• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خراج کی گدا، قیصری

یوں لگتا ہے ابلیس نے سب کو ہائر کرلیا ہے، برائی کو نیکی اور دلیل و علم کا جامہ اس خوبصورتی سے پہنا دیا ہے کہ ہر شخص کا بیانیہ الہام کی صورت دل و دماغ میں اتر جاتا ہے، ایک صاحب نے گدا گری کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیئے مگر وہ یہ نہیں محسوس کر سکے کہ اس کے حاکم کی قیصری خراج کی گداگر ہے،جب کہ ملک میں قدم قدم پر دکھائی دیتی گدا گری اسی خراج کی پیدا وار ہے اور آج قیصری ڈوبتی اور تجوری بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ یقین جانیے وطن عزیز میں غربت کو امیری اور امیری کو غربت نظر نہیں آتی، 75 سال سے قصور وار کا تعین نہیں ہو سکا ، باہم سب غلط ہیں یا آئی ایم ایف ہے کہ ہماری گردن اس کے پنجوں میں ہے، الغرض ایک ایسی تاریکی ہے کہ دن کو تارے اور رات کو سورج سوا نیزے پر، رات کسے کہیں دن کا تعین کیسے کریں، کوئی دولت کی فراوانی سے تنگ نیند کی گولیاں کھاتا کوئی ایک لقمے کو ترستا لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ درد ہے کہ ُرلاتے رُلاتے ہنسا دیتاہے، یہ کیسا موسم ہے کہ کانٹے اور پھول دونوں میں الگ الگ چبھن ہے اور بُو بھی جدا جدا، ایک جنس اور بھی عام ہے جسے تکبر، اَنا اور بے پایاں غرور کہتے ہیں ، انسانی حقوق روندے جانے کے لئے پائوں کی تلاش میں اور پائوں بے تحاشا دولت کے باعث سرکچلنے کے لئے بیتاب کہ کہیں کوئی استبداد سے محروم نہ رہ جائے، کیا ہم نے پاکستان ان دنوں کے لئے حاصل کیا تھا کہ نہ کچھ دکھائی نہ کچھ سجھائی دے۔

٭٭٭٭

شکوۂ پارینہ و شکوۂِ نو

ایک وہ شکوہ کہ بہت پرانا اور ایک وہ جو بالکل نیا، دونوں میں سچ قدرِ مشترک، فرق بس نئے پرانے کا ہے، امیری، غریبی دونوں کا وجود برحق کیونکہ ان میں توازن قائم رکھنا ہی ایک حیوان کو انسان اور دوسرے جانور کو شیطان بناتا ہے، اسی کو اشرف المخلوقات کی آزمائش اور اسفل السافلین تک رسائی کہتے ہیں، پرانے شکوے میں پھر بھی قدرے مٹھاس تھی، نئے میں تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ محرومی آس پاس، غم پھر بھی قابل برداشت، محرومی کی چبھن ایک تلخ حقیقت ، ایک شکوہ جنت سے اخراج اور ایک کھجور میں اٹکنے کا، شاید ان دونوں شکوئوں کے بعد اپنی کمائی اور اپنا صلہ، جو جزا بھی ہے سزا بھی، تخلیق کے کارخانے میں یہ صنعت کہ جزا ہی جزا چاہے یہاں چاہے وہاں، خلاقِ ازل نے کوئی کسر تخلیق انسان میں باقی نہیں چھوڑی کہ وہ کوئی بہانہ ہی تراش لیتا، اس کے عدل اور ہمارے ظلم میں ہمارے ہی ہاتھوں کتنے فاصلے پیدا ہوگئے، خالق و مخلوق میں جو دوریاں جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت میں بدلنے کا سبب بن گئیں، جہاں جہاں بھی کوئی انسان موجود ہے وہاں سے ہنوز بوئے بہشت آتی ہے، انسان نے جب بھی اپنی انسانیت سے کام لیا، بہاریں اس کے دامن میں سما گئیں جس نے بھی اپنے اندر کےعزازیل کو باہر کردیا وہ اس خسارے سے بچ گیا جس کی طرف اللہ جل جلالہ نے زمانے کی قسم اٹھا کر کہا کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔

٭٭٭٭

ڈرامہ در ڈرامہ

تحریک انصاف نے فرمایا ہے، APC ڈرامہ ہے، عمران خان شرکت نہیں کریں گے، وزیر اعظم نے سابق وزیر اعظم کو مل بیٹھنے کی دعوت دی جسے بےدردی سے ٹھکرا دیا گیا، اگر شادی میں کوئی ایک آدھ مدعوشرکت نہ کرے تو بیاہ کینسل نہیں ہو جاتا، نہ نکاح ٹوٹتا ہے، نہ کوئی دیگ الٹ جاتی ہے، شادی تو ہو جاتی ہے، نہ اسمبلی میں ساتھ بیٹھے، البتہ لاجز میں فروکش رہے اور قبضہ برقرار رکھا، پہلے نکل گئے، پھر داخل ہونے کی کوشش کی مگر جنت کے دروازے بند ہو چکے یا خود پر بند کرلئے، دوسری جانب حکومت بھی صعوبت بن گئی تو وزیر اعظم شہباز شریف کو بند گلی کھولنے کی سوجھی اور گویا بہت دور کی سوجھی، دوستوں دشمنوں کا فرق اپنی ملائم طبیعت کو کام میں لا کر مٹا دیا ، جونہی مشکل ٹل جائے گی، مخالفت وہیں سے شروع کردیں گے جہاں چھوڑی تھی ہماری زندگی ڈرامے کی اتنی ہم رنگ ہوگئی، کہ اپنا گھر دیکھ لیں یا ڈرامہ ملاحظہ کرلیں، کچھ فرق نہیں ان دونوں میں الغرض صورتحال کچھ ایسی ہوگئی کہ ڈرامہ ڈرامہ کردی نی میں آپے ڈرامہ ہوئی، یا پھر بقول غالب؎

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

٭٭٭٭

نانی نےخصم کیتا

o ...مریم نواز:عمران خان نے خاندانوں کو لڑایا، بات کرنے کا سلیقہ، تہذیب چھین لی۔

الحمدللّٰہ ہمارے اوصافِ حمیدہ ایک جیسے ہوگئے۔

o ... آئی ایم ایف کو خدا سلامت رکھے کہ ہم بھی آئی ایم ایف فیل ہوگئے۔

o ... طلال:PTI کو جتنی جلدی ریلیف ملتا ہے کسی کو ملتے نہیں دیکھا۔

ہماری کیا مجال، قول طلال کو الٹا دیں، آپ سیدھے ہو جائیں گے۔

o ... فضل الرحمٰن نے طویل وقفے کے بعد دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔

o ... نانی نےکیتا چنگا کیتا، نئیں کیتا ہور چنگا کیتا۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین