• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ جو کتابیں لکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو کچھ نہیں لکھتے۔فواد حسن فواد کا شمار پہلی قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ آپ ایک ’پرفیکشنسٹ‘ قسم کے بندےہیں ، جو کام کرتے ہیں ،بہترین انداز میں کرتے ہیں ،سچ پوچھیں تومیں نے اپنے ستائیس برس کے کیرئیر میںفواد حسن فواد سے زیادہ قابل، ذہین اور شاندار افسرنہیں دیکھا، اصولاً مجھے اپنے اِس بیان کی تشریح کرکے بتانا چاہئے کہ میں ایسا کیوں سمجھتاہوں مگرآج میں نے صرف فواد صاحب کی شاعری پر بات کرنی ہے سو میں خود کو اُس حد تک ہی محدود رکھوں گا۔

شاعری کی کتاب اپنی گرل فرینڈ کو دینے کے لئے ایک اچھا تحفہ ہوتی ہے، میں یہ بات تجربے کی روشنی میں بیان کر رہا ہوں ، نوجوان اِس معاملے میں مزید رہنمائی کے لئے مجھ سے تقریب کے بعد علیحدگی میں مل سکتے ہیں، میں انہیں بتاؤں گا کہ کیسے شاعری کی کتاب میں معنی خیز شعروں کو نشان لگا کرمحبوبہ کو پیش کیا جاتا ہے ، یہ تیر بہدف نسخہ ہے اور آج کےدور میں بھی اتنا ہی کارآمد ہے جتنا ہمارے دور میں تھا۔تاہم کُنجِ قفس نام کی جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے وہ گرل فرینڈ کو تحفے میں نہیں دی جا سکتی البتہ نیب کے تفتیش کاروں ، پولیس افسران اور جج صاحبان کے لئے یہ ایک اچھا تحفہ ہے۔اِس تقریب میں آنے سے پہلے میں نے ایک پولیس افسر کو یہ کتاب دکھائی تو اُس نے کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کرسونگھا اور پھر کہنے لگا اِس میں سے تو بغاوت کی بُو آرہی ہے ، اِس شاعر پر فوجداری مقدمہ ہونا چاہئے ، میں نے جواب دیا کہ اگر بات شاعروں پر پرچہ کٹوانے تک آگئی ہے تو پھر بے شک آپ صلح کرلیں۔تفنن برطرف ،یہ بات درست ہے کہ اِس کتاب سے بغاوت کی بُوآتی ہے، دراصل یہ شاعری کی کتاب نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا نوحہ ہے، یہ ایک مقدمہ ہے جو فواد صاحب نے خود پر قائم جعلی مقدموں کے جواب میں اِس سماج پر قائم کیا ہے،بیوروکریسی کے الفاظ میں کہوں تو یہ ایک چارج شیٹ ہے جو فواد حسن فواد نے فریم کی ہے اور اِس چارج شیٹ کی خوبی یہ ہے کہ یہ استعاروں سے مزین ہے، شاعری کی روایت سے جُڑی ہےاور علم عروض کے بندھن میں جکڑی ہوئی ہے ۔جس طرح فرانز کافکا نے اپنے ناول ’دی ٹرائل ‘ میں لا قانونیت اور بے انصافی کی لازوال تصویرکشی کی ہے اسی طرح فواد حسن فواد نے بھی ’’کُنجِ قفس‘‘ میں اپنی نظموں اور غزلوں کی مدد سے اِس نظام کو بجلی کے جھٹکے دئیے ہیں۔ایک غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

تمہارے عہد کو عہدِ عذاب لکھوں گا، میرا یہ عزم ہے عالی جناب، لکھوں گا

کہوں گا کلمہ حق،جوبھی اُس کی ہوقیمت،ہزار طرح سے آئیں عتاب، لکھوں گا

یہ ظلم و جبرکے موسم گزارنے کے لئے،مزاحمت کانیا اِک نصاب لکھوں گا

ہزار صحنِ چمن میں بہار بکھری ہو، مرا نصیب ہیں کالے گلاب، لکھوں گا

سناؤں گا جو حکایت مرے ضمیر کی ہے، لے محتسب کا بھی کوئی حساب لکھوں گا

فواد صاحب کی شاعری تلخ ہے ، یہ ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سرپھرا ہے اور سرکشی پر آمادہ ہے اور ایسے سرپھرے اور سرکش لوگوں کے ساتھ اِس معاشرے میں وہی ہوتا ہے جو فواد حسن فواد کے ساتھ ہوا۔اپنے نظریے پر کھڑے رہنے کی ایک قیمت ہے جو چکانی پڑتی ہے اور فواد حسن فواد نے وہ قیمت چکا دی اور آج وہ پورے قد کے ساتھ ہمارے درمیان کھڑے ہیں اور سرخرو ہوچکے ہیں ۔

فواد صاحب ایک سکہ بنداور کہنہ مشق شاعر ہیں ، انہوں نے باقاعدہ علم عروض تو نہیں سیکھا مگر وہ اردو شاعری کی روایت سے بخوبی واقف ہیں ، اُن کی غزلیں اور نظمیں اُن کی شخصیت کی طرح ’پرفیکٹ ‘ ہیں ، ذاتی طور پر میں اُن کی نظموں کا مداح ہوں، اُن کی نظمیں کہیں تو جھرنوں کی طرح بہتی ہوئی لگتی ہیں اور کہیں یکدم سمندر کی لہروں کی مانند بپھر جاتی ہیں ،البتہ رومانوی نظمیں کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ، ایک نظم جوانہوں نے کسی لڑکی کی یادمیں لکھی ہے اُس میں کسی حد تک رومانویت ضرور ہے مگر جو نظم انہوں نے اپنی بیگم کے نام لکھی ہے اُس میں رومانویت نہیں ہے کیونکہ وہ انہوں نے جیل میں بیٹھ کر لکھی تھی ، ویسے اگر وہ جیل میں نہ بھی ہوتے تو بھی بیگم کے لئے رومانوی نظم لکھنا خاصا مشکل کام ہوتا بقول شخصے بیگم سے رومانوی باتیں کرنا ایسے ہی ہے جیسے بندہ خوامخواہ خارش کر رہاہو ۔اُن کی ایک نظم ’’بساط پھر سے بچھی ہوئی ہے‘ ‘ ہندوستانی شاعر جاوید اختر کی نظم’ ’نیا حکم نامہ‘ ‘ سے متاثر ہوکر لکھی ہوئی لگتی ہے لیکن مجھ سے اگرکوئی پوچھے کہ حاصل کتاب کیاہے تو میرا جواب ہوگا کہ جو نظم انہوں نے اپنے بیٹے سلال کے نام لکھی ہے ، وہ حاصل کتاب ہی نہیں بلکہ حاصل زندگی ہے ۔اِس نظم میں انہوں نے کچھ بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتےہیں کہ وہ اُ ن کے نقش قدم پر مت چلے، حق سچ کا ساتھ دینے کی غلطی نہ کرے،اعلیٰ اقدار اور اصولوں کی پاسداری مت کرے ، زمانے کے فرعون کے سامنے کلمہ حق نہ بولے اور اُن تمام خوابوں کو بھول جائے جو ہم نے ساتھ مل کر تراشے تھے ۔ یہ نظم دل چیر کر رکھ دیتی ہے۔

غالب کاشعر ہے ’’نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں...گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے۔‘‘فواد صاحب اگر غالب کے اِس مشورے پر عمل کرتے تو انہیں اپنی زندگی کے دو سال کُنجِ قفس میں نہ گزارنے پڑتے ،مگر پھر وہ فواد حسن فواد نہ ہوتے ، پھر وہ سول سرول کے انہی ہزاروں افسران میں سے ایک افسر ہوتے جو چالیس سال کی نوکری کے بعد جب ریٹائر ہوتاہے تو اُس کی ہر بات اِس فقرے سے شروع ہوتی ہے کہ’’ جب میں ڈپٹی کمشنر چکوال ہوا کرتا تھا تو توپ چلا دیاکرتا تھا ‘‘جبکہ حقیقت میں یہ افسران اپنے باس کا فون بھی رکوع کی حالت میں سنتے ہیں...جبکہ جس فواد حسن فواد کی ہم بات کر رہے ہیں اُس نے سولہ ماہ قید تنہائی میں رہنا تو قبول کیا مگر سر نہیں جھکایا، سول سروس اور اردو شاعری ،دونوں کو فواد حسن فواد پر ناز کرنا چاہئے۔

(نوٹ:یہ کالم فواد حسن فواد کی کتاب’’کنج قفس‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھنے کیلئے لکھا گیا ہے۔)

تازہ ترین