئے، تو بہت نقصان اُٹھائوگے، مدینے کے مسلمان انصار تمہارے ہی بھائی اور بیٹے ہیں۔ کیا تم اپنے ہی عزیزوں کا قتلِ عام کروگے؟‘‘ حضورؐ کی پُراثر گفتگو نے شرکاء کو اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔ عبداللہ بن اُبی اپنی ذلّت کا احساس لیے خاموشی سے باہر نکل گیا، لیکن وہ اپنی گھٹیا حرکتوں سے باز نہ آیا اور اس کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔ (تاریخ اُمتِ مسلمہ230/1)۔

مدینے کا دفاعی نظام اور عسکری تربیت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تواتر کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ قریش، مدینے پر ایک بھرپور حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ چناں چہ آپؐ نے انصار و مہاجرین کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر اُن کی عسکری تربیت کا آغاز کردیا۔ دفاعی نقطۂ نظر سے قدرت نے مدینۂ منورہ کے گرد ایک حفاظتی حصار بنایا ہوا تھا۔ مدینے کے تین اطراف یا تو پہاڑیاں تھیں یا گنجان آبادیاں اور باغات۔ صرف شمال کی جانب سے شہر میں داخل ہوا جاسکتا تھا، جب کہ مکّہ جنوب میں واقع تھا۔ چناں چہ جنوب سے شمال کی جانب آکر حملہ کرنا نہایت دُشوار، پیچیدہ اور خطرناک تھا۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تجربہ کار جنگجو سپہ سالار کی طرح مسلّح دستے بناکر سرحدی علاقوں میں گشت اور پہرے کے لیے دن رات کا ایک مربوط نظام قائم فرماکر ہر دستے کا ایک کمانڈر مقرر فرمادیا۔ سپاہیوں اور دستوں کی شناخت کے لیے خفیہ الفاظ و اشارات اختیار فرمائے، نظم و نسق اور ڈسپلن پر خصوصی ہدایات جاری کیں۔ ان مسلّح تربیت یافتہ فوجی دستوں نے جب اپنے کمانڈرکی زیرکمان سرحدی علاقوں پر گشت شروع کیا، تو گرد و نواح کے قبائل، جو خود کو جنگوں کا ماہر کہتے تھے، بڑے مرعوب و متعجب ہوئے۔ انھوں نے اس قدر منظّم فوجی دستے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ یہ دیکھ کر ان میں یہ احساس و شعور پیدا ہوگیا کہ واقعی مدینے میں منظّم اسلامی ریاست وجود میں آچکی ہے۔ (سیرت رحمۃ اللعالمین، ص، 226)۔

حجرۂ رسولؐ پر صحابہؓ کا پہرا: عبداللہ بن اُبی کی ناکامی نے جنگجو کفّار مکّہ کو مزید چراغ پا کردیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ ’’ہم بہت جلد تمہاری موت بن کر یثرب میں داخل ہوں گے اور تم سب کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔‘‘ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ قریش کے انتقامی جنون کا اندازہ تھا، ان کے لیے راتوں کو تاریکی میں چُھپ کر قاتلانہ حملے کرنا معمولی بات تھی۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر صحابہ کرامؓ عموماً رات میں آپؐ کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ ہجرت کے بعد ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ بے داری میں تھے۔

آپؐ نے فرمایا ’’کاش! آج کی رات میرے صحابہؓ میں سے کوئی یہاں پہرا دیتا۔‘‘ وہ فرماتی ہیں کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ابھی ادا ہی ہوئے تھے کہ ہمیں تلوار کی جھنکار سُنائی دی۔ آپؐ نے باآواز بُلند فرمایا ’’کون ہے؟‘‘ جواب آیا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں سعد بن ابی وقاصؓ ہوں۔‘‘ فرمایا ’’سعد! کیسے آنا ہوا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے دل میں آپؐ کے حوالے سے خطرے کا اندیشہ ہوا، تو میں پہرا دینے کے لیے چلا آیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر انھیں دُعائیں دیں اور اطمینان سے محوِ استراحت ہوگئے۔ (صحیح بخاری حدیث۔2885)۔

حفاظت کی ذمّے داری اللہ نے لے لی: سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’صحابہؓ ہر رات حضورؐ کے حجرے کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ’’واللہ یعصمک من النّاس‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت۔67)۔ ترجمہ:’’اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔‘‘ اس حکم کے بعد آپؐ نے حجرے سے سر باہر نکالا اور فرمایا ’’لوگو! اب تم واپس چلے جائو، کیوں کہ اللہ نے میری حفاظت کی ذمّے داری خود لے لی ہے۔‘‘ (جامع ترمذی، حدیث۔3046)۔

انصار سردار حضرت سعدؓ اور ابوجہل کے درمیان مکالمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ انصار کے قبیلے اوس کے سردار، حضرت سعدؓ بن معاذ عُمرے کے لیے مکّۂ مکرّمہ گئے۔ وہ قریش کے مشرک سردار اُمیّہ بن خلف کے مہمان تھے۔ دونوں ایک دُوسرے کے دوست اور تجارتی حلیف بھی تھے۔ ایک سخت تپتی دوپہر کہ جب حرم سُنسان تھا، اُمیّہ انھیں حرم کے طواف کی غرض سے اپنے ساتھ لے کر نکلا۔ اتفاق سے وہاں ابوجہل سے ملاقات ہوگئی۔ اُس نے اُمیّہ سے کہا کہ ’’اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ اَجنبی کون ہیں؟‘‘ اُمیّہ کو ناچار ان کا تعارف کروانا پڑا۔ 

ابوجہل نے جب مدینے کے انصار سردار کو اپنے سامنے دیکھا، تو جلال میں آگیا۔ بولا ’’مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم یہاں کتنے امن و اطمینان سے طواف کررہے ہو، حالاں کہ تم نے ہمارے یہاں کے بے دین کو پناہ دے رکھی ہے اور تم سب ہر طرح سے ان لوگوں کی مدد اور حفاظت بھی کرتے ہو۔ سُنو! خدا کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے، تو یہاں سے زندہ سلامت اپنے گھر نہیں جاسکتے تھے۔‘‘ حضرت سعدؓ بھی مدینے کے جنگجو قبیلے اوس کے سردار تھے۔ بُلند اور سخت آواز میں بولے ’’تُم بھی سُن لو! خدا کی قسم! اگر تُم نے مجھے طواف سے روکا، تو میں بھی تمہاری شام کی تجارت خاک میں ملا دوں گا۔‘‘ یاد رہے کہ اُس زمانے میں مکّے سے شام جانے والا ایک ہی راستہ تھا، جومدینے سے ہوکر جاتا تھا۔ 

اُمیّہ نے فوری مداخلت کرتے ہوئے حضرت سعدؓ سے کہا ’’ان سے اُونچی آواز میں بات نہ کرو، یہ مکّے کے سردار ہیں۔‘‘ حضرت سعدؓ اُس وقت شدید غصّے میں تھے۔ اُمیّہ کی بار بار مداخلت پر انھوں نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا ’’ہٹو یہاں سے، مَیں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ اُمیّہ بن خلف کو ابوجہل قتل کروائے گا۔‘‘ اُمیّہ یہ سُن کر بڑا حیران و پریشان ہوا۔ گھر آکر اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’میرے یثربی بھائی نے مجھے بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ چکے ہیں کہ ابوجہل مجھے قتل کروائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ کہنے لگیں، ’’اللہ کی قسم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم غلط بات زبان سے نہیں نکالتے۔‘‘ 

پھر ایسا ہی ہوا کہ اہلِ مکّہ بدرکی لڑائی کے لیے روانہ ہونے لگے، تو ابوجہل نے اُمیّہ کو بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ اُمیّہ کی بیوی نے اُسے یاد دلایا کہ ’’تمہیں یاد نہیں، تمہارے یثربی بھائی نے تم سے کیا کہا تھا۔‘‘ یہ سُن کر اُمیّہ نے جنگ پر جانے سے انکار کردیا، لیکن ابوجہل بولا ’’اُمیّہ، تم وادئ مکّہ کے سردار ہو، اس لیے چاہے ایک یا دو دن کے لیے جائو، لیکن تمہیں چلنا ضرور پڑے گا۔‘‘ اس طرح وہ ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کے لیے نکلا اور اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کروادیا۔ (صحیح بخاری، احادیث۔ 3632، 3950)۔  (جاری ہے)