• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

نیکیاں کشید کرنے کا نُسخہ

منور مرزا نے ڈپلومیٹک انکلیو سے اقوامِ متحدہ اور شنگھائی تنظیم کے سربراہوں کی ملاقات اور اجلاسوں کی کارروائی کے Out Come کی تفصیل گوش گزار کی۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس بہت اچھا سلسلہ ہے، جس میں ماہر معالجین عام بیماریوں اور کرونک امراض سے متعلق تفصیلاً معلومات فراہم کرتےہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں دینی محقق محمود میاں کا تحریر کردہ سلسلہ ’’مکّہ مکرّمہ، ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ نیکیاں کشید کرنے کا بہترین نُسخہ ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی نے فوج کے نوجوانوں کو Dare and Care کے ساتھ نوبل ڈیڈ کی ادائی پر شان دار خراجِ تحسین پیش کیا، تو منور راجپوت نے سندھ میں سیلاب کی تاریخی تباہ کاریوں پر بھرپور رپورٹ مرتّب کی۔ عرفان جاوید کا محبّت اور توجّہ کو ترسا ہوا دست شناس ’’آدمی‘‘ مطیع الرحمٰن اب اس دنیا میں نہیں رہا، مگر اُس کا قصّہ امَر ہوگیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عُمدہ موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ اختر سعیدی اور منور راجپوت کے تبصروں کا جواب نہیں ہوتا۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ بھرپور تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں مولانا محمّد راشد شفیع نے عبادات اور معاملات سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق پر شان دار مضمون تحریر کیا۔ وسطی صفحات پر ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا رائٹ اَپ بھی دل نشین تھا۔ محمود میاں سلسلے وار مضامین پر خُوب محنت کررہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم ’’محسنِ انسانیت بھی محسنِ نسوانیت‘‘ بھی کے عنوان سے ایک بہترین نگارش کے ساتھ آئیں۔ اور عرفان جاوید کے ’’آدمی‘‘ میں کوئل کی کُوک سے مدھر ’’بانسری بابا‘‘ کی سرگزشت کا بھی جواب نہیں۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)

عوام کا کوئی سگا نہیں!!

4 دسمبر کا شمارہ موصول ہوا، ماڈل کا ’’سادگی سنگھار‘‘ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کے عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک کی دوسری قسط لائے، معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس پاک فوج میں اہم تعینّاتی کا احوال، طریقۂ کار، کارکردگی اور انقلابی اقدامات کا مفصّل بیان لائے۔ اگر سیاست دان عوام سے مخلص ہوں، اُن کے مسائل حل کریں، کرپشن سے توبہ کرلیں، تو فوج بھی اُن کی تابع رہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال قطر میں ہونے والے 22ویں فُٹ بال ورلڈ کپ کی رُوداد سُنا رہے تھے، ہمارے لیے تو یہی بات ازحد خُوشی کا باعث تھی کہ ہماری فُٹ بال پورے ٹونامنٹ میں شامل رہی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر، میر حاجی لشکری رئیسانی سے بات چیت کرتے نظر آئے۔ خُوشی ہوئی کہ بلوچستان میں محبِ وطن لیڈرز کی بھی کمی نہیں۔ سو، یہ چند نام نہاد علیحدگی پسند مُلکی وحدت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ’’سینٹر اسیریڈ‘‘ کی ہیڈنگ ’’سادگی میں بڑا سنگھار ہے…‘‘ پڑھ کے ہنسی آگئی کہ ہمیں تو سنگھار ہی سنگھار نظر آیا، سادگی تو کہیں نہ تھی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ میں بھارت یاترا کا احوال خُوب سُنا رہے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں وردہ صدیقی سیلاب زدگان کی زبوں حالی کی داستان گوش گزار کر رہی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں دنیا سے تو امداد بٹور رہی ہیں، مگر متاثرین کی کوئی مدد نہیں ہو رہی۔ تبدیلی خان نے بیرونِ مُلک پاکستانیوں سے اربوں روپے وصول کرکے لانگ مارچ میں جھونک دیئے،اور اس مخلوط حکومت کو بھی صرف اپنے کیسز معاف کروانے تھے، عوام کا کوئی سگا نہیں۔ نہ سیاست دان، نہ فوج، نہ عدلیہ اور نہ ہی کوئی اور۔ زمین سے خلا تک سب آسائشیؒں تو اشرافیہ کے لیےہیں،ہم فاقہ مستوں کےنصیب میں توبس مفلسی و ناداری ہی ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹرامجد علی جعفری اور ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے معلوماتی مضامین تحریرکیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تحریریں بھی متاثر کُن تھیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں عارف الحق عارف نے پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی تعلیمی خدمات سے آگاہ کیا، تو ’’متفرق‘‘ میں امجد محمود نے ادبی سارقین کی نشان دہی بھی خوب کی۔ اور بزمِ باغ و بہار میں ناچیز کی چٹھی کو اعزاز کی سند عطا ہوئی، بے حد شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج:جی ہاں، آپ نے بالکل بجا فرمایا، عوام کا کوئی سگا نہیں۔ مگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ عوام خود بھی اپنے سگے نہیں۔ وہی اِن نالائق، نااہل سیاست دانوں کو اِن مسندوں پر بٹھاتے، پیرو مرشد کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک بریانی کی پلیٹ، قیمے والے نان کے عوض اپنا قیمتی ووٹ گروی رکھ دیتے ہیں۔ جس طرح ان کے جلسے جلوسوں اور استقبالوں کی خاطر اُمڈے آتے ہیں، اُن کے محاسبے کے لیے بھی نکلیں، تو یہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔

میگزین کے سر کا تاج

پھول سونگھ، ستارہ بیگم، نازک بیل، چاندنی لاڈو، برخورداری، نور چشمی پیاری بیٹی !! اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ القابات پڑھ کر ہنسو مت۔ یہ تو امّاں جی کا لاڈ ہے۔ ایک، دو، تین، بلکہ چار سنڈے میگزین میں اپنی تحاریر شایع دیکھ کر ہم تو دنگ رہ گئے۔ دراصل ہم تو تحاریر پوسٹ کرکے یا خط لکھ کر چُپ سادھ لیتے ہیں کہ باری آنے پر ردی کی ٹوکری منہ دیکھتی رہ جائے گی…اور ہماری تحریر میگزین میں جگمگائے گی۔ شفق رفیع کی رپورٹ ’’بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے‘‘ آنکھوں میں نمی لے کر بلکہ روتے روتے پڑھی۔ اے کاش! سنگ دل صاحبانِ اقتدار کے دل پر بھی کچھ اثر ہو۔ اُمید ہے کہ رپورٹ پڑھ کر کوئی تو قدم اُٹھائے گا۔ جبّار مرزا اسلام آباد سے ’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ کے تحت پہلی سہ روزہ عالمی کانفرنس کی رُوداد لے کر آئے۔ بہت خُوب، واقعی اردو زبان کے لیے قدم اُٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مکّہ مکرمہ: ماضی و حال کے آئینے میں…‘‘ کی آخری قسط نے دل دل باغ باغ کردیا۔ واقعتاً محمود میاں کی تحاریر میگزین کے سر کا تاج ہیں۔ رؤف ظفر نے ڈاکٹر فرخندہ منظور کا جس خُوب صورت انداز میں انٹرویو کیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہی تھا۔ منور مرزا کا بےحد شکریہ کہ دنیا بھر کے احوال سے بڑی سادگی و عُمدگی سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یسریٰ اصمعی نے خُوب لکھا کہ ’’بچّے والدین ہی کی نہیں، پورے معاشرے کی ذمّےداری ہیں‘‘۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ’’ناقابل فراموش‘‘ کے صفحات بڑی دل جمعی سے ترتیب دیئے جا رہے ہیں۔ کئی کتابوں پر تبصرہ بھی لاجواب ہوتا ہےاوراب آتےہیں، اپنےصفحے پر، دل کش خطوط سے سجا یہ صفحہ جریدے کی جان ہے، مگر نامہ نگاروں سے ایک درخواست ہے کہ جس بھی تحریر کی تعریف کریں، لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔ اِس طرح لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوجاتی ہے۔ اور ہاں، سیّد زاہد علی کا مجھے عرفان جاوید پر اعتراض بالکل پسند نہیں آیا۔ ایک اتنے بڑے رائٹر پر لوگوں نے ناحق ہی تنقید نگاری شروع کردی ہے۔ (شبینہ گُل انصاری، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: عرفان جاوید کی وضاحت کے بعد بلاوجہ تنقید نگاری کا سلسلہ بھی رُک گیا ہے۔ مگر یہ جو آپ نے خط کے آغاز میں نہ جانے کیا کیا القابات لکھ ڈالے ہیں، بہت ممکن ہے، اِسے چاپلوسی کا نام دے کے اب آپ کی ٹرولنگ شروع ہوجائے۔

پہلے صفحے پر خُودکشی، پھانسی

20نومبر کے ایڈیشن میں مکّہ مکرمہ کے مضمون کےساتھ ’’آخری قسط‘‘ لکھا دیکھا، تو دِل اُداس ہوگیا۔ پورے مکّہ مکرمہ کی سیر کرتے ہوئے اِس قسط میں ہم جدید سُرنگوں سے لے کر کبوتر چوک ہوتے ہوئے، مکّہ کی ابابیلوں تک جا پہنچے، قسم سے یوں معلوم ہوتا رہا، جیسے تیرہ اقساط کے اس سفر کے دوران ہم خُود اُن جگہوں پر موجود ہیں۔ ہر مضمون بیش بہا معلومات کا اَن مول خزانہ اور ہر لفظ محبّت و عقیدت میں ڈُوبا، حُسن و دل کشی کی تسبیح میں سُچّے موتیوں کی طرح پرویا ہوا۔ پھر سونے پر سہاگا، ہر ہر واقعے کے ساتھ مستند کتب اور احادیث کے تفصیلی حوالہ جات۔ مضمون ختم کیا، تو بےاختیار منہ سے نکلا کہ ’’اب مدینہ منوّرہ پر بھی رپورٹ آنی چاہیے۔‘‘ اوریہ یقین بھی تھا کہ نجمی صاحب کے لیے مکّہ مکرمہ کی تیرہ ہفتوں کی سیاحت کے بعد یہ ممکن ہی نہ رہا ہوگا کہ وہ سرکار کے شہر میں سلام کیے بغیر واپس آجائیں۔

بڑی بےچینی سے اتوار کا انتظار کرتی رہی اور پھر اتوار کو جیسے ہی اخبار کی آواز آئی، دوڑ کر میگزین کا پہلا صفحہ کھولا، مگر وہاں تو ایک اشتہار تھا۔ اگلے صفحات پر راؤ محمّد شاہد اقبال کا خُودکُشی سے متعلق مضمون تھا۔ غصّے سے میگزین ایک طرف ڈالا اور کچن میں چلی آئی۔ ناشتا ڈائیننگ ٹیبل پر رکھا، تو دیکھا کہ میاں جی میگزین کھولے بڑی توجّہ سے کوئی مضمون پڑھ رہے ہیں۔ میں نے تَپ کرکہایہ خُودکُشی اور پھانسی کے پھندے میں اتنی دل چسپی کیوں پیدا ہوگئی، خیریت تو ہے؟ اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر بولے ’’اللہ کی بندی، مَیں مدینہ منوّرہ پر مضمون پڑھ رہا ہوں۔ کیا… کہتے ہوئے مَیں میگزین پر بھوکی بلی کی طرح جھپٹی۔ بہرحال، مضمون پڑھ کر دل سے بہت دُعائیں نکلیں۔ اگر پروفیسر منصور پاکستان میں ہوتے، تو اب تک تعریف و توصیف کے بہت سے برج کھڑے کردیئے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ دونوں بزرگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ نرجس بیٹا! یہ خُودکشی، پھانسی، قتل وغارت گری جیسے مضامین پہلے صفحے پر نہ چھاپا کرو، میگزین کھولتے ہی شیطان سے ملاقات انزائٹی سی کردیتی ہے۔ (شاہدہ تبسّم، کراچی)

ج: جی بہتر، آئندہ خیال رکھیں گے۔ دراصل جب وہ ’’اشتہارکے پیچھے، آگے، سامنے، نیچے، اوپر سرچشمۂ ٔ ہدایت کیوں؟‘‘ والے صاحبان بہت تنگ کرتے ہیں، تو پھر ہم مجبوراً ابتدائی صفحات پر کوئی سی بھی تحریر جَڑ دیتے ہیں۔ کیوں کہ اشتہارات کی جگہ تو مقرّر ہوتی ہے، اُنہیں ہم ہلا جُلا نہیں سکتے، تو پھر صفحات ہی کی پلیسمنٹ تبدیل کرنی پڑتی ہے۔

ایک کا ادھار باقی ہے

کیسی ہیں ادی (بہن)؟ خدا تعالیٰ سے دُعاگو ہوں کہ آپ اور آپ کی پوری ٹیم خیر و عافیت سے ہو۔ مَیں نے آپ کو تین خط ارسال کیے، جن میں سے دو شایع ہوچُکے ہیں، ایک کا ادھار باقی ہے۔ سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے بھی امّی جان سے متعلق ایک تحریر بھیجی تھی۔ اُمید ہے، جلد شایع ہوجائے گی۔ (اسلم قریشی، گلزارِ ہجری، کراچی)

ج: ہر قابلِ اشاعت تحریر باری آنے پر شایع ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں اُدھار، نقد کی کوئی کہانی نہیں ہے۔

ایک ہی عبارت پانچ بار؟؟

’’سنڈے میگزین‘‘ ہمیشہ سے میرا پسندیدہ جریدہ ہے۔ سب ہی سلسلے سمجھنے، پرکھنے اور سیکھنے کے لیے بہت شان دار ہیں اور آپ کا تمام اسٹاف قابلِ تحسین ہے۔ مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط لکھ کر بھیجنا چاہتی ہوں۔ پلیز، اِسے میگزین کے کسی گوشے میں جگہ عنایت فرمادیں۔ آپ جب حوصلہ بڑھاتی، داد دیتی ہیں، تو دل خُوش ہوجاتا ہے اور پھر بہتر سے بہتر لکھنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی اور میرے خط کا جواب ضرور دیں گی۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج:ارے بھئی، آپ نے یہ پانچ خطوط ایک ساتھ بالکل ایک جیسی عبارت کے لکھ کے کیوں بھیج دیئے۔ ایک پڑھا، دوسرا پڑھا، تیسرا، چوتھا اور پھر تو…حد ہی ہوگئی۔ اگر اِس بات کا یقین نہیں آرہا تھا کہ تم واقعی خط لکھ بیٹھی ہو، تو فوٹو کاپیاں کروا لیتی۔ اتنی محنت، رنگا رنگ لیٹر پیڈزپر صرف تاریخیں تبدیل کرکرکے ایک خط تم نے اِتنی بار لکھ ڈالا۔ اب اس پر تمھیں کیا داد دیں، کیا حوصلہ بڑھائیں۔ فی الحال تو عقل کا دامن تھامے رکھنے کی دُعا ہی دے سکتے ہیں۔

                              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ہدیٰ ایک طویل وقفے کے بعد آگئی ہے اور اس اُمید کے ساتھ کہ آپ اور سب ہی پاکستانی خیرو عافیت سے ہوں گے۔ 11دسمبر کا میگزین نگاہوں کے سامنے ہے اور حسبِ معمول بائیں جانب سے ورق پلٹ رہے ہیں۔ ارے واہ، عیشاء کی چِٹھی ہے، چلو پھر تو مزہ آئے گا پڑھنے میں کہ بڑوں کے خطوط پڑھ کر مُوڈ مزید بُرا ہوجاتا ہے۔ چِٹھی عُمدہ تھی، لیکن یہ کیا، موصوفہ نے اُن صاحب کا انٹرویو پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، جنہیں دنیا چھوڑے ہوئے بھی آٹھ برس بیت چُکے ہیں۔ استغفراللہ، عیشاء یہ کیسی فرمائش تھی بھئی؟ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریر ’’میری جنّت‘‘ انتہائی گِھسے پِٹے موضوع پر لکھی گئی۔ یہ محبّت پیار بس دو دن کا ہوتا ہے، شادی کے بعد وہی گھوڑے اور وہی میدانِ جنگ، ہاہاہا… خدارا، قوم کو ڈھنگ کی ڈگر پر لائو۔ پہلے ہی اس مُلک کی نوجوان نسل اِسی کام کو فرضِ اوّل سمجھتی ہے۔ ارے یہ کیا، مَیں نے تو بھاشن ہی دے دیا، پاٹھ ہی پڑھادیا۔ ہاہاہا… ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اقصیٰ کی تحریر دیکھ کر حیرانی ہوئی اور ساتھ ہی خُوشی بھی۔ ہم تو سمجھے تھے، اب یہ فرصت ملنے ہی پر آئیں گی دوبارہ (اگر اُن کی شادی ہورہی ہے تو…) اور فرصت بھی وہ، جو سُسرال میں کبھی نہیں ملتی، ہاہاہا… ’’جہانِ دیگر‘‘ میرا پسندیدہ صفحہ ہے، ’’دہلی نامہ‘‘ کی دوسری قسط بھی زبردست تھی۔ ڈاکٹر صاحب بھارت پہنچ گئے، یعنی ایک اور پاکستانی مجھ سے پہلے بھارت پہنچ گیا(بس، ایک میں ہی رہ گئی ہوں)۔ خیر، دہلی نامہ پڑھنے میں بہت زیادہ لُطف آرہا ہے اور کیوں نہ آئے، آخر ہمارے معصوم سے پڑوسی مُلک کا سفرنامہ ہے، ہاہاہا… زینب شبیر کی ’’کہی اَن کہی‘‘ بس ٹھیک ہی تھی۔ ہاں، مگر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں حنا ربّانی کے افغانستان میں ہوئے چرچے پر حیرت نہیں ہوئی۔ بلاشبہ وہ ایک باوقارخاتون سیاست دان ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں توقیر صاحب ڈھاکا کی جدائی سے ملنے والے گھائو کی دردناکی بیان کر رہے تھے حالاں کہ جب وہ ساتھ تھے، تو کوئی اُن کی بات سُننے تک پر آمادہ نہ تھا۔ بھارت نے سازش تو کی تھی، مگر پاکستانیوں کا رویّہ بھی بنگالیوں کے ساتھ کیسا تھا، سب ہی جانتے ہیں۔ اُن کو حقوق پورے دیے ہوتے، تو یہ مُلک ہرگز نہ ٹوٹتا۔ اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھی بااختیار لوگ نہیں سُدھرے، اب بلوچستان ہی کو سنبھال لیں۔ میرے منہ میں خاک، کہیں خدانخواستہ ہم پھر کسی بڑے نقصان سے دوچار نہ ہو جائیں۔ سچ تو یہی ہے کہ مُلک کے اِن نام نہاد بڑوں نے مُلک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ چلیں، اب مجھے دیجیے اجازت، اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا۔ (نور الہدیٰ محمد اسلم، جھڈو، وادئ مہران)

ج: ہم تو تمہیں چھوٹی سی بچّی سمجھتے تھے، تم تو بڑی سیانی بیانی نکلیں۔ جب تک تم جیسی ہوش مند، محبِ وطن اور لائق فائق نوجوان نسل اس مُلک میں موجود ہے، اِن شاء اللہ تعالیٰ ہم مزید کوئی نقصان ہرگز نہ اُٹھائیں گے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نےمینگروز پرایک تحریر (اردو ترجمہ) ارسال کی تھی۔ تاحال اُس کا کچھ اتا پتا نہیں کہ شایع بھی ہوگی یا نہیں۔ (شمائلہ ناز)

ج: قابلِ اشاعت ہوگی، تو ضرور شایع ہوجائے گی۔ اگر آپ کانام اب تک ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل نہیں ہوا، تو ہمارے آنے والے جریدوں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی رہیں۔ آپ کو جلد یا بدیر اپنی تحریر کے اسٹیٹس کا علم ہوجائے گا۔

* مَیں نے عطیۂ خون کے موضوع پر ایک معلوماتی مضمون بھیجا تھا۔ اب تک شایع نہیں ہوا، حالاں کہ موضوع کے اعتبار سے کافی اہم مضمون تھا۔ براہِ مہربانی جلداز جلد شایع کردیں۔ (ڈاکٹر شاہ جہاں کھتری، کراچی)

ج: عطیۂ خون کے موضوع پرآپ کا کوئی مضمون ہمیں موصول نہیں ہوا۔ اگر آپ کے پاس مضمون کی کاپی موجود ہے، تو دوبارہ بھیج دیں۔

* کم ازکم ای میل ہی شایع کردیا کریں، دل کوایک ڈھارس سی رہتی ہے کہ چلیں آپ سے کچھ تعلق تو بنا ہوا ہے۔ دو کہانیاں شایع ہو جانے سے کوئی لکھاری نہیں بن جاتا، مگر ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں اپنا نام دیکھنا بالکل اچھا نہیں لگتا بس، اِسی لیے ای میل پر اکتفا کرتی ہوں۔ (فوزیہ ناہید سیال،لاہور)

ج: اور فوزیہ! ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شامل ہونے کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ مذکورہ لکھاری کوسِرےسےلکھنا ہی نہیں آتا۔ اِس فہرست سے متعلق ہم پہلے بھی تفصیلاً وضاحت کرچُکے ہیں کہ اس میں نام شامل ہونے کی متعدّد وجوہ ہیں، صرف تحریر کاخراب ہونا ہی شرط نہیں۔

* مَیں نے جنگ پزل (اردو) کسی کی بھی مدد کے بغیر حل کرکے بھیجا تھا۔ ابھی میری عُمر بھی صرف15سال ہے، مگر مجھےکوئی انعام نہیں ملا۔ (ایم اسجد،کراچی)

ج: بارہا وضاحت کی جاچُکی ہے کہ جنگ پزل ادارتی صفحات کاحصّہ نہیں۔ اس لیے ہمیں اس کی شرائط وضوابط اور انعامات کی تفصیل سے متعلق کچھ علم بھی نہیں۔ اِس کے لیے آپ کو ہمارے لاہور مرکز سے رجوع کرنا ہوگا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk