• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوپیٹ میں روٹی نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

مہنگائی جو کبھی بے مزا موضوع تھا اب یہ ہر قلم کی آنکھ کا تارا ہے، جس گھر میں سب کچھ وافر تھا اب وہاں کروڑوں کے لئے کچھ نہیں ہزاروں کے لئے سب کچھ ہے، اور ان کو بے دریغ شاپنگ میں ایسا لطف آتا ہے جو سستے ناکارہ آٹے کے تھیلے میں غریب عوام کو ملتا ہے اور یہ کیفیت تو بندۂ مفلس پر لمحہ لمحہ گزرتی ہے ؎

گو پیٹ میں روٹی نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی خالی ہی برتن مرے آگے

آنے والا ہر دن گزر ے دن سے بدتر، جبکہ ماضی و حال ہے مستقبل نظر نہیں آتا، MINI BUDGETآتا ہے، MONEY BUDGETنہیں آتا، چینلز پر موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ڈھونڈے سے نہیں ملتا، البتہ دھڑکن تیزکرنے والی بریکنگ نیوز اور تجزیوں کی فراوانی ہے، دولت آنی جانی ہے، غربت کی غضب کہانی ہے، ثروت کے سامنے سب کچھ فانی ہے، کیسی عجیب معیشت دانی ہے۔ غریبوں کو بھی جیسے اچانک علم ہوا ہے کہ ملک میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے،ہم اللہ کو صرف ضرورت کے وقت یاد کرتے ہیں، اپنے کرتوت بھو ل جاتے ہیں، سیاست ایک پیشہ ہے اپنے لئے کمانے کا، ملک ایک منڈی ہے آڑھت کی، لوگ آتے ہیں اپنی تجوری بھر کر چلے جاتے ہیں، بستر کہیں ہے، دفتر کہیں ہے، ان میں وطن کہاں ہے، آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پاک سرزمین کا یہ حال کرنے کا موجد کون ہے، بس اتنا جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے یہ ملک بنایا تھا، پھر سیاسی انجینئرز نے اس کے ساتھ کیا کیا، کچھ معلوم بھی اور کچھ پوشیدہ بھی، بہرحال منظر بہت کشیدہ بھی ہے اور الٹا بھی سیدھا بھی، وقتِ دوا تو گزر گیا البتہ وقت دعا ہے، کہ مستجاب ہی نہیں، سوال بے شمار جو اب ایک بھی نہیں، بہرحال کشمیریوں کی طرح ہم بھی اپنی جنت میں جائیں گے اک دن۔

٭٭٭٭

جو بادہ کش تھے پرانےوہ اٹھتے جاتے ہیں

عبدالحمید عدم نے کہا تھا ؎

یہ کوئی عدم ہے یا کوچۂ صنم ہے

چلی جاتی ہے اک خلقت خدا کی

غربت کے ساتھ ہی موت نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی ہے، مساجد کے لائوڈ اسپیکرز سے میڈیا تک رخت رخت کی آواز دما دم آ رہی ہے، ابھی چند روز پہلے امجد اسلام امجد ہم میں موجود تھے، اب مرحوم ہیں، خدا اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ہمارے لئے ادب کی جنت بنا کر اس جنت میں چلے گئے جہاں سے آئے تھے، ان کے چہرے پر ہمہ وقت اردو ادب کی جملہ اصناف کا وفور جلوہ زن رہتا تھا، مشاعروں کی زینت اور ٹریفک جام ڈرامہ وارث ان کی لازوال تخلیق، وہ علم و ادب کے اچھوتے گوشوں کو چھو کر ہمیں اس طرح چھوڑ گئے کہ گویا اب بھی وہ محفل میں ہیں، انسان کو دوام ہو نہ ہو اس کے ہنر کو دوام ہے۔بہرحال پچھلے دنوں قابلِ یاد و قابلِ دید لوگ کچھ زیادہ ہی رخصت ہوگئے، اس دنیا سے جانا تو کوئی نہیں چاہتا تاہم جانا پڑتا ہے، جانے والے تو چلے جاتے ہیں مگر ہمیں اپنے وجود سے قریب تر کر جاتے ہیں، حقیقت تو سعدی کا یہ جملہ ہے ’’بانگ برآید کہ فلاں نمائد‘‘ (آواز آئی کہ فلاں نہ رہا) معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد سے کچھ عرصہ پہلے فون پر بات ہوئی تو یوں لگا کہ انسان ایک بات ہی تو ہے، آج ان کی چند باتیں ہی میرے پاس ہیں وہ نہیں، اپنے انجام کو آغاز ہی سمجھنا چاہیے، شاید اس طرح موت کے خوف میں کچھ کمی آئے، وہ تو چلے گئے، اے دل مگر ان کے وجودِ فن کی مہک باقی بچ جانے والوں کو مہکاتی رہے گی۔

٭٭٭٭

وصل کی شمع جلائو بڑا اندھیرا ہے

نہ جانے کیوں یہ خیال رہ رہ کے اداس کر جاتا ہے کہ ہم من حیث القوم ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں، شاید خود پرستی، خود غرضی و خود نگری چھائی جاتی ہے اور انسانیت کو آدمیت نے حیوانیت کے زور پر دبوچ لیا ہے، آج پاکستان ہے، پاکستانیت نہیں، اور اگر ہے بھی تو ایک لفظ کی صورت۔ ہوس اقتدار و زر نے اوپر سے نیچے تک مختلف شکلوں میں پاکستانی کو جکڑ رکھا ہے، ایک ہمہ گیر ہجر نے وصال کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اپنے سانجھے مفاد پر کوئی متفق، متحد ہونے کو تیار ہی نہیں۔ اپنے عیبوں سے بے خبری اور دوسروں کے عیبوں پر نظر جمانے نے وطن عزیز کو دنیا کی بھیڑ میں قدم جمانے نہیں دیا، 75 برس ہوگئے کہ مانگ تانگ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، اکثریت افلاس کی کھائی میں اور ایک مختصر اشرافیہ امیری کی جنت میں مست الست ۔پاکستانی ہونے کے ناتے سب برابر اور حالات کے اعتبار سے کوئی بادشاہ باقی سب فقیر، سب اپنی اپنی اَنا کی پنڈ اٹھائے ایک ہی دھرتی پر جدا جدا۔ اتحاد کے لئے اعلیٰ اخلاق اور کشادہ دلی درکارہےمگر ندارد، خدا کرے کہ نیک دل افراد یکجا ہو کر قوم کی شیرازہ بندی کرنے کا بیڑا اٹھائیں، عفو و درگزر سے کام لینے پر قوم کو متحد کریں، اصلاح و فلاح کے ذریعے ملتِ لخت لخت کو ایک کر دیں، ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد۔

٭٭٭٭

جیل نہیں پیٹ بھرو

O... گھریلو ملازموں پر تشدد میں اتنی شدت کیوں، کیا ہم نے کبھی ان معاشروں پر غور نہیں کیا ہے جن کے ہاں تشدد کیلئے ملازم ہی دستیاب نہیں ہوتا۔

O... حکومت کا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے نوکریاں دینے کا فیصلہ۔

اسکےباوجود ہم کہتے ہیں کہ یہاںجمہوریت ہے؟

O... جیل بھرو تحریک کے بجائے پیٹ بھرو تحریک چلائیں۔

تازہ ترین