• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب نے اپنے اپنے ہاتھوں میں آئینے اٹھائے ہوئے ہیں اور ہر کوئی دوسرے کو آئینہ دکھا رہا ہے کہ دیکھو یہ ہے تمہارا ماضی اور اب دیکھنا ہم تمہارا کیا حال کریں گے ؟ قوم انگشت بدنداں ہے کہ ملک میں آخر ہو کیا رہا ہے کیوں کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے یہی ڈرامہ اسٹیج کیا جارہا ہے، کردار وہی ہیں لیکن ہر بار حلیہ بدل کر آجاتے ہیں، یہاں گنڈاسا بردار بھی اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں اور کیدو بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے میں مگن ہیں ،ہیر رانجھے کی باتوں کی آڈیو لیکس کے قصے بھی ہیں اور خلوت کی پرچھائیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ اب ذرا یہ سلسلہ تھما ہے تو نیا قضیہ کھڑا ہوگیا ہے ،چولیاں اور چولے بدل کر کپڑے بیچنے کی صدا لگانے والے لباس بدل کر اس اسٹیج پر ہر بار نیا رنگ و روپ اختیار کرکے آتے ہیں، آواز بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شائقین ہیں کہ انہیں ان کی اداؤں سے فوراً پہچان جاتے ہیں اور بار بار پروڈیوسر کو آوازیں لگاتے ہیں کہ مداخلت کرو ،بس بہت ہوچکا یہ کردار ہمیں پسند نہیں، ایسے کرداروں کیلئے تو ہم نے مہنگے داموں ٹکٹ نہیں لئے تھے ۔

اس بار تو ایسا ہوا ہے کہ بار بار پینترے بدلنے والے اور عوام کی بجائے خواص کا دل موہ لینے والے کو انہوں نے رات کے پچھلے پہرا سٹیج کی پچھلی جانب دھکا دے دیا اور ا سٹیج کے عقب سے اب بھی اس کی آوازیں آرہی ہیں کہ مجھے نکال کر غلط کیا آپ لوگوں نے ،میں تو اپنا کردار بخوبی نبھارہا تھا ، سب مجھ سے خوش تھے بس باریاں لینے والوں کو ہی مجھ سے مسئلہ تھا اور وہی بار بار کہنیاں مار کر مجھے اتروانے پر بضد تھے ۔ بند کریں یہ ڈرامہ اور مجھے واپس لانے کیلئے شائقین سے رائے لیں وہ مجھے واپس اس اسٹیج پر پرفارم کرتا دیکھناچاہتے ہیں ۔ بس صاحبو ! یہی حال اس وطن عزیز کی سیاست کا بھی ہوگیا ہے ۔ ایک موصوفہ جنہوں نے حال ہی میں ایک سینئر عہدہ سنبھالا ہے، صاف کہہ دیا ہے کہ اگلی باری ہماری ہے ۔ یادتازہ کردی باریوں کے بدبودار نظام کی ، اسی پر تو قوم کو سخت قلق تھا کہ تیس سال سے دو جماعتیں ہی باریاں لے رہی ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں، اب پھر باری کی صدا بلند ہوئی ہے، دیکھتے ہیں کہ نئے نئے خارجہ امور کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے نوجوان ،اک واری فیر ہماری کا نعرہ مستانہ کب بلند کرتے ہیں؟ ویسے موصوف یہ کہہ چکے ہیں کہ میں اگلا وزیر اعظم بنوں گا لیکن کسی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور بات آئی گئی ہوگئی لیکن جو تازہ باری لینے کا واشگاف اعلان کیا گیا ہے اس پر ہاہا کار ابھی تک نہیں مچی۔

لگتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے اگلےامیدوار باریاں لینے والوں کے چہیتے بال بچے ہی ہیں وہی ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے ۔ خاندانی سیاسی جماعتوں میں موروثیت ایک نئے ویرینٹ کی طرح سرایت کرچکی ہے ۔باپ کے بعد بیٹا اور باپ کے بعد بیٹی ،پاکستانی عوام کی قسمت میں یہی لکھا ہے تو کون ٹال سکتا ہے۔ عوام تو بس ایک دن کیلئے اس انگوٹھا چھاپ بڑی بی یا بابے کی طرح سامنے آتے ہیںجن کو امیدیں دلاکر ان کا تابعدار اور خدمت گار ہونے کا تاثر دے کر انگوٹھا لگو اکر سب کچھ چھین لیا جاتا ہے چند دن کے لارے لپے کے بعد دھکا مار کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے ۔سابق وزیر داخلہ و عوامی رہنماشیخ رشید احمد نے آرمی چیف سے گزارش کی تھی کہ وہ کسی حساس ادارے کے ذمہ دار کو بھیجیں کہ وہ عمران خان کے مبینہ قتل کی سازش بارے تمام حقائق سے انہیں آگاہ کریں گے کیونکہ زرداری، عمران خان کی جان کے درپے ہیں لیکن اس کے بعد الٹا ان کی عوامی خدمت کے مرکز لال حویلی پر چڑھائی کردی گئی، انہیں آب پارہ پولیس اسٹیشن کے ایک تفتیشی کی طرف سے تھانے میں پیش نہ ہونے کی صورت میں نتائج بارے سوشل میڈیا پرجاری اسلام آباد پولیس کے ایک بیان کے ذریعے آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے اسلام آباد میں پیش ہوکر عدالت کے روبرو سارا معاملہ رکھ دیا ۔ ہونا کیا تھا رات گئے دھر لیے گئے۔

دوسری طرف سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پر گجرات پولیس نے سیڑھی لگاکر چھاپہ مارا ،ایسی فسطائیت اس سے پہلے ماضی میں اسی، نوے کی دہائی میں ہی دیکھی گئی تھی جو اب دوبارہ شروع کی گئی ہے ۔ آئین شکنی کا سر عام عندیہ دیا جارہا ہے اور آئین کے مطابق نوے روز میں صوبوں کے انتخابات کرانے سے راہِ فرار کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں ۔ مقصد صاف ہے کہ وہ فی الوقت عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ملک آئی ایم ایف کے ہاتھ میں گروی رکھ دیا گیاہے اور عوام کو ایک وقت کی روٹی کابھی محتاج بنادیا گیا ہے، اس پر ظلم یہ بھی کیا گیا ہے کہ80 کے قریب ارکان پر مشتمل وفاقی ٹائی ٹینک کابینہ، جس میں 26 وزرابے محکمہ ہیں،سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر قوم کو کفایت شعاری کا بھاشن دے رہے ہیں۔ اشرافیہ کو سالا نہ اربوں روپے ڈکارنے کی اجازت دینے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دس فیصد کم کررہے ہیں اور افسران کو ڈیڑھ سو فیصدبنیادی تنخواہ پر گزارہ الاؤنس دیا جانے والا ہے اور اسی ماہ حکم حاکم’ آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر منی بجٹ بھی لایا جارہاہے کیونکہ وفاقی سالانہ میزانیہ بنے تو کس برتے پرکیوں کہ خزانہ تو خالی کیا جاچکا ہے ۔سوچ میرے بھائی ! اب ہوگا کیا؟۔

تازہ ترین