نیب ترامیم سے متعلق عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہٰی کے خط کی تعریف کر دی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو رپورٹ ہوا اس پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جو رپورٹ ہوا وہ ناصرف سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا بلکہ جانبدرانہ بھی تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ میڈیا کے دوستوں کو عدالتی ردعمل نہ آنے کو احترام سے دیکھنا چاہیے، سپریم کورٹ کا 2019ء کا فیصلہ میڈیا کنٹرول کی بات کرتا ہے، میڈیا کنٹرول پر نہیں، باہمی احترام پر یقین رکھتے ہیں، اٹارنی جنرل کے خط کو سراہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ تنقید کا اگلا ہدف بن سکتے ہیں جو مناسب لگا وہ کیا، مسئلہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا نہیں ہے، سوشل میڈیا پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد عطاء الہٰی نے عدالتی سوالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے ایک ممبر کی مجموعی تنخواہ 1 لاکھ 88 ہزار ہے، عدالت نے پی ٹی آئی ممبرز کی تنخواہوں سے متعلق سوال کیا تھا، ان ممبران قومی اسمبلی نے اپریل سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے سفری اخراجات اور لاجز سمیت دیگر مراعات لیں، قومی اسمبلی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے، سوشل میڈیا پر عدالتی ریمارکس کے متعلق ایک خط لکھا ہے، سوشل میڈیا پر ہونے والی غلط رپورٹنگ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور آپ کی کاوش کو سراہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں لیکن یہ جانتے ہوئے کہ تنقید کا اگلا ہدف بن سکتا ہوں جو مناسب لگا وہ کیا، سپریم کورٹ میڈیا رپورٹنگ سے متعلق گائیڈ لائنز 2 فیصلوں میں جاری کر چکی ہے، مسئلہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا نہیں ہے، سوشل میڈیا پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے، اس کو میں فیک نیوز نہیں کہوں گا، ایک ایجنڈے کے تحت سوشل میڈیا پر اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سمجھداری اور ذمے داری کا ثبوت دیا ہے، کچھ غلط معلومات عدالتی کارروائی سے منسوب کی گئیں، جو رپورٹ ہوا وہ ناصرف سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا بلکہ جانبدرانہ بھی تھا، جو رپورٹ ہوا اس پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں، میڈیا کے دوستوں کو عدالتی ردِعمل نہ آنے کو احترام سے دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا 2019ء کا فیصلہ میڈیا کنٹرول کی بات کرتا ہے، میں میڈیا کنٹرول پر نہیں، باہمی احترام پر یقین رکھتا ہوں۔
سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے روسٹرم پر آنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخدوم صاحب! یاددہانی کرا رہا ہوں کہ آپ کے دلائل میں11 سماعتیں گزر گئیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب کے دلائل میں 6 ماہ لگے تھے، سیاسی معاملات میں کئی ملکوں میں عدالتی کارروائی لائیو ریکارڈ ہوتی ہے، لائیو اسٹریمنگ سے آفیشل ریکارڈ رہتا ہے اور ابہام کی گنجائش نہیں بچتی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عدالتی کارروائی کی براہِ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیرِ التواء ہے، جلد ہی فل کورٹ میں عدالتی کارروائی براہِ راست دکھانے کا معاملہ رکھیں گے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے استعفوں کی منظوری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، پی ٹی آئی نے پھر استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا، ایک ہی وقت میں استعفوں کی منظوری اور منظور نہ کرنے کی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں، جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے قانون سازی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے، سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہو جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہر قانون عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، عدالت کیسے تعین کرے گی کہ کون سا قانون زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اہمیت کسی بھی قانون کو چیلنج کرنے کی بنیاد نہیں، عوامی اہمیت کی بنیاد پر قوانین کا جائزہ لیا تو درخواستوں کا سیلاب آجائے گا، کون سے مقدمات عوامی اہمیت کے ہیں آئین میں واضح نہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ تحریکِ انصاف کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں آتا تو عدالت کے لیے زیادہ مناسب ہوتا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ براہِ راست سپریم کورٹ آنے سے ایک فریق کا اپیل کا حق ختم ہوجاتا ہے، بعض اوقات ایک صوبہ کسی قانون کو اچھا دوسرا برا کہتا ہے، ایسی صورتِ حال میں کوئی بھی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ خود تعین کرتی ہے کہ اس نے اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں سپریم کورٹ ہائی کورٹس میں زیرِ التواء مقدمات بھی منگواتی رہی ہے۔