• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ماہ قبل جناب اعجاز الحق کونسل آف نیشنل افیئر کے اجلاس میں بتا رہے تھے کہ سابق صدر آصف علی زرداری جیل میں تھے تو ڈاکٹر خالدسومرو نے مجھے کال کی کہ ملنا چاہتا ہوں ،آئے اور کہنے لگےکہ حج کا کوٹہ چاہئے ،میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ حج کوٹہ کی شفاف قرعہ اندازی کیلئے سپریم کورٹ سے میں نے رجوع کیا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں حج کوٹہ کی تقسیمِ کار کا نظام بنائے ،کچھ عرصہ بعد دوبارہ آئے کہ حج کوٹہ منظور کرا دیں میں نے پھر و ہی جواب دیا ۔ایک دن جب تیسری بارکال آئی تو میں نے کہا ، ڈاکٹر صاحب اگر حج کوٹہ کےسلسلہ میں ملنا ہے تو معذرت ۔ بار انہوں نے یکبارگی کہا کہ نہیں نہیں میں نے کسی اور کام کے سلسلے میں ملنا ہے، میں نے کہا کہ تشریف لے لائیں ،جب ڈاکٹر خالد سومرو آئے تو کہنےلگےکہ جناب آصف علی زردا ر ی کو رہائی دلوا دیں ،آپ جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب ہیں ،ان کی بات سن کر حیرانی کے لمحات سے نکلتےہوئے میں نےجواباً کہا کہ آپ کے علم میں ہے، آپ جنرل ضیاالحق شہیدکے بیٹے سے بات کر رہے ہیں جن کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی ہوئی ؟انہوں نے کہا کہ ہاں !مجھے علم ہے ،میں نے کہا کہ جائیں،جناب آصف علی زرداری سے پوچھ کر آئیں!ا نہوں نےجناب زرداری سے جیل میں ملاقات کی اور بتایا کہ میں نےان سے پوچھ لیا ہے۔چنانچہ میں نے ایک دن خصوصی طور پر جنرل پرویز مشرف مرحوم سے اس سلسلے میں ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیچارہ بے ضرر اورسادہ ساآدمی آصف علی زرداری جیل میں پڑا ہوا ہے اس کو جیل سے نکال کیوں نہیں دیتے ، اس کو جیل میں رکھنے کا آپ کو فائدہ نہیں نقصان ہی ہو رہا ہے ۔میری اس بات کے بعد بذریعہ عدالت آصف علی زرداری کی رہائی ممکن ہوئی ۔ اس کے بعد ایک صحافی میرے پاس آیا کہ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اس میں آپ کا انٹرویو شامل کرنا ہے ، میں نے کہا آپ تشریف لے آئیں ،باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں نے ایک آف دی ریکارڈ بات کی اور کہا کہ اسے کتاب میں شامل نہ کرنا ،جب اس نے یہ سوال کیا کہ آصف علی زرداری سے آپ کی دشمنی کیا ہے تو میں نے کہا کہ جائو آصف علی زرداری سے پوچھ لو !اگر میری ان سے دشمنی ہوتی میں انہیں جیل سےکیوں نکلواتا ۔اس نے میری آف دی ریکارڈ بات کواپنے اخبارمیں بڑی اسٹوری کے طورپر فائل کر دیا ۔ خبر شائع ہوئی تو آصف علی زرداری پر پیپلزپارٹی کے ایک اجلاس میں بہت تنقید ہوئی کہ آپ کی جانب سے اس خبر کی تردید ہونی چاہئے ، آصف علی زرداری خاموشی سے اجلاس کے دوران یہ تنقید سنتے رہے اور سب کی تنقید سننے کے بعد بس اتنا کہا کہ میں نے اعجاز الحق کے خلاف بیان نہیں دینا ۔ 3ستمبر 1999کی بات ہے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پیغام بھجوایا کہ کل آپ کو میرے ساتھ آزادکشمیر جانا ہے، مجھے انہوں نے جہاز میں بلا کر کہا کہ آپ نے کون سی وزارت لینی ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کوئی وزارت نہیں چاہیے ،ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا کہ آپ فوج کےساتھ معاملات درست کریں ،اس حوالے سے خبریں اچھی نہیں ہیں، نواز شریف نے کہا کہ نہیں نہیں میرے تعلقات فوج کے ساتھ مثالی ہیں کچھ معاملات میں اختلافات ہیں وہ بھی اگلے چند روز میں دور ہو جائیں گے ،لیکن چند روز یعنی 12اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت ختم کردی ۔ ہاں یاد آیاجناب یاسر پیرزادہ نے کہا کہ 4فروری کو میرے والد گرامی عطاء الحق قاسمی اوروالدہ محترمہ کی سالگرہ کی تقریب ہے آپ نے آنا ہے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ تحفہ لانے والے کوحوالہ پولیس کیا جائے گا،اس تقریب میںشہرِ داتا کے تمام خاص خاص چہرے موجود تھے ،تقریب میں جس عجزاور انکساری کے ساتھ جناب محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے شرکت کی وہ اپنی مثال آپ تھی ،کوئی پرٹوکول نہیں، درجنوں پولیس اہلکار وں نے ہوٹل اورہال پر آکر قبضہ نہیں کیا،ایک عام آدمی کی طرح آئے صرف اور صرف ایک سادہ ،اسمارٹ ،چست نوجوان ان کے ساتھ تھا،واپسی پروہ اپنے مخصوص انداز میں بات کرتے ہوئے باہر گاڑی کی طرف جارہے تھے جوان کی ذاتی تھی اورہوٹل کے باہر ٹریفک معمول کے ساتھ رواں تھی ،مین روڈ پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے روڈ بلاک نہیں کیاتھا ۔میں یہ کہنے پر حق بجانب ہوں گا کہ جناب محسن نقوی جس سادہ انداز میں اپنےعہدےپر کام کر رہے ہیں وہ آنے والے وزرائے اعلیٰ کیلئے مشکل پیدا کر رہے ہیں کیونکہ یہ پروٹوکول لے نہیں رہے وہ پروٹوکول کے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔

تازہ ترین