• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ننکانہ صاحب کا دلخراش واقعہ اور پولیس کا بزدلانہ کردار

سیالکوٹ میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں پولیس کی موجودگی میں دو نوجوان بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر سرعام قتل کر کے چوک پر لٹکانے اور اسی شہر میں ایک فیکٹری کے سری لنکن شہری کو توہین مذہب کے نام پر مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کر کے زندہ جلا دینے کے دلخراش واقعات نے قوم کے سر دنیا کے سامنے جھکا دئیے ۔۔ابھی ان واقعات پر تنقید اور تبصرے جاری تھے کہ ننکانہ صاحب میں مذہب کی آڑھ میں ایک اور واقعہ رونما ہو گیا جس میں کسی تصدیق یا ثبوت کے بغیر سنی سنائی بات پرمشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار شخص کو عدالت میں پیش کئے جانے سے پہلے ہی تھانے پر حملہ کر دیا اور لاک اپ توڑ کر ملزم کو نکال کر تشدد شروع کر دیا لیکن تھانیدار اور تھانے کی باقی فورس ہجوم کے خلاف مزاہمت کرکے ملزم کو بچانے کی بجائے تھانے سے فرار ہو گئے جس کے بعد مشتعل ہجوم نے ملزم پر بہیمانہ تشدد کر کے اسے زندہ جلا دیا۔

بیان کئے گئے تینوں واقعات میں پولیس کا ایک سا رویہ، کردار اور کارکردگی بزدلانہ اور غیرپیشہ ورانہ دیکھنے میں آیا۔ان تمام واقعات میں یہ بات ریکار ڈ پر ہے کہ پولیس تشدد کا نشانہ بننے والوں کو بچانے کی بجائے مشتعل ہجوم کی حوصلہ افزائی کی اور تشدد کر کے ہلاک کرنے اور زندہ جلادینے کا تماشہ دیکھا کیونکہ پولیس کو ایسے بے پناہ ریاستی اختیارات حاصل ہیں جس کے تحت وہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعہ کی ہیئت اور حقیقت تبدیل کر کے پیش کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔

لیکن سیالکوٹ میں اگست 2010 میں پیش آنے والے دلخراش واقعہ کا اس دور کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لے کر پولیس کے بزدلانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویہ بےنقاب کر دیا۔اگرچہ مذہب یا دشمنی کی بنیاد پر رونما ہونے والے واقعات اس قدر دلخراش ہوتے ہیں کہ انہیں مدتوں دل و دماغ سے نکالا نہیں جا سکتا لیکن یہ واقعہ جس میں مشتعل ہجوم نے دو نو عمر سگے بھائیوں اٹھارہ سالہ حافظ مغیث اور پندرہ سالہ منیب کو ڈاکو قرار دے کر انہیں مارنا شروع کیا۔ دونوں بھائیوں نے بھاگ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی لیکن ہجوم بڑھتا اور پر تشدد ہوتا گیا۔ پولیس حکام نے بھی واقعہ کی سنگینی کا اندازہ کئے بغیر غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے یہاں تک کہ دونوں بھائی جان بچانے کے لئے بھاگتے ہوئے تھانے میں پناہ لینے کے لئے وسط شہر پہنچ گئے لیکن مشتعل ہجوم نے انہیں موقعہ نہیں دیا اور چاروں اطراف سے گھیر کر لاٹھیوں اور آہنی را ڈون سے مارنا شروع دیا۔رپورٹس کے مطابق ہجوم کے تشدد شروع ہونے سے قبل ہی پولیس حکام بھی موقع پر پہنچ چکے تھے لیکن پولیس نے نوجوانوں کو ہجوم کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش ہی نہیں کی جس کے نتیجے میں بے قابو ہجوم کی جانب سے تشدد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور نوجوان ادھ موا ہو گئے لیکن تشدد کرنے والوں کی اس حالت میں بھی تسلی نہیں ہوئی تو دونوں کو نیم مردہ بھائیوں کو درختوں کے ساتھ الٹا لٹکا کر لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیا اور پولیس حکام کی موجودگی میں دونوں کی آخری سانس نکلنے تک مارتے رہے لیکن پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی اور دونوں بھائیوں کی لاشیں تادیر درختوں سے لٹکتی رہیں اور پولیس حکام کی بے حسی کا مذاق اڑاتی رہیں۔

پولیس حکام نے انسانیت کی تاریخ کے اس بدترین واقعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس ریٹائر ڈ کاظم کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کر دی، کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پولیس کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس جائے واقعہ پر موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی اور اس نے پر تشدد ہجوم کو دونوں بھائیوں کے قتل کا موقع فراہم کیا۔ نتیجتاً عدالت نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں اس بہیمانہ قتل کے ذمہ دار 9 پولیس افسروں اور اہلکاروں سمیت پندرہ افراد کو عبرتناک سزائیں دیں جن میں چھ لوگوں کو سزائے موت اور 9 پولیس اہلکارں کو تین تین سال قید کی سزائیں دیں۔

دسمبر 2021کو پیش آنے والے المناک واقعہ نے جس میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے مینیجر پریما ڈیاوندانا کمارا کو مذہب کےنام پر ایک مشتعل ہجوم نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کے اسے زندہ جلادیا، دنیا بھر میں ملک کی تذلیل کا باعث بنا۔اس شرمناک سانحہ کی پوری دنیا کے علاوہ پاکستان کے سیاسی، عسکری اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔لیکن ملک میں بڑھتے ہوئے ایسے واقعات اس بات کا اقرار ہیں کہ ان کی واقعات کی روک تھام کیلئے نہ تو کوئی موثر قانون سازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیا میں پاکستان کے انتہا پسند ملک ہونے کی نفی کی جا سکتی ہے۔

مذہب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کا ایک واقعہ گزشتہ ہفتے راولپنڈی کے گوالمنڈی تھانہ کی حدود میں بھی پیش آیا جب علاقے کے لوگوں نے ایک دکاندار کے ساتھ مذہب کے نام پر تنازعہ کھڑا کر لیا جو رفتہ رفتہ شدت اختیار کر گیا لیکن علاقے کی پولیس حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے موقعہ پر پہنچ گئی اور ملزم کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کیا اور لاک اپ میں بند کر دیا لیکن اس کے باوجود ہجوم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا اور مشتعل ہجوم نے تھانے کا محاصرا کرنے اور ملزم کو لاک اپ سے نکال کر تشدد کرنے کے لئے تھانے پر حملہ کر دیا۔یہاں پولیس کے دلیرانہ، بروقت اور پیشہ ورانہ حکمت عملی کا ذکر ضروری ہے جس نے اضافی نفری طلب کی اور بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنے اور بپھرے ہوئے ہجوم کو تھانے سے دور ہٹانے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی جو تقریباً نصف شب کے بعد تک جاری رہی۔ دوسری طرف پولیس نے بد ترین حالات سے نبٹنے کے لئے ملزم کو بکتربند گاڑی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا اور حالات پر قابو پا لیا۔۔جہاں پولیس کی غلط کاریوں پر تنقید ضروری ہے وہاں ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی تکمیل پر تعریف اور حوصلہ افزائی بھی لازم ہے۔قابل تقلید ہے وہ پولیس فورس جنہوں ایک ملزم کی جان بچا لی جو ان کی امان میں تھا۔

تازہ ترین