• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: غلام مصطفیٰ ۔۔۔۔ مانچسٹر
بیرون ملکوں میں تقریباً 10ملین پاکستانی بستے ہیں وہ پاکستان کی موجودگی صورتحال سے سخت پریشان ہیں کہ وہ پاکستان جو دنیا میں مذہب کے نام پر وجود میں آیا تھا ،اج اس کو دنیا نے اکیلا چھوڑ دیاہے،قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے،کون زمہ دار ہے،سیاست داں،بیوروکریٹ، سیکورٹی ادارے اپنا اپنا کام کرتے نظرآتے ہیں،دوسری جانب اندرونی قرضہ جات کے معاملات میں حکومت پاکستان اپنا اثرورسوخ اور دیگر مثبت و منفی طریقہ کار استعمال کر کے ادائیگی کی مدت بڑھوا لیتی ہے لیکن زیادہ کرنسی نوٹ چھاپ دینا بھی مسائل کا سبب ہوتا ہے، ری پےمنٹس، بیرون ممالک کے قرضوں کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بہت دباؤ ہے۔ زیادہ نوٹ چھاپ دینے سے قرض واپس نہیں ہوسکتا کیونکہ قرض بیرونی کرنسی میں لیا جاتا ہے اور بیرونی کرنسی میں ہی ادا کرنا ہوتا ہیں،البتہ بیرونی ذرائع سے لیا ہوا قرضہ ذرا ٹیڑھا معاملہ ہے کیونکہ عالمی اداروں پے اثرورسوخ استعمال کرنا سوپر پاورز کے بس میں ہی ہوسکتا ہے۔ پاکستان اپنی کمزور معیشت، برسوں سے لیے ہوئے غیرمعمولی قرضوں، سیاسی بدحالی، اندرون خانہ بدعنوانی، سماجی بدحالی اور غیرمعیاری سفارت کاری کے سبب دنیا میں اپنا اثرورسوخ کھوچکا ہے۔ لہذا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے کسی بھی غیرمعمولی نوعیت کی رعایت حاصل کرنا پاکستان جیسے ملکوں کے بس میں نہیں ،اخبارات، نیوز چینل اور سوشل میڈیا پر کچھ عرصے سے ملک کے دیوالیہ ہونے پر بات ہورہی ہے، ہر طرف اقتصادی بقراط مسئلے کو حل کرنے کیلئے اپنے قیمتی مشورے دے رہے ہیں لیکن دیوالیہ ہونے کا اصل مفہوم اور ایسی صورتحال کے بنیادی اسباب صورتحال سے نمٹنے کیلئے زیادہ اہم ہو سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب کوئی حکومت عالمی مالیاتی اداروں یا اندرون ملک بینکوں سے قرض لیتی ہے تو وہ ان مالیاتی اداروں کے ساتھ ایک مخصوص مدت کا معاہدہ کرتی ہے معاہدے میں طے پاتا ہے کہ قرض کس سال ، کس تاریخ اور کن شرائط پر سود سمیت واپس کیا جائے گا، آئی ایم ایف جیسے ادارے قرضہ جات کے معاہدوں کے وقت شرائط کی ایک لمبی فہرست بھی حوالے کرتے ہیں۔ ادائیگی یک مشت نہیں بلکہ قسطوں کی شکل میں کی جاتی ہے، آئی ایم ایف یہ دیکھتا ہے کہ پاکستان یہ قرض واپس کرسکتا ہے کہ نہیں۔ شرائط اسی لیے دی جاتی ہیں کہ ملک اپنی ادائیگیوں اور اخراجات کا توازن برقرار رکھ سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں بیرونی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے دستیاب زرمبادلہ کے ذخائر اگلے چند ماہ سے زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتے۔ پاکستان پہلی بار سال 1998میں اس وقت دیوالیہ ہونے کے درپے تھا جب ایٹمی تجربات کے بعد ملک کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، وزارت خزانہ کے مطابق سال 2020میں ملک کی GDP کے تناظر میں ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کی شرح 76.6 فیصد تھی، سال 2021میں یہ شرح 72فیصد رہی۔ 2022 میں یہ شرح کم ہو کر 67فیصد ہوگئی، اس کے باوجود تیزی سے گھٹتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتا ہوا تھارتی خسارہ ملک کیلئے تشویش ناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کی ملک کے پاس طے شدہ قسط کی بروقت ادائیگی کیلئےڈالرز ناکافی ہوں وہ دیوالیہ ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ گزشتہ سال سری لنکا کے طرح متاثر ملک کی حکومت خود دیوالیہ ہونے کا اعلان کرسکتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں ملک بھر کے عوام اشیائے صرف کی بار بار عدم دستیابی اور روز روز بڑھتی مہنگائی کے عذاب سے دوچار ہیں۔ سال 2015 میں جنعبی یورپی ملک یونان آئی ایم ایف کو ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کی ادائیگی میں ناکامی کے سبب دیوالیہ قرار دے دیا گیا۔ بینک آف انگلینڈ اور بینک آف کینیڈا کے مشترکہ ڈیٹابیس کے مطابق سال 1960کے بعد 147ممالک دیوالیہ قرار دئے جاچکے ہیں۔ زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی، قرضوں کا بھاری بوجھ، حد سے بڑھا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور سیاسی عدم استحکام کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کی بنیادی وجوہات قرار دی جاتی ہیں۔ زرمبادلہ ذخائر کا حجم اور فوری طور پر قرضوں اور سود کی کُل مالیت کا تقابل معاشی صورتحال کو جانچنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ گزشتہ برس جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اگلے تین برس میں چھ ارب چالیس کروڑ ڈالر کا قرضہ لوٹانا ہوگا، سعودی عرب سے حاصل کردہ تین ارب اور چین سے لیے ہوئے چار ارب ڈالرز ان کے علاوہ ہے، دیوالیہ ہونے سے قبل بگڑتے ہوئے معاشی حالات کی چند نشانیوں ہوتی ہیں، کسی ملک کی برآمدات کا ملک کی درآمدات سے بہت زیادہ ہوجانا خطرے کی گھنٹی قرار دیا جاتا ہے، اس وقت ملک بھر میں معاشی بدخالی کی بیان کردہ نشانیاں جابجا دکھائی سے رہی ہیں لیکن حکومت میں شامل تمام ذمہ داران اس وقت تک اس صورتحال ہر قابو پانےسے قاصر نظر آتے ہیں گویا انہیں کسی معجزے کا انتظار ہو۔
یورپ سے سے مزید