سینیٹ آف پاکستان جنرل مشرف کے انتقال پراُن کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے انکاری ہو گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی مسلمان اس دنیا سے چلا جائے تو ہمیں اُس کی مغفرت کیلئے دعا کرنی چاہئے۔ جنرل مشرف کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہو چکا۔
سینیٹ میں دعا سے انکار کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف اس قوم کے مجرم تھے جن کیلئےدعا نہیں کی جا سکتی۔
کوئی اختلاف کرے یا اتفاق، سینیٹ میں جو کچھ ہوا وہ حکمرانوںکے لئے ایک سبق کی حیثیت ضرورکھتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی عام فرد کی بجائے حکمرانوں کا آخرت میں حساب زیادہ سخت ہو گا۔
جنرل مشرف کی وفات اور اس موقع پر میں اُن کی ذات پر بات نہیں کرنا چاہوں گا لیکن اُن کے دور پر ضرور بات ہونی چاہئے اور ہو بھی رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور پر ایک طرف اگر آئینی اور انتظامی امور کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، وہیں میرے لئے اور لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے لئے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ وہ دور مسلمانوں کے لئےکیسا تھا؟ بہت لوگوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ اُس دور کا یہ تھا کہ جنرل مشرف نے اپنی ذات کے لئے پاکستان کے آئین کو دو بار روندا۔ پہلی بار بحیثیت آرمی چیف اپنے نکالے جانے پراُس وقت کی نواز شریف حکومت کو ختم کیا اور ملک میں مارشل لا لگا دیا اور دوسری بار اپنی وردی کو بچانےکے لئے آئین کو معطل کر کے اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو اُن کے گھروں میں بچوں سمیت نظر بند کر دیا ،جس پر اُن کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد عدالت نےانہیں موت کی سزا بھی سنائی۔
مجھے جنرل مشرف دور کے جس عمل نے بہت دکھ اور تکلیف دی اُس کا تعلق، 9/11 کے واقعہ کے بعد اپنائی گئی پالیسیاں اور اُن کے مسلمانوں، پاکستان اور ہمارے عوام کے لئے نتائج سے ہے۔ بغیر کسی سے مشورہ کئے جنرل مشرف نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا جس کے وطنِ عزیز پرسنگین اثرات مرتب ہوئے اور اب بھی ہم اُن نتائج سے باہر نہیں نکل پائے۔
افغاستان پر حملے کے لئے اپنا سب کچھ امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ یعنی امریکہ کو اپنے ہمسایہ مسلمان ملک پر حملے کے لئے اپنے ہوائی اڈے بھی دیے، زمینی اور فضائی حدود بھی اُن کے لئے کھول دیں، امریکہ کو جاسوسی کے لئے بھی پاکستان کی سرزمین مہیا کر دی اور اس طرح لاکھوں مسلمانوں کو وہاں شہید کرنے کے لئے امریکہ نے ایک گھناونا کھیل کھیلا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اُس وقت ظالم کے ساتھ تھے، جن کو امریکہ اور پاکستان 9/11 سے پہلے جہادی کہتے تھے اُنہیں چن چن کر مارا گیااور اُن مصیبت زدوں سے ہمدردری کرنے والوں اوراس عمل کو غلط کہنے والوں کو شدت پسندی کے طعنے دیے جاتے رہے۔
نجانےکتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں ڈالرز کے عوض بیچاگیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی امریکہ کے حوالے کر دیاگیا۔
پاکستان کے اندرہزاروں افراد کو گمشدہ کر دیا گیا، نجانے کتنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ امریکہ کی جاسوس ایجنسیوں بشمول سی آئی اے ، ایف بی آئی اور بلیک واٹر کو پاکستان میں کھلی چھٹی دے دی گئی اور وہ پاکستان کے خلاف ہی کام کرنے لگیں۔ جنرل مشرف کی 9/11کی پالیسیوں کے ردِعمل میں پاکستان نے دہشت گردی کا وہ رنگ دیکھا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپنی ہی فوج پر یہاں اپنے ہی لوگ حملے کریں گے ۔
اس دہشت گردی کے باعث پاکستان میں تقریباً اسی ہزار سویلین اور فوج ، پولیس ، قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ہزاروںاہلکار شہید ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور پاکستان کو کوئی ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا۔پاکستان کے ہوائی اڈوں سے اڑنے والے امریکی ڈرون پاکستان کے اندر ہی حملے کرنے لگے جن سے سینکڑوں افراد بشمول عورتیں اور بچوں کو collateral Damage کے نام پرشہید کیا گیا۔ سابق فاٹا کے علاقے میں شادیوں، مدرسوں اور مساجد پر میزائل برسائے گئے اور صرف ایک مدرسے پر حملے کے نتیجے میں کوئی 80بے گناہ بچے شہید ہوئے۔ مشرف دور میں امریکہ نے اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلا جس کا ہمیں ایسا نقصان ہوا اور جس کا کوئی ازالہ ممکن نہیں۔
جنرل مشرف کے حکم پر لال مسجد پر آپریشن اور وہاں موجود بڑی تعداد میں موجود نمازیوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا جس کے نتیجہ میں پاکستان میں دہشت گردی بہت زیادہ بڑھ گئی۔جو ظلم مسلمانوں پر اور پاکستان اور پاکستانیوں پر اُس دور میں ہوا اُس کے متعلق مشرف کے اپنے ہی چیف آف جنرل سٹاف جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں پڑھا جا سکتا ہے۔
جنرل مشرف نے امریکہ کی خوشی کے لئے پاکستان میں روشن خیالی کا نعرہ بلند کیا جس نے یہاں بے شرمی اور بے حیائی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔بلوچستان میں اکبر بگٹی کو قتل کروا کے وہاں بھی پاکستان مخالف طاقتوں کو وہ قوت بخشی جس کا توڑ ہم اب تک تلاش نہیں کر سکے۔
کراچی میں 12 مئی کے واقعے کو یہ قوم کیسے بھلا سکتی ہے جس میں درجنوں بے گناہوں کی کھلےعام جان لے لی گئی ،جس پر اُسی شام جنرل مشرف نے اسلام آباد کے ایک جلسے میں مکا لہرا کر کہا کہ آج میری طاقت دیکھ لی؟مشرف نے اپنے دور میں آئی ایس آئی کو بڑی بے دردی سے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
ق لیگ بنائی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو توڑااور جب اپنی ذات کے لئے ضرورت پڑی تو بے نظیر بھٹوکو این آر اور بھی دے دیا۔جنرل مشرف کے دور نے مسلمانوں اور پاکستانیوں بلکہ میں تو کہوں گا کہ پاکستان کو بہت گہرے زخم دیے۔ آخرت میں جنرل مشرف مرحوم کا کیا فیصلہ ہوتا ہے اس کا کسی کو کچھ علم نہیں لیکن تاریخ جب بھی جنرل مشرف کے دور کا حوالہ دے گی تو اُن گہرے زخموں کو بھلایا یا مٹایا نہیں جا سکے گا جن میں سے کچھ کا میں نے اس کالم میں ذکر کیا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)