یہ دہلی کی ایک گرما گرم سویر تھی۔ گھڑی نے نو بجائے، تو ہم لوگ ٹیکسی میں بیٹھ کے لال قلعہ کی طرف چل دیئے۔ مسافروں کا پڑاؤ قلعۂ معلیٰ میں تھا۔ وہی لال قلعہ، جس کی برقی قمقموں سے روشن سنگِ سُرخ کی پُرشکوہ اور پُرہیبت فصیلوں کورات کے اندھیرے میں دیکھا تھا۔ پھر اُسی سنہری مسجدکے سامنے ٹیکسی سے اُترے، جہاں کل رات اُترے تھے۔ دائیں ہاتھ پارکنگ تھی، بائیں ہاتھ سنہری مسجد۔ پارکنگ سے سیدھے چلے، تو لال قلعہ کی عمارت آگئی۔ دائیں ہاتھ قلعے کا دہلی گیٹ تھا،جو شاہ جہان آباد (پرانی دلّی) کی طرف کُھل رہا تھا۔
عموماً قلعے کا یہ دروازہ بند رہتا ہے۔ سیاحوں اور قلعے کی سیر کرنے والوں کے لیے صبح دس بجے سے شام چھے بجے تک لاہوری دروازہ کُھلتا ہے۔ تارکول کی سیاہ سڑک فصیل کے ساتھ ساتھ گھومتی جارہی تھی۔ فصیل کی بنیادوں اور سڑک کے درمیان ایک خندق نُما نہر ہے، جو خُود رَو جھاڑیوں، جنگلی بیلوں اور بےہنگم بڑھ ہوئی گھاس سے اَٹی پڑی تھی۔ لوگوں کا ایک سیل بیکراں ہم لوگوں کے آگے پیچھے، فصیل کے ساتھ ساتھ دہلی دروازے سے لاہوری دروازے کے طرف رواں تھا۔ کچھ لوگ ای رکشا پہ بھی محوِ سفر تھے، مگر ہم لوگوں کو تو پیدل مارچ میں مزہ آ رہا تھا۔
لاہوری دوازے کے سامنے ایک چھوٹی سی فصیل ہے، جس نےمغرب کےرُخ لال قلعے کے لاہوری دروازے کوچُھپا رکھاہے۔ ایسے ہی جیسے کسی خُوب رُو حسینہ نے اپنے رُخِ روشن پہ نقاب ڈال رکھی ہو۔ یعنی لال قلعے کا چہرہ اِس چھوٹی فصیل کے پیچھےچُھپا ہوا ہے۔ یہ گھوگس یا چھوٹی فصیل اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے دَور میں قلعے کی حفاظت کو دوچند کرنے کے لیے تعمیر کی۔ بقول خواجہ حسن نظامی، قلعۂ معلیٰ کے خالق شاہ جہان نے، جو اُس وقت آگرہ میں قید تھا، اورنگ زیب کو خط لکھا کہ ’’فرزندِ ارجمند! تم نے قلعےکو دلہن بنایا اور اُس کا گھونگھٹ نکالا۔‘‘ لاہوری دروازےکی دو بڑی بُرجیاں اوران بُرجیوں پہ چھوٹے چھوٹے دوگنبد اِس طرح نظر آرہے تھے، جیسے نقاب سےجھانکتی دو آنکھیں ہوں۔ اِن دو بُرجیوں کی درمیان سنگِ مرمر کی سات بُرجیاں تھیں، جن کو جلو میں لیےدو گاودم مینار سر بلندکھڑے تھے۔ لاہوری دروازے پہ لہراتا بھارتی ترنگا بھی اس چھوٹی فصیل سے نظر آرہا تھا۔ اُس چھوٹی فصیل کے سامنےکھڑے ہو کے سب ہی نے تصویریں کھنچوائیں۔
لاہوری دروازہ عین چاندنی چوک کے بالکل سامنے ہے۔ اِس چھوٹی فصیل سے آگے بائیں ہاتھ ٹکٹ کاؤنٹر تھا۔ غیرمُلکی سیاحوں کی قلعے میں داخلے کی ٹکٹ چھے سو بھارتی روپے یعنی لگ بھگ اٹھارہ سو پاکستانی روپے تھی، جب کہ بھارتی جنتاکےلیے ٹکٹ چالیس روپے کا تھا۔ بلاشبہ، بھارتی حکومت بہت کمرشل ہو چُکی ہے، اُس نے لال قلعہ ٹھیکے پہ مکیش امبانی کو تفویض کردیا ہے اور وہ غیر مُلکی سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ کر اُن کی جیبیں ہلکی کررہا ہے۔
قادرگُل ٹکٹ کی قیمت دیکھ کے بےساختہ بولے۔ ’’بھیّا! یہ قلعۂ معلیٰ تو ہم مسلمانوں کی میراث تھا۔ ٹکٹس کی یہ ساری رقم تو امبانی کو ہمیں دان کردینی چاہیے، بجائے اِس کے کہ ہماری جیبیں ٹٹولے۔‘‘ خیر، ٹکٹس کے لیےلائن میں لگ گئے۔ ٹکٹس کے ساتھ ٹوکن بھی ملے۔ وہ ٹوکن مشین میں ڈالے، تو قلعۂ معلیٰ کی طرف جانے والے راستے کی آہنی سلاخیں ’’کُھل جا سم سم‘‘ والے غار کے دروازے کی طرح کُھلتی چلی گئیں۔ اِن آہنی سلاخوں کو پار کرکے ہم لاہوری دروازے کی طرف چل پڑے۔ اُن سلاخوں سے آگے لاہوری دروازے کےسامنے کی فصیل میں ایک چھوٹا دروازہ تھا، جس کے دونوں طرف لوہے کی دو چھوٹی سی توپیں نصب تھیں۔
وہ دروازہ ایک مختصر سے احاطےمیں کُھلتا تھا۔ اِسی احاطے میں بائیں طرف قلعۂ معلیٰ کا لاہوری دروازہ ہے۔ لاہوری دروازے سے لوگوں کا ایک جلوس قلعے میں داخل ہو رہا تھا۔ پھر ایک مسقف بازار تھا، جو اُس دروازے ہی سےشروع ہو رہا تھا۔ خواجہ حسن نظامی نے’’سیرِ دہلی‘‘ میں اِس بازار کا نام ’’چھتہ بازار‘‘ لکھا ہے۔ اِس میں دو طرفہ بتیس دکانیں ہیں۔ بادشاہ شاہ جہان نے ہی اِس بازار کو تعمیر کروایا تھا۔ اب بھی یہ بازار آباد ہے اور اِن دُکانوں میں مصنوعی زیورات، یادگاری اشیا اور لکڑی کے کھلونے وغیرہ فروخت ہو رہے تھے۔
ہم مسقف بازار سےنکلے، تو سامنے سے قلعۂ معلی کی روشیں، گھاس کے قطعات اور عمارتیں شروع ہوگئیں۔ بائیں ہاتھ انگریزوں کے دَور میں تعمیر کی گئی بیرک نُما عمارات تھیں، جن میں اب لال قلعے کا عجائب گھر یا میوزیم ہے۔ پہلی عمارت میں 1857 کی جنگِ آزادی کی تصاویر اور سامانِ حرب وغیرہ رکھا تھا۔ دوسری میں سانحہ جلیانوالہ باغ کی یادگار کی نقل بنا کر رکھی گئی تھی، تیسری عمارت میں سبھاش چندر بوس اور اس کی انڈین نیشنل آرمی سے متعلق اشیاء، تصاویراور دستاویزات وغیرہ تھیں۔ مسقف بازار سے، جسے مینابازار بھی کہتے ہیں، سیدھے چلتے ہوئے ہم نوبت خانےکی ڈیوڑھی نُما عمارت میں پہنچ گئے۔
شاہی دَور میں یہ نوبت پانچ دفعہ بجتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کے بقول وزراء، امرا اورسفیر نوبت خانے سے پہلے ہی گھوڑے یا سواری سے اُترجاتےتھے کہ نوبت خانے سے آگے سواری میں جانا خلافِ آداب تھا۔ فرانسس ہاکنس کو،جو کہ دہلی کا ریزیڈنٹ تھا، صرف اِسی بنیاد پہ برطرفی کاپروانہ مل گیا تھا کہ وہ گھوڑے پرسوار ہو کرنوبت خانے میں داخل ہو گیا تھا۔ نوبت خانے سے آگے سُرخ رنگ کے پتھروں کا ایک راستہ ہے،جو کہ دیوانِ عام کی طرف جاتاہے اور ہم دیوانِ عام کی طرف چلے جارہے تھے۔ جی، وہی دیوانِ عام، جس میں فرانسس برنئیر کے بقول کبھی تختِ طاؤس آراستہ ہوتا تھا اور مغل شہنشاہ اس تختِ طاؤس پہ پورے کرّوفر اور شان و شوکت سے جلوس کرتے تھے۔
سُرخ رنگ کے ستونوں پہ کھڑی محرابیں تھیں اور سامنے کی طرف نو محراب دار دَر تھے۔ اِن ستونوں اور محرابوں پہ اسِتادہ سفید استرکاری کی چھجّے والی چھت تھی، جس کے سامنےکی طرف دونوں کونوں پہ سجاوٹ کے لیےدو سُرخ رنگ کی چھوٹی سی چھتریاں بنی ہوئی تھیں۔ دیوانِ عام کی عقبی دیوار میں ایک سنگِ مرمر کی شہہ نشین تھی۔ اُس شہہ نشین کو نشیمنِ ظل الٰہی کہتے ہیں۔ جب دیوانِ عام میں دربار آراستہ ہوتا تھا، تو بادشاہ اِسی شہہ نشین میں جلوس کرتا تھا۔ دیوانِ عام میں کھڑےہوکر ہم نے سامنے دیکھا۔ یہاں اِسی دیوانِ عام میں اورنگ زیب عالم گیر نےاکبر آباد، آگرہ سے لاکرتختِ طاؤس آراستہ کیا۔
داراشکوہ کو سمو گڑھ کی لڑائی میں شکست ِ فاش دے کر وہ ہندوستان کی مسندِ اقتدار پہ بلاشرکتِ غیرےبراجمان ہوگیا۔ مشہور ہےکہ اِسی دیوانِ عام میں اِس نے پہلی دفعہ تختِ طاؤس پہ جلوس کیا۔ اُس کے جشنِ تاج پوشی جیسی شان دار تقریب اِس قلعۂ معلیٰ کے دَرودیوار نے نہ اِس سے پہلےکبھی دیکھی، نہ اِس کےبعد۔ تختِ طاؤس پہ زَر و جوہر سے مرصّع دو مور بنے تھے، جن کی چونچوں میں لعل و یاقوت کے ہار تھے اور اِن دو موروں کےبیچ ایک درخت تھا، جس کےپھول پتیاں، برگ و بار سب ہیرے موتیوں سےڈھالےگئے تھے۔ شاہ جہاں کے دَور میں یہ تختِ طاؤس ایک کروڑ کی لاگت سے کاری گروں کی سات سال کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں تیار ہوا۔
بعدازاں، اورنگ زیب عالم گیر اِس تختِ طاؤس کا وارث بن گیا۔ اُس کی بہن روشن آراء بیگم نے مبارک باد دی۔ اور دارا شکوہ، جو اِس تخت کا دعوےدار تھا، ایک جنگی قیدی کی حیثیت سے شاہ جہان آباد لایا گیا۔ اور پھر اُسے پابہ زنجیر کر کے اُسی شاہ جہان آباد کے گلی کُوچوں میں عبرت کا نشان بنا کر پھرایا گیا۔ ’’تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِۚ‘‘ ترجمہ: یہ دن ہیں، جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ وقت تھا کہ داراشکوہ کے نام کے اِس قلعۂ معلیٰ میں نوبت اور نقّارے بجتے تھے۔
لوگ اُس کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتےتھے۔ وقت نے پلٹا کھایا اور وہی دارا، پابجولاں، خاک بسر اِسی شاہ جہان آباد میں لایا گیا اور وہی اُمرا، جو اُس کے سامنے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کےجرات نہیں کرتے تھے، انہوں نے اورنگ زیب عالم گیر سےاُس کےقتل کاپروانہ جاری کروایا۔ پھر اِسی لال قلعے میں اُس کا سَر قلم کر کے ایک سونے کے طشت میں اورنگ زیب کے سامنےلایا گیا، تو اس نے بس ایک حقارت کی نظر دیکھ کے منہ پھیرلیا۔ تین دن تک داراشکوہ کا دھڑ قلعے کے لاہوری دروازے پہ لٹکتا رہا۔ تب حیرت کی آنکھیں بھی حیرانی سے وقت کے اِس اُلٹ پھیر کو تکتی تھیں۔
اورنگ زیب کے سامنے سلامی کے لیے نوبت کے اونٹ سنہری جھولوں سےمرصّع سلامی دیتے گزرے تھے۔ نقرئی عمّاریوں والی ہاتھیوں کی فوج پریڈ کرتے ہوئے گزری تھی۔ چہار آئینہ میں ملبوس شاہ سواروں نے اپنی تلواریں بلند کر کے، سَر جُھکا کر بادشاہ کے حضور تسلیم و رضا کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ دیوانِ عام دیکھ کے تاریخ کی کتابوں میں پڑھےیہ واقعات آنکھوں کے سامنے متحرک تصویریں بن کر اُبھر آئے۔ دیوانِ عام اور نشیمنِ ظل الٰہی دیکھنے کے بعد آگے بڑھے، تو عقب سے ایک سنگی میدان میں جا پہنچے، جس کےدرمیان ایک حوض تھا۔ اِسی میدان سےگزر کےہم رنگ محل میں داخل ہوئے۔ رنگ محل کےجنوب میں ممتاز محل، جب کہ شمال میں تسبیح خانہ و حمّام کی عمارت ہے۔
امتیاز محل یا رنگ محل کے نام کی وجۂ تسمیہ اِس کی رنگین نقّاشی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کے بقول، رنگ محل کی چھت چاندی کی تھی، جسے فرّخ سیر بادشاہ کے زمانے میں شاہی خزانے میں تنگی کے سبب اُتار کر بیچ دیا گیااور اُس کی جگہ تانبے کی چھت لگا دی گئی۔ بعد میں اکبر بادشاہ ثانی کے دَور میں تانبے کی چھت اُتار کر لکڑی کی چھت لگائی گئی۔ رنگ محل کی دیواریں اورستون سنگِ مرمر کے تھے۔ محل کے بیچوں بیچ سے نہرِ بہشت گزر رہی تھی، جو اِس وقت خشک پڑی ہے۔ رنگ محل کی عقبی دیوار میں کچھ کھڑکیاں تھیں، جن سے شاہی خاندان کی عورتیں دریائے جمنا کے کنارے ہاتھیوں کی لڑائی کا نظارہ کرتی تھیں۔
رنگ محل کے پہلو میں شمال کی طرف تسبیح خانے کی عمارت ہے۔ تسبیح خانے کو خاص محل بھی کہتے ہیں، اِس کے مشرق میں ثمن برج یا برج مثمن تھا، جس میں بادشاہ کھڑا ہو کے روز رعایا کو اپنے درشن کروایا کرتاتھا۔1911ع میں جشنِ تاج پوشی کے موقعے پر کنگ جارج پنجم اور اُس کی ملکہ نے بھی اِسی ثمن برج میں کھڑے ہو کر رعایا کو درشن کروائے تھے۔
دیوانِ خاص کی عمارت، تسبیح خانے کی عمارت کے شمال میں ہے۔ دیوانِ خاص کی سنگِ سفید کی عمارت رنگ محل سے خاصی مِلتی جُلتی ہے۔ دیوان خاص کو خاص محل بھی کہتے ہیں۔ بادشاہ صبح کے وقت دیوان عام میں دربار کرتا تھا، جہاں عام لوگوں کی بھی رسائی ہوتی تھی۔ دیوان خاص میں خاص امرا شام کے دربار میں حاضر ہوتے تھے۔ بعد میں تختِ طاؤس، جو فرانسس برنیر نے دیوان ِ عام میں دیکھا تھا، دیوانِ خاص میں منتقل کردیا گیا۔ دیوان خاص کے فرش پہ بیٹھ کے ہم نے پھر سے تاریخ کے اوراق میں ثبت گردش ایام پہ غور کیا۔
خواجہ حسن نظامی کے بقول اِسی دیوان ِ خاص میں بادشاہ محمّد شاہ رنگیلا نے نادر شاہ درّانی کے سامنے سر تسلیمِ خم کردیا تھا۔ نادر شاہ جاتے جاتے تختِ طاؤس بھی اپنے ساتھ اُٹھا لے گیا تھا۔ اِسی دیوان خاص میں غلام قادر روہیلہ نے سَن رسیدہ بادشاہ، شاہ عالم کی آنکھیں نکال کے اُسے اندھا کردیا تھا۔ بعد میں دیوانِ خاص مرہٹہ اور جاٹ گردی کا شکار ہوا۔ اِس محل کی چھت چاندی کی تھی، جب کہ اس پہ سونے کی ملمّع کاری کی گئی تھی،چھت کی چاندی مرہٹوں کا سپہ سالار سسادیوا راؤ اکھاڑ کر لے گیا۔ احمد شاہ درّانی نے مرہٹوں کو پانی پَت کے میدان میں شکست دی۔
جب احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں سے دو دو ہاتھ کیے، تو جاتے جاتے اُس نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے، یعنی دیوانِ خاص کو اس نے بھی لُوٹا تھا۔ ہم نے غور سے دیوانِ خاص کے در و دیوار کو دیکھا۔ خواجہ حسن نظامی کے بقول، دیوانِ خاص ہی میں فرّخ سیر بادشاہ کا علاج اسکاٹ لینڈ کے ڈاکٹر گیبریل ہملٹن نے عین اُس کی شادی کے دن کیا۔ اور بادشاہ نے صحت یابی کی خُوشی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو دریائے ہگلی کے کنارے کارخانہ لگانے، بستی بسانے کی اجازت دےدی۔
دیوانِ خاص کی اسی چھت کے نیچے، جہاں ہم اُس وقت براجمان تھے، دی گئی بادشاہ فرّخ سیر کی اجازت ہی نے پورے ہندوستان کی تاریخ کا حلیہ بدل کے رکھ دیا۔ ایک وقت آیا کہ مغلوں کا اقتدار اختتام پذیر ہوگیا اور ہندوستان تاجِ برطانیہ کی عمل داری میں چلا گیا۔ باغیوں نے یہیں بہادر شاہ ظفر کو دوبارہ تخت پہ بٹھایا۔ اور نہرِ بہشت دیوانِ خاص میں سے بھی گزر رہی تھی۔
دیوانِ خاص کےقریب ہی باغِ حیات بخش اور موتی مسجد ہے۔ سنگِ مرمر کےگنبدوں اور دیواروں والی یہ مسجد اورنگ زیب عالم گیر کے دَور میں تعمیر ہوئی۔ باغِ حیات بخش کےشمال میں ساون اور جنوب میں بھادوں نام کی سنگِ مرمر کی عمارات ہیں۔ اِن عمارتوں میں نہرِ بہشت سے اس طرح پانی لا کر بہایا جاتا تھا کہ پانی کی بوندیں رِم جِھم کی شکل میں ساون بھادوں کی برکھا کی طرح برسنے لگتیں۔ دیوانِ عام کے شمال میں شاہی حمّام کی عمارت ہے۔ قلعۂ معلیٰ کے بالکل آخر میں شمال میں شاہ بُرج ہے۔
اِسی طرح کا ایک بُرج قلعے کے بالکل جنوب میں اسد بُرج کہلاتا ہے۔ نہر ِ بہشت شاہ بُرج سے شروع ہو کے ایک قطار میں بنے ان تمام محلات میں سے گزرتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کے بقول اس نہرِ بہشت میں پانی جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے زمانے میں دریائے جمنا سے نکالی گئی ایک نہر کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ یہ نہر، خلجی کے زمانے میں بنی، پھر بند ہوگئی۔ پھر جلال الدین اکبر بادشاہ کے زمانے میں اِسے پھر سے صاف کر کے جاری کیا گیا۔ امتدادِ زمانہ سے یہ نہر پھر سُوکھ گئی۔
پھر شاہ جہان کے دَور میں دریائے جمنا کی اس نہر کو دوبارہ سے کھود کے قلعۂ معلیٰ کی نہرِ بہشت سے منسلک کردیا گیا۔ اِسی نہر سے شاہ جہان آباد اور چاندنی چوک بازار کی نہر کو بھی پانی مہیا کیا جاتا تھا۔ ہم حسرت کی نگاہوں سے اس نہرِ بہشت کو تک رہے تھے۔ کبھی اس نہر کا مصفّا، شفّاف پانی قلعۂ معلی کی غلام گردشوں میں رقص کرتا تھا۔ جھاڑ، فانوس اور دو شاخوں کی روشنیوں کے عکس ان پانیوں میں چاند، ستارے ٹانکتے تھے۔ اس قلعے کی ہر رات، شبِ برات اور ہر دن، عید کا دن ہوتا۔ نوبتیں اور نقّارے بجتے، مشاعرے ہوتے۔ یہی قصر اور محل تھے، جن میں شہنشاہِ سخن، اسداللہ خاں غالب، شہنشاہِ ہند، بہادر شاہ ظفر کے سامنے اپنی غزلیں پڑھتے۔ یہیں استاد ابراہیم ذوق اپنے بےمثال شعروں کی داد پاتے۔
یہیں اسی لال قلعے سے ’’پھول والوں کی سیر‘‘ جیسے بےمثال میلے کا آغاز ہوا۔ اکبر شاہ ثانی کے بڑے بیٹے، مرزا جہانگیر کی دہلی کے ریزیڈنٹ اسٹین سے لڑائی ہوگئی۔ اکبر شاہ ثانی اپنے بڑے بیٹے بہادر شاہ ظفر کی بجائے اپنے چھوٹے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے۔ چوں کہ مرزا جہانگیر کی والدہ، ملکہ ممتاز محل، اکبر شاہ کی چہیتی بیگم تھی، تو بادشاہ چاہتے تھے، شہنشاہی کا تاج اُسی کے بیٹے کے سر سجے۔ مرزا جہانگیر تھوڑے منہ پھٹ، بدتمیز اور بالانوش قسم کے آدمی تھے۔ دہلی کے ریزیڈنٹ اسٹین سے بدتمیزی کی، اُسے گالی دی، بعد میں نوبت خانے کے چھتے سے اُس پہ گولی بھی چلائی۔
گولی اس کے محافظ کو لگی اور وہ عالم بالا کو کوچ کرگیا۔ اِسی جرم میں دھرلیےگئے۔ پابندِ سلاسل ہوئےاور قید کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ ملکہ ممتاز محل نے شہزادے کی رہائی کے لیے منّت مانی کہ اگر بیٹا رہا ہوگیا، تو مہرولی جا کر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاوں گی۔ اسٹین صاحب کو رحم آگیا، وہ بادشاہ اکبر شاہ کا بےحد احترام کرتے تھے۔ انہی کی سفارش سے پھر صاحب عالم کی گلو خلاصی ہوئی۔ جاں بخشی کا پروانہ جاری ہوا اور قید سے رہائی ملی۔ بادشاہ بیگم اور شہنشاہ اکبر نےخواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر پھول اور چادر چڑھانے کے لیے بھادوں کے مہینے کے آخر میں قلعۂ معلیٰ سے ایک بہت دھوم دھام کاجلوس نکالا۔ نوبت و نقّارے بجے۔
شہنائیاں اور نفیریاں بجائی گئیں۔ مرصّع جھولوں سے لدے گھوڑے اور زربفت اور کمخواب سے سجی عمّاریوں والے ہاتھی اس جلوس میں شامل ہوئے۔ خُوش نُما وردیوں میں ملبوس سوار اور پیادے جلوس کے ہم راہ تھے۔ جلوس کی شان و شوکت کو آسمان حیران ہو کے تکتا تھا۔ مسلمان اور ہندو دونوں اس میلے میں شامل ہوئے، ہندوؤں نےجوگ مایاکےمندر پہ پھول چڑھائے اور مسلمانوں نے مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیار کے مزار پہ۔ بادشاہ نے رائے طلب کی کہ کیوں نہ ہر سال بھادوں میں پھول والوں کی سیر کا یہ میلہ منعقد کیا جائے۔
پھر 1802ع میں یہ میلہ شروع ہوا اور اب تک جاری و ساری ہے۔ اب بھی دہلی میں برسات کے موسم میں پھول والوں کی سیر کا میلہ جمتا ہے۔ تو اس لال قلعے نے خُوشی کے چراغوں سے روشن دن بھی دیکھے اور غم کے اندھیروں سی تیرہ و تار راتوں کو بھی جھیلا۔ دیوانِ خاص کے بعد ہیرا محل دیکھ کے ہم انگریزوں کی کوٹھیوں کی طرف جا نکلے۔
انگریزوں کے دَور میں بنی اِن کوٹھیوں میں اب قلعے کا عجائب گھر ہے۔ اِس کی ٹکٹ غالباً غیر مُلکی سیاحوں کے لیے بارہ سو بھارتی روپے ہے۔ مگر اُس دن چوں کہ عجائب گھروں کا عالمی دن تھا، تو میوزیم میں داخلہ مفت تھا۔ اِس میوزیم میں جلیانوالہ باغ کا یادگاری ماڈل بنا کر رکھا گیا ہے، ساتھ سانحۂ جلیانوالہ باغ کی تصویری گیلری ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کی تصویری گیلری بھی اس میوزیم کا حصّہ ہے۔ مغلیہ دَورکے کچھ نوادرات، تلواریں، تیر کمان، خنجر اور اسلحہ، فوجی وردیاں وغیرہ اس عجائب خانے میں رکھی گئی ہیں۔
دراصل اِس میوزیم کے ذریعے ہندستان کی تاریخ اور قلعۂ معلیٰ کے اچھے بُرے دنوں کو تصویر کر کے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عجائب خانہ دیکھنے کے بعد ہم لوگوں نے قلعے سے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ لال قلعے کے بغل میں سلیم گڑھ کا قلعہ ہے۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ سوری نے ہمایوں کا حملہ روکنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے شاہ عالم بادشاہ کو اندھا کر کے اسی قلعے میں قید کیا تھا۔ بہرحال، وقت کی قلّت کے باعث ہم سلیم گڑھ کا قلعہ دیکھنے سے محروم رہ گئے۔ (جاری ہے)