• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کی ضرورت نہیں!!

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

یادداشت کھو بیٹھا

پچھلے دوتین ماہ ڈاک خانے سے لفافے نہ ملنے کی وجہ سے سخت پریشان رہا اور اس پریشانی میں اتنا بیمار ہوا کہ اپنی یادداشت تک کھو بیٹھا۔ پھر سادہ لفافہ حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ بہرحال، آپ کے سلسلے ’’آدمی‘‘ اور ’’جہانِ دیگر‘‘ لاجواب ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بہترین معلومات فراہم کررہا ہے۔ شفق رفیع کے مضامین کاجواب نہیں ہوتا۔ منور مرزا ہمیشہ کی طرح ’’حالات و واقعات‘‘ میں الجھے نظر آئے۔ پیارا گھر، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش اور نئی کتابیں عُمدہ سلسلے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل کرنے کا بےحد شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ نے یادداشت کھونے کی بات یقیناً ازراہِ مذاق کی ہوگی، وگرنہ محض لفافے نہ ملنے پر یادداشت کا چلے جانا کافی اَن ہونی سی بات ہے۔

خُوب صُورت ہیڈنگ کے ساتھ

آج سنڈے میگزین کھولا تو میرا خط ایک خُوب صُورت ہیڈنگ کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ گویا قابلِ عزت ٹھہرا۔ بےحدخوشی ہوئی۔ منور مرزا کا تجزیہ لاجواب تھا۔ محمود میاں نجمی مکّہ مکرّمہ سے متعلق شان دارمعلومات فراہم کررہے ہیں۔ پولیو پر اچھی بات چیت کی گئی۔ عالیہ شمیم نے ’’تبدیلی‘‘ کے عنوان سے بہت اچھا افسانہ تحریر کیا۔ رشید اثر پر مضمون بھی کمال تھا اورخطوط نگاروں کے خطوط بےحدمزے کے تھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، مظفر گڑھ)

’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کی ضرورت نہیں!!

سنڈے میگزین بلاشبہ بہت ہی سُودمند جریدہ ہے۔ سب مضامین اچھے ہوتے ہیں، خصوصاً گھر بیٹھے بندہ جو دنیا جہان کی سیر کر لیتا ہے، کیا کہنے۔ بہرحال، ایک بات کہنا چاہوں گی کہ میرے خیال میں میگزین میں صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی کچھ خاص ضرورت نہیں کہ ہمارا دین صرف علم کا نہیں، عمل کا نام ہے۔ جب کہ یہ صفحہ صرف رسمی طور پر شایع ہورہا ہے۔ علم تو ہمارے پاس ویسے ہی بہت ہے، اصل میں تو عمل کی کمی اور فقدان ہے۔ میری طرح کچھ اور لوگ بھی اعتراض کرتے ہیں، مگر آپ لوگوں پر بھینس کے آگے بین بجانے والی مثل ہی صادق آتی ہے کہ جو مرضی کہتے رہو، کرنی ہم نے اپنی ہی مرضی ہے۔ (نرگس خان، لاہور)

ج: محترمہ! ہمارے خیال میں تو جب سے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ شروع کیا گیا ہے، آپ ہی وہ پہلی عظیم ہستی ہیں، جس نے اس کی اشاعت پر اعتراض کیا ہے اور جواز بھی اتنا بھونڈا پیش کیا ہے کہ ہمیں دفاع میں کچھ کہنا ’’بھینس کے آگے بین بجانے‘‘ جیسا معلوم ہورہا ہے۔ عموماً لوگوں کے تحفّظات کچھ اور نوعیت کے رہے ہیں، نہ کہ کبھی کسی نے صفحے کی اشاعت ہی پر اعتراض یا سوال اُٹھادیا ہو۔ یوں بھی پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہم علم ہی بانٹ سکتے ہیں، عمل کا ڈیمو دینے تو گھر گھر جانے سے رہے۔ بہرحال، آپ ہماری مانیں، اِس علم سے خود بھی کچھ حاصل کریں اور پھر عمل کرکے دوسروں کے لیے بھی قابلِ تقلید بننے کی کوشش کریں۔

خطوط کا سلسلہ پسند ہے

جنگ اخبار اور سنڈے میگزین ہمیشہ سے میرے پسندیدہ ہیں۔ مَیں آپ کے تمام ٹیم ممبرز کی دل سے قدر کرتی ہوں۔ مجھے جریدے میں خطوط کا سلسلہ بہت پسند ہے۔ ہر ہفتے بہت ہی ذوق و شوق سے یہ صفحہ پڑھتی ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ آپ میرا یہ پہلا خط ضرور شاملِ اشاعت کریں گی۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج: جی، ہم تو آپ کی اُمید پر سو فی صد پورے اُتر ہی گئے ہیں۔ اب آپ ایک کام کیجیے گا، جریدے کے کچھ اور صفحات کا بھی مطالعہ کر کے اُن سے متعلق بھی اپنی رائے لکھ بھیجیے گا۔

نواب شاہ سے متعلق بھی

واہ بھئی، زبردست، دسمبر کا پہلا شمارہ حسبِ روایت بہت ہی زبردست تھا۔ کیا بات ہے نجمی صاحب کی بھی، پہلے مکّہ مکرّمہ اور اب مدینہ منوّرہ کے بارے میں اتنا کچھ پڑھنے کو مل رہا ہے کہ دل خوش ہوگیا، حالاں کہ تاریخ پر لکھنا بہت مشقّت طلب کام ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے قلم میں اور طاقت و برکت پیدا فرمائے۔ میرا دوسرا پسندیدہ ترین سلسلہ ’’جہانِ دیگر‘‘ ہے۔ ڈاکٹر رانجھا بھی کیا خُوب لکھتے ہیں۔ سچ میں ’’دہلی نامہ‘‘ پڑھ کے بہت ہی مزہ آرہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے، جیسے بندہ اُن کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔ اپنے نواب شاہ والے رائو صاحب بھی ہمیشہ کسی نئے اور اچھوتے موضوع کے ساتھ آتے ہیں۔ فیفا ورلڈ کپ سے متعلق بھی انہوں نے کئی نئی نئی باتیں بتائیں۔ ایک درخواست ہے، اگر ممکن ہو تو رائو صاحب کبھی نواب شاہ سے متعلق بھی کچھ معلومات فراہم کریں۔ (سمیع عادل زادہ، جھڈو، ضلع میرپور)

ج: آپ کی فرمائش رائو محمّد شاہد اقبال تک پہنچ گئی ہے۔

ہر قسم کی بات کی آزادی

دیکھیے، آپ ہماری عزّت کیا کریں۔ ہم کوئی معمولی ادمی نہیں ہیں، ہم ایک اصل نواب زادے ہیں اور ایک عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ ہمارے خطوط کی ایڈیٹنگ نہ کیا کریں، اُنہیں مِن و عن شایع کیا کریں اور قارئین کو ہر قسم کی بات کرنے کی لبرٹی دیا کریں، ورنہ یہ لکھنا چھوڑ دیں کہ ’’جو جی میں آئے، لکھ بھیجیں۔‘‘ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: آپ اپنے چشمے کا نمبر تبدیل کروائیں۔ ہم نے ’’جو دل میں آئے، لکھ بھیجیں‘‘ سے پہلے بھی کچھ مغزماری کر رکھی ہے۔ ہمارا پورا اعلان ایک بار پھر پڑھنے کی زحمت کریں۔ ’’یہ جو دل میں آئے‘‘ کی لبرٹی ہے، یہ صرف سنڈے میگزین کے صفحات تک محدود ہے۔ اِس میں مُلکی سیاست سے لے کر خانگی جھگڑوں تک کی رام کہانیاں لکھنے کی دعوت ہرگز نہیں دی گئی۔ یوں بھی مُلکی سیاست جس نہج پر آگئی ہے، اُس کے تذکرے سے اب صرف کوفت ہی ہوتی ہے اور آپ کے گھریلو فسانوں، مسئلوں سے ہمیں قطعاً کوئی دل چسپی نہیں۔

گھر بَھر کے افراد کے لیے

ہر اتوار سنڈے میگزین کا شدّت سے انتظار رہتا ہے، کیوں کہ اس ایک چھوٹے سے جریدے میں گھر بھر کے افراد کی دل چسپی کا کچھ نہ کچھ مواد ضرور موجود ہوتا ہے۔ ویسے میرے مَن پسند صفحات ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ کا صفحہ بھی شوق سے پڑھتا ہوں۔ کبھی مَیں بھی جنگ کے مڈویک میگزین کا مستقل حصّہ ہوا کرتا تھا۔ (غلام اللہ چوہان، گزدر آباد، کراچی)

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ…؟

اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔ بھادوں کا بھید بَھرا موسم عروج پر ہے۔ پَل میں تولہ پَل میں ماشہ، دھوپ چھائوں کی آنکھ مچولی کی اصطلاحات اور ’’بہاچوٹی سے ایڑی تک پسینہ‘‘ کی کیفیات بھی اِسی موسم کے ساتھ مخصوص ہیں اور بس موسم کی یہ یہی ادائیں دیکھتے دیکھتے آج ہم بھی بزم میں حاضر ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں تو لوگ بے شک بدل جائیں، لیکن محفل کی رونقیں قائم و دائم رہنی چاہئیں۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ مبارک باد کی مستحق ٹھہری۔ شائستہ اظہر صدیقی نے واقعی بہت خُوب لکھا۔ اچھی سوچ، اچھا اظہار۔ افوہ! اس بار پھر ’’جنگ پزل‘‘ نے دو صفحات کھالیے۔ ’’بَڈی ماموں‘‘ کا عبرت آموز اختتام پڑھا۔ مَن چاہی گزار کر بھی بند ناآسودہ رہے، تو مقامِ عبرت ہی ہے۔ 

زندگی حدود و قیود کے ساتھ گزارنی چاہیے کہ کم از کم آخری دَموں پچھتاوے تو نہ ستائیں۔ خیر جی، بھانت بھانت کے لوگ، طرح طرح کے مزاج و عادات،انسانی فطرت کی جولانیاں سمجھنا نہایت مشکل امر ہے۔ ’’سفر چین‘‘ جب شروع کرتے ہیں تو ’’جاری ہے‘‘ ہی پر اسٹاپ کرتےہیں۔ تحریر کی روانی ساتھ بہائے چلےجاتی ہے۔ میگزین کا آغاز، وسط اور اختتام ڈاکٹر حضرات نے سنبھال رکھا ہے۔ اسپتال بھی اشتہارات پرآگئے۔ باشعور، باکمال خوش بخت شجاعت کا انٹرویو دل چسپی سے پڑھا۔ سیاسی شعور سےپہلے عوام کےلیےسماجی شعور کی تربیت بھی ازحد ضروری ہے۔ اور ہماری تحریروں کی اصلاح کا بے حد شکریہ۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: لگتا ہے، آپ کا خط کسی بہت ہی پرانے لاہور سے آیا ہے کہ ہم تک پہنچتے پہنچتے5 ماہ لگ گئے۔ بہرحال، چوں کہ آپ ایک اچھی لکھاری ہیں، تو ’’دیر آید، غلط آید‘‘ کے باوجود بھی شایع کیے دے رہے ہیں۔

لاکھوں کے انعامات…؟

بھئی، یہ کیا تبدیلی آگئی ہے کہ میگزین کا صفحہ کھولتے ہی لاکھوں کے انعامات نظر آرہے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں وحید زہیر نے سیلاب زدگان کے لیے جو کچھ بھی تحریر کیا، وہ درحقیقت ہمارے بھی دل کی آواز تھی۔ عرفان احمد خان کا انٹرویواچھا تھا، پسند آیا۔ خالدعلیگ کی ’’یادداشتیں‘‘ اختر سعیدی نے عُمدگی سے رقم کیں۔ عرفان جاوید کے ’’آدمی‘‘ مطیع الرحمان بھی مزے کے آدمی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’ساس ہی ساس‘‘ کا جواب نہیں تھا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ خُوب صُورت سلسلہ ہے، پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جویریہ شاہ رخ کا افسانہ پسند آیا۔ غزلیں بھی خُوب تھیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایک ہی واقعہ تھا اور دل چسپ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ’’جنگ پزل‘‘ کا سلسلہ آج کا نہیں، برسوں پرانا ہے، مگر یہ ادارتی صفحات کا حصّہ نہیں، مارکیٹنگ کا ذیلی شعبہ ہے۔ سو، ہماری طرف سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم تو برس ہا برس سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں کہ 2018ء میں ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر جو چُورن بیچا گیا اور اُس نے جس طرح پوری قوم کا ہاضمہ ہی نہیں، سارا امیون سسٹم تباہ کر ڈالا۔ ہماری ہر قسم کی ’’تبدیلی‘‘ سےتوبہ ہی بھلی۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید کرتی ہوں خوش باش ہوں گی۔ پہلی مرتبہ خط لکھ رہی ہوں اور بڑی ایکسائیٹڈ ہوں کہ ’’مَیں خط لکھ رہی ہوں‘ ورنہ آج کے ڈیجیٹل دَور میں بھلا کون کاغذ، قلم تھام کر اِس طرح چِٹھیاں لکھتا ہے۔‘‘ اور جی چاہ رہا ہے کہ پوسٹ کرنے کے بجائے کبوتر کے پائوں سے باندھ کے بھیجوں، لیکن ڈر ہے، کہیں دانہ دُنکا دیکھ کر بےچارہ جال ہی میں نہ پھنس جائے۔ ہاہاہا… مجھے لکھنے لکھانے کا کچھ زیادہ تو نہیں پتا، لیکن اُمید ہے، آپ کی شاگردی میں سیکھ جائوں گی۔(اِن شاء اللہ) لوگ کہتے ہیں، مَیں بولتی بہت ہوں اور ہنستی بھی بہت ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ بھئی، میرے نزدیک تو زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مُردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔ 

خیر، مندرجات پر کچھ تبصرہ ہوجائے۔ اِس سے پہلے کہ آپ میرا محبّت نامہ مکمل پڑھنے کے بجائے توڑ مروڑ کے کھڑکی سے باہر اچھال دیں۔ ہاہاہا… مدینتہ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق محمود میاں کا تفصیلی مضمون سیرحاصل معلومات فراہم کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے قلم اور ہمارے علم میں مزید برکتیں عطا فرمائے۔’’انٹرویو‘‘ کے کچھ ہی سوالات اور اُن کے جوابات پڑھے، یعنی بالکل لاسٹ والے، چھوٹے چھوٹےسے تھے ناں۔ ہاہاہا… البتہ فیفا ورلڈ کپ سے متعلق مضمون، فُٹ بال سے دل چسپی نہ ہونے کے باوجود مکمل پڑھا اور بڑی دل جمعی سے پڑھا۔ فول پروف سیکیوریٹی پاکستانی فوج فراہم کر رہی ہے، جان کر خُوشی بھی ہوئی اور فخر بھی۔ ٹوئٹر آزاد ہوگیا، یعنی چڑیا آزاد ہوگئی۔ مطلب ’’اُڈ گیا کاں، جلیبی چُک کے‘‘ہاہاہا… ’’سادگی میں بڑاسنگھار سا ہے‘‘ بھئی، ہم تو ماڈل میں سادگی تلاش ہی کرتے رہ گئے۔ غالباً اتنے سارے میک اپ کے نیچے ہی کہیں چُھپی ہوگی۔

میرے خیال میں تو سُرخی کچھ یوں ہونی چاہیے تھی۔ ’’میک اَپ میں بڑا سنگھار سا ہے‘‘ہاہاہا۔ ایک تجویز ہے، اگر مناسب لگے تو ٹھیک اور نہ لگے، تو بھی ٹھیک،ہاہاہا… اچھا تو مَیں کہہ رہی تھی کہ آپ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریرکے لیے ایسےہی ایک دعوتی پیغام شایع کریں، جیسے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے لیے کرتی ہیں اور اپنے لکھاریوں کو خُوب صُورت سی تحریر لکھنے کی دعوت دیں،اُس میں کپڑوں کا اسٹف، ڈیزائنز وغیرہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں، وہ تو خُود دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہیترے… ’’جہانِ دیگر‘‘ میں اب چِین کے بعد ’’دہلی نامہ‘‘ دیکھ کر بہت اچھا لگا، خاص طور پر ٹھیٹھ پنجابی کے جملے پڑھ کر تو مزہ ہی آگیا، اب تک منہ میں ذائقہ ہے، نہیں شاید دماغ میں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں روہی کی میٹھی زبان میں حمدیہ مجموعہ ’’عقیدت‘‘ دیکھ کر جو خُوشی ہوئی، بتا نہیں سکتی۔ مِٹھڑے بول سرائیکی دے، سوہنڑے لوگ سرائیکی دے۔

مَیں خواجہ غلام فرید کا کلام بڑے جذب سے سُنتی اور پڑھتی ہوں۔ جان کی امان پائوں، تو آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں کہ ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ میں ڈھاک کیا چیز ہے اور اِس کے تین پات کیا ہوتے ہیں؟ مَیں تو یہی سوچ سوچ کر آدھی ہوئی جاتی ہوں۔ ہمارا صفحہ میں شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کی تاج پوشی ہوئی، مبارکاں انکل جی، پچھلے ہفتے صادق آباد سے دو خط اور اس بار ایک بھی نہیں، ایسا بھی ہوتا ہے۔ 

یہ بھی بتادیں، پلیز کہ نامہ نگار کا درست نام شری مُرلی ہے یا شُرلی مرلی؟ کبھی ’’یہ‘‘ تو کبھی ’’وہ‘‘ لکھا ہوتا ہے، ہاہاہا… اور اب اِس سے پہلے کہ آپ کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوجائے اور آپ سچ مُچ ہمارا محبت نامہ کھڑکی سے باہر پھینکیں، اجازت لے لیتی ہوں، اس شعر کے ساتھ ؎ لاکھ کہتے رہیں، ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا…ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا۔ دیکھیے، دروازے پر جاتے جاتے ایک بات اور یاد آگئی۔ اسماء دمڑ کی کمی بڑی شدّت سے محسوس ہو رہی ہے۔ عشرت جہاں اور صبیحہ عمّاد بھی غائب ہیں۔ اللہ کرے سب عافیت سے ہوں۔ (نیناں اکبر کیانی، صادق آباد)

ج: ہاہاہا… تم واقعی بہت بولتی اور بہت ہنستی ہو، بلکہ ہمیں بھی بےاختیار ہنسنے پر مجبور کردیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے متعلق تمہاری تجویز بہترین ہے۔ یوں بھی اب یہ ذمّے داری ہمارے گلے آن پڑی ہے کہ عالیہ کاشف استعفیٰ دے گئی ہیں اور ہماری اکلوتی فی میل ٹیم ممبر شفق رفیع کو فیشن اور شوبز سے خدا واسطے کا بیر ہے، تو یوں کرو، پہلا رائٹ اَپ تو تم ہی لکھ بھیجو۔ یوں بھی اندازہ ہورہا ہے کہ صادق آباد کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری سامنے آرہی ہے اور ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ کہاوت سے متعلق ہمارا علم بھی بس اتنا ہی تھا کہ یہ عموماً ظاہری نمائش، کسی کی مفلسی، ناداری ظاہر کرنے یا اپنی بات پر اَڑے رہنے، کسی دلیل سے قائل نہ ہونے کے موقعے پر بولی جاتی ہے۔ 

تفصیلاً جاننے کے لیے تھوڑی جستجو کی تو پتا چلا کہ ڈھاک جنوبی ایشیا کے معروف درختوں میں سے ایک ہے(ڈھاکا کی وجۂ شہرت بھی وہاں ڈھاک کے درختوں کی بہتات تھی) اور اِس کے تین تین پتّے ایک ساتھ ہوتے ہیں، جنہیں گھاس یا تیلیوں کی مدد سے جوڑ کر ایک برتن (دُونا) کی شکل دی جاتی ہے۔ بھارت اور بنگلادیش میں حلوائی اِسی دُونے میں رس گلے، گلاب جامن اور قلاقند رکھ کےدیتے ہیں۔ اب کسی ناکام کوشش کے بعد سدا ایک حال میں رہنے والوں سے متعلق یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ تو یہ ہمیں اتنی جستجو سے بھی نہیں پتا چل سکا۔ اوردرست نام شری مرلی ہے، شرلی مرلی نہیں۔ ہا ہا ہا…

گوشہ برقی خطوط

* کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ سنڈے میگزین میں کوئی بھی تحریر بھیجنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ (کرن فیروز)

ج: ہم یہ طریقہ کار کوئی سیکڑوں بار تو بتا چُکے ہیں۔ آپ غالباً نئی قاریہ ہیں۔ بہرحال، آپ اپنی کوئی بھی غیر مطبوعہ تحریر ہاتھ سے لکھ کر یا اردو اِن پیج میں کمپوز کرکے ہمیں بھیج سکتی ہیں۔ ای میل کے ذریعے بھیجنا چاہیں یا بذریعہ ڈاک دونوں کے لیے ایڈریسز اِسی صفحے پر موجود ہیں۔ اگر ڈاک سے بھیجیں، تو خیال رکھیں، تحریر خوش خط ہو، حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھی جائے اور صفحےکےصرف ایک جانب لکھیں، یعنی صفحے کی بیک سائیڈخالی چھوڑ دیں۔

* اُف آپ کی 18 دسمبر والی گنجی ماڈل دیکھ کر تو بس مَیں بےہوش ہوتے ہوتے بچی۔ اِس انتخاب پر میری طرف سے21توپوں کی سلامی قبول فرمائیں۔ کیا آپ کو لمبے بالوں والی کوئی ماڈل نہیں ملتی۔ ویسے یہ تو حد ہی یار۔25 دسمبر والی ماڈل نسبتاً بہتر تھی، اُسے میں100میں سے80نمبر دوں گی۔ اور جن لوگوں کو ناقابلِ فراموش کا یہ انداز پسند آرہا ہے، اُن کی خدمت میں بھی 22 توپوں کی سلامی۔ رعنا فاروقی سے یہ صفحہ کیوں لیا گیا ہے، مَیں اب تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ (نام نہیں لکھا)

ج: اگرچہ تم نے ای میل کےساتھ نام نہیں لکھا، مگر اندازِ تحریر سے اندازہ ہوا کہ تم لاہور سے آمنہ اسلم ہی ہو سکتی ہو کہ اپنی پچھلی ای میل میں بھی تم نے ماڈلز کے خُوب بخیے ادھیڑے، لتّے لیے تھے اور یہ ای میل بھی گزشتہ سے پیوستہ ہی معلوم ہو رہی ہے۔ مگر اب کی بار تم زیادتی کررہی ہو۔ ہماری 18 دسمبر کی ماڈل تو اچھی خاصی خوش شکل اور اسٹائلش تھی۔ تم نے اسے گنجی ہی بنادیا، جب کہ اُس نے ہر ڈریس کے ساتھ ٹربن اور بنڈانہ اسٹائل اسکارف لپیٹ رکھا ہے، اب تمہیں کیا معلوم کہ اُس کے بال کتنے لمبے ہیں اور رعنا فاروقی نے بھی ناقابلِ فراموش کے لیے کام کرنے سے خُود معذرت کی، نہ کہ ہم نے اُن سے صفحہ لے لیا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk